فکر و نظر

رویش کا بلاگ: ریلوے میں چوری ڈکیتی ڈبل ہوئی ہے اور وزیر ریل تعریف کے ری ٹوئٹ کرتے نہیں تھک رہے

وزیر ریل کے ٹوئٹر ہینڈل پر جاکر  دیکھیے ۔وہ انہی ٹوئٹ کو ری ٹوئٹ کرتے ہیں جس میں مسافر تعریف کرتے ہیں۔ مگر سیکڑوں کی تعداد میں طالب علم امتحان کے سینٹر  کو لےکر شکایت کر رہے ہیں،ان پر کوئی رد عمل نہیں ہے۔

(فائل فوٹو : پی ٹی آئی)

(فائل فوٹو : پی ٹی آئی)

مسافروں کو پتہ ہے کہ چلتی ٹرین میں کتنی چوری ہو رہی ہے۔ 2016 میں جتنی چوریاں ہوتی تھیں وہ 2017 میں ڈبل ہو گئیں۔ ڈکیتی کے واقعا ت میں بھی 70 فیصد کا اضافہ ہے۔ مہاراشٹر،اتر پردیش اور مدھیہ پردیش میں سب سے زیادہ چوری اور ڈکیتی کے معاملے درج ہوئے ہیں۔ انڈین ایکسپریس کے مہیندر سنگھ منرل نے اس پر ایک رپورٹ لکھی ہے کہ چوری اور ڈکیتی کے بڑھتے واقعات کے مدنظر ریلوے سکیورٹی فورس  نے ایف آئی آر اور معاملوں کی تفتیش کو لےکر اور زیادہ حقوق کی مانگ کی ہے۔

2017 میں  پورے ملک  میں 71055 چوری، ڈکیتی اور دوسرے جرم کے معاملے درج ہوئے ہیں۔ 2016 میں ان معاملوں کی تعداد 39355 تھی۔ 2016 میں ریلوے میں ریپ  کے 604 معاملے درج ہوئے تھے جو 2017 میں بڑھ‌کر 641 ہو گئے۔ یہ واضح نہیں ہے کہ یہ ریپ  کہاں ہوئے۔ چلتی ٹرین میں یا پلیٹ فارم پر یا اسٹیشن کے احاطے میں۔ اس حساب سے تجزیہ نہیں ہے۔

آپ وزیر ریل کے ٹوئٹر ہینڈل پر جاکر دیکھیے۔ وہ انہی ٹوئٹ کو ری ٹوئٹ کرتے ہیں جس میں مسافر تعریف کرتے ہیں۔ مگر سیکڑوں کی تعداد میں طالب علم امتحان کے سینٹر  کو لےکر شکایت کر رہے ہیں، ان پر کوئی رد عمل نہیں ہے۔ جیسے یہ لاکھوں طالب علم ووٹر  ہی نہ ہوں یا شہری ہی نہ ہو۔ جب کوئی شکایت کرے اس کو بھی ری ٹوئٹ کرنا چاہیے۔ وزرا  کو صرف تعریف سننے کی بیماری لگا ہوئی ہے۔ راجستھان کے اشوک چودھری نے وزیر ریل  کو ٹوئٹ کیا ہے کہ ‘ سر، میں راجستھان کے ناگور ضلع‎ سے ہوں اور میرا امتحان سینٹر ریلوے گروپ سی کا پٹیالہ ، پنجاب میں آیا ہے تو سوچ رہا ہوں کہ ریلوے گروپ ڈی کے لئے یہی رک جاؤں، کیا پتا واپس سینٹر یہی دے دے۔ ‘

اکشے اگروال نے ٹوئٹ کیا ہے کہ ‘ راجستھان سے صرف 4.5 لاکھ امیدوار ہیں جس کے لئے 14 دنوں تک 3 شفٹ میں پیپر لیا جائے‌گا یعنی کہ 42 ٹائمس میں، اس کے باوجود بھی ایگزام  سینٹر2000-800 کلومیٹر دور دئے گئے ہیں۔ ٹکٹ بھی دستیاب نہیں ہے۔ میں آپ کو اسکرین شاٹ بھیجتا ہوں۔ رحم کرو پیوش  گوئل جی۔ ‘ متھلیش یادو نے ٹوئٹ کیا ہے کہ سر میرا ہوم ٹاؤن کولکاتہ ہے۔ میرا سینٹر بھوپال دے دیا گیا ہے۔ کیا آپ امتحان سینٹر بدل سکتے ہیں۔ بہار سے راہل جائسوال نے ٹوئٹ کیا ہے کہ سر میں مشکل میں ہوں۔

میرا 10 اگست کو حیدر آباد میں ریلوے کا امتحان ہے اور اگلے دن مجھے گرامین بینک کاامتحان دینا ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے۔ فلائٹ کی میری اوقات نہیں ہے۔ مکیش نے لکھا ہے کہ ایک لڑکی کا سینٹر بہار کی کھگڑیا سے بھوپال پڑا ہے۔ کیا آپ نزدیک کے کولکاتہ میں سینٹر نہیں دے سکتے تھے؟ مجھے ابھی بھی امتحان دینے والوں  کے میسج  مل رہے ہیں۔ سینٹر دیکھ‌کر بے چین  ہو گئے ہیں۔ ایس سی  کے طالب علم بھی پریشان ہیں۔ ان کو حکومت پاس دیتی ہے مگر ان کے ضلع سے نہ تو کوئی ٹرین ہے اور نہ ٹرین میں جگہ اس لئے وہ پاس بھی کسی کام کا نہیں ہے۔

مدھیپورا کے ایک طالب علم نے لکھا ہے کہ وہاں سے اندور کوئی ٹرین نہیں جاتی ہے۔ ریلوے کا فری پاس ہونے کے بعد بھی کوئی فائدہ نہیں ہے۔ پٹنہ کی لائن پر پاس دکھاکر ٹکٹ نہیں دیا جا رہا ہے۔ وہاں بولا جاتا ہے کہ اپنے ضلع کے ریلوے اسٹیشن پر جاؤ۔ مجھے سمجھ نہیں آ رہا ہے کہ کیا کریں۔ بزنس اسٹینڈرڈ میں پہلے صفحہ پر بڑی خبر چھپی ہے کہ ریلوے کے اس امتحان کا کام سافٹ ویئر کمپنی TCS کو دیا گیا ہے۔ اسی کمپنی کے پاس پاسپورٹ بنانے کا بھی ٹھیکہ ہے۔ 2016 میں ٹی سی ایس کمپنی 18000 عہدوں کے لئے امتحان کرا چکی ہے جس میں 92 لاکھ لوگ شامل ہوئے تھے۔ اب ریلوے کا امتحان دینے والے ہی بتا سکتے ہیں کہ دو سال پہلے بھی کیا اسی طرح سینٹر پڑا تھا، کیا سینٹر کی کمی ہو گئی تھی جس کی وجہ سے دوسرے تیسرے ریاستوں میں بھیجا گیا تھا؟

جب ٹی سی ایس 92 لاکھ لوگوں کا امتحان کرا چکی ہے تو پھر 47.56 لاکھ لوگوں کا امتحان کرانے میں اتنی شکایتں کیوں آ رہی ہیں؟ اخبار میں یہ نہیں چھپا ہے کہ اس امتحان کے لئے ٹی سی ایس کو کتنا پیسہ دیا گیا ہے۔ حکومت بتا رہی ہے کہ آن لائن امتحان لینے سے 4 لاکھ درخت نہیں کٹیں‌گے کیونکہ کاغذ بچیں‌گے۔ کیا واقعی  اتنے درخت بچتے ہیں، ہندوستان میں کتنے درخت ہیں، ان میں سے کتنے روز کٹتے ہیں، کتنے بچا لئے جاتے ہیں اس کا کوئی سیدھا ڈیٹا ہوتا بھی ہے؟ یہ کیسے گنا جاتا ہے؟ ہمیں نہیں معلوم۔

کیا واقعی آن لائن امتحان ہونے سے 4 لاکھ درختوں سے بننے والے اے 4 سائز کے پیپر  کی پیداوار کم ہوئی ہوگی؟ حکومت کو اے-4 سائز کے پیپر  بنانے والی کمپنیوں سے بھی پوچھ‌کر بتانا چاہیے ۔ یہ فخر کی بات نہیں ہے کہ ایک لاکھ عہدوں کے لئے ڈھائی کروڑ طالب علم امتحان دے رہے ہیں۔ ریلوے کے بدانتظامی کی بات ہے۔ شرم کی بات ہے۔ اگر ریلوے وقت وقت پر بحالی کرتی رہتی تو ایک ساتھ ایک لاکھ عہدوں کی بحالی کی ضرورت نہیں ہوتی اور اس کی تیاری میں طلبہ کی جوانی بھی برباد نہیں ہوتی۔

4 سال سے لڑکے انتظار کر رہے ہیں، بہتوں  کی عمر نکل گئی، اور ریلوے ساری بھرتیوں کو جمع کرکے اس میں سے بھی آدھی سے کم کی ویکنسی نکال‌کر فخر کے آئٹم کی طرح پیش کر رہی ہے۔ ویسے ریلوے کے پاس ابھی بھی ڈھائی لاکھ عہدے خالی ہیں جس میں سے صرف ایک لاکھ عہدوں پر بحالی کی تیاری ہو رہی ہے۔ جب تک باقی کی ہوگی یا نہیں ہوگی، کتنے نوجوانوں کی عمر نکل جائے‌گی۔

(یہ مضمون بنیادی طور پر رویش کمار کے بلاگ قصبہ  پر شائع ہوا ہے۔ )