خبریں

مدھیہ پردیش : ایک غیر سیاسی تنظیم جس نے بے روزگاری کو انتخابی مدعا بنا دیا

بےروزگار سیناکی تشکیل اسی سال ہوئی اور شروعات سے ہی اس نے بےروزگاری کے مسئلے پر مسلسل آواز اٹھائی۔ خاص طور پر  صوبہ میں پڑھے لکھے نوجوانوں کو نوکری نہ ملنا اور بےروزگاری کی بڑھتی شرح کو لے کر اس نے احتجاج کئے۔

فوٹو: ٹوئٹر

فوٹو: ٹوئٹر

مدھیہ پردیش میں اسمبلی انتخابات میں بمشکل 4مہینے باقی ہیں مگر اہم  بات یہ ہے ایک گروپ جس نےبےروزگاری کوانتخابی سال میں مدعا  بنا دیا ہے، وہ ایک غیر سیاسی تنطیم ہے۔’بےروزگار سینا’ کی تشکیل اسی سال ہوئی  اور شروعات سے ہی  اس نے  بےروزگاری کے مسئلے پر مسلسل آواز اٹھائی۔ خاص طور پر  صوبہ میں پڑھے لکھے نوجوانوں کو نوکری نہ ملنا اور بےروزگاری کی بڑھتی شرح کو لے کر اس نے احتجاج کئے۔سڑک پر مظاہروں  کے علاوہ بےروزگار سینا کے کارکنان اعداد و شمار کی روشنی میں  سرکار کے دعوں   پر بھی سوال اٹھاتے رہے ہیں۔

تنظیم کے روح رواں اکشے ہنکا   کہتے ہیں کہ  مدھیہ پردیش میں  بےروزگاری کا مسئلہ بےحد سنگین ہے ، سوا کروڑ سے بھی زیادہ لوگ بے روزگار ہیں اور  سرکار نوکریاں مہیا کرنے میں ناکام رہی ہے۔ان کا مزید کہنا ہے کہ ؛”سوچیے کتنے ہنگامی حالات ہیں کہ صوبے میں بے روزگاری کی وجہ سے نوجوان خود کشی کر رہے ہیں ۔””ہمارے لئے یہ اطمینان کی بات ہے کہ ہماری جد و     جہد  اس حد تک کام آئی   کہ سرکار پر دباؤ  پڑا  ، الیکشن  ایئر  میں یہ مدعا بنااور حکومت کو نوکریاں دینے کا وعدہ کرنا پڑا ، ساتھ ہی ہر ضلع میں روزگار دینے  کے لئے میلے لگانے کی شروعات کرنی پڑی”۔سرکار نے  62000 ٹیچرز کے  جلد تقرر کا بھی اعلان کیا ہے۔”یہ تو جد و جہد کی شروعات ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ سرکار’رایئٹ ٹو امپلائمنٹ’ بل لائے”۔

بے روزگار سینا  نے ایک طرف کانٹریکٹ پر کام کر رہے ملازمین کے استحصال پر احتجاج کیا تو دوسری طرف  ان نوجوانوں کی آواز اٹھائی جن کا سلیکشن ہو گیا تھا مگر اس کے بعد بھی تقرری نہیں ہوئی۔ اسی طرح  ایجوکیشن سیکٹر میں بد عنوانیاں اجاگر کرنے   میں بھی بےروزگار سینا   پیش پیش ہے۔اس کے کارکنان کا دعویٰ ہے کہ مدھیہ پردیش میں تقریباً 30 ہزار نوجوان  اس سے جڑ چکے ہیں اور یہ تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔ کئی شہروں اور اضلاع میں بےروزگار سینا کی لوکل یونٹس بھی  بن چکی ہیں اور یہ سلسلہ جاری ہے۔

Volunteers

 ہنکا کہتے ہیں کہ مدھیہ پردیش کی صورتحال بے حد خراب ہے، نئی  انڈسٹریز  یہاں نہیں آر ہی  ہیں اور پڑھے لکھے نوجوانوں کے پاس صوبے سے باہر جانے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے۔ہنکا جو کہ ایک انجینیر ہیں، پہلے عام آدمی پارٹی سے منسلک تھے مگر کافی  عرصہ پہلے وہ اسے چھوڑ چکے ہیں۔ انکا  کہنا ہے کہ انہیں اب سیاست میں کوئی دلچسپی نہیں رہی۔ “اب میں کسی سیاسی پارٹی میں نہیں جاؤنگا، ایک تجربہ کافی رہا- میں نے یہ طے کر لیا تھا کہ اب میں بس  سماجی مسائل پر  توجہ دوں گا”۔

نومبر کے مہینے میں اسمبلی انتخابات ہونے ہیں۔ بےروزگار ی کا مدعا ، شیوراج چوہان سرکار کے لئے ایک بڑی پریشانی کا سبب ہے۔ در حقیقت کسانوں کی  ناراضگی کے بعد، یہی سب سے بڑا مدعا ہے جو بی جے پی کو پریشانی میں دال سکتا ہے۔اس سے پہلے  ویاپم  گھوٹالے  نے یہ ثابت کر دیا تھا کہ مدھیہ پردیش میں کس طرح نوجوانوں کے کیریئر کے ساتھ کھلواڑ کیا گیا تھا۔ایک  کے بعد ایک متعدد ‘انویسٹرز میٹ’ کے با وجود مدھیہ پردیش میں انڈسٹریز نہیں آئیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ مدھیہ پردیش کے نوجوان کو  نوکری کے لئے  دوسرے صوبوں کا رخ کرنا پڑتا ہے۔ 15 سال سے بی جی پی کی سرکار ہے اور اس لیے کسی اور جماعت  کو الزام دینا بھی آسان نہیں۔

ایسے میں بےروزگار سینا  نے اس ایشو پر سرکار کو گھیر کر پریشانی  میں ڈالا ہےایسا نہیں ہے کہ پہلے یہ ایشو  نہیں تھا، مگریہ بھی سچ ہے کہ صوبے کے سیاست داں  یا تو یاترا نکالتے تھے یا جذباتی بیان بازی ہوتی تھی ۔ بےروزگاری پر خاص فوکس نہیں تھا۔ بلا شبہ گزشتہ آٹھ مہینوں میں اس بالکل نئئ تنظیم نے  مستقل آواز اٹھا کر سیاسی پارٹیوں کو بھی مجبور کر دیا کہ وہ بے روزگاری کے مسئلے پر خاموش نہ رہیں اور  وہ اپنا  رویہ صاف کریں۔