فکر و نظر

کیا رافیل سودا بی جے پی کا بوفورس ثابت ہوگا؟

کانگریس کو لگتا ہے کہ اس نے بی جے پی کی کمزور نبض پکڑ لی ہے اور وہ اس کو 2019 کے عام انتخابات تک ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہتی ہے۔

نئی دہلی  میں رافیل سودا  تنازعہ کو لےکر مودی حکومت کے خلاف مظاہرہ کرتے یوتھ کانگریس کے ممبر/فائل فوٹو : پی ٹی آئی

نئی دہلی  میں رافیل سودا  تنازعہ کو لےکر مودی حکومت کے خلاف مظاہرہ کرتے یوتھ کانگریس کے ممبر/فائل فوٹو : پی ٹی آئی

رافیل سودا  تنازعہ کے بادل جس طرح سے چھٹنے  کا نام نہیں لے رہے ہیں اور جس طرح سے راہل گاندھی مسلسل  وزیر اعظم پر اس سودے میں اپنے دوستوں کو فائدہ پہنچانے کا الزام لگا رہے ہیں، اس کو دیکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ 2019 کے انتخابات سے پہلے یہ تنازعہ بی جے پی کا بوفورس لمحہ ثابت ہو سکتا ہے۔ حالانکہ، انتخابات کے اس موسم میں بی جے پی ان الزامات کو ہوا میں اڑا دینے کی پوری کوشش کر رہی ہے، مگر سینئر کانگریسی رہنما اس کو ‘ بوفورس کی واپسی ‘ کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔

 کانگریس کو لگتا ہے کہ اس نے بی جے پی کی کمزور نبض پکڑ لی ہے اور وہ اس کو 2019 کے انتخابات سے پہلے تک ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہتی، جو کہ محض 8 مہینے کے بعد ہے۔ اس مسئلے پر کئی کانگریسی اور حزب مخالف کے رہنماؤں سے بات چیت کرنے کے بعد کئی اہم مسئلے ابھر‌کر سامنے آئے۔ ایک، اعلیٰ کانگریسی رہنما نے کہا کہ پچھلے ہفتہ کانگریس ورکنگ کمیٹی کی اپنی پہلی میٹنگ میں راہل گاندھی نے پارٹی کو یہ واضح کر دیا کہ رافیل سودا  اور اس میں قریبی لوگوں کو فائدہ پہنچانے کے الزام پارٹی کے ایجنڈے میں سر فہرست ہے۔

گاندھی نے اس بات پر زور دیا کہ وہ پارٹی سے اس مدعے کو پارلیامنٹ کے اندر اور باہر پورے زور شور سے اٹھانے کی امید کرتے ہیں۔ گاندھی نے کہا کہ وہ ذاتی طور اس بات کے لئے ہر رہنما کی نگرانی کریں‌گے کہ انہوں نے رافیل سودے  پر بی جے پی کو زمین پر پٹکنے کی ذمہ داری کو کتنا پورا کیا ہے۔ دو، یہ گاندھی کے سوٹ بوٹ کی سرکار  والے  طنز کی توسیع ہے، جس نے مودی کو حصول اراضی قانون کو مستقل طور پر صندوق میں بند کرنے پر مجبور کر دیا۔ کئی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ پارلیامنٹ میں گاندھی کو نشانہ بناکر کیا گیا حملہ کافی تیز تھا :

‘ اس قرار کو ایچ اے ایل (ہندوستان ایروناٹکس لمیٹڈ، جو کہ ایک عوامی شعبہ کی کمپنی ہے) سے چھین‌کر ایک ایسے آدمی کو دے دیا گیا جو قرض میں ڈوبا ہوا ہے اور جس کے پاس اس شعبہ کا کوئی تجربہ نہیں ہے۔ ‘ کانگریسی رہنماؤں میں ایوان کو گمراہ کرنے کے لئے مودی اور وزیر دفاع نرملا  سیتارمن کے خلاف خصوصی اختیارات کی پامالی کی تجویز کو منظوری کرنے کو لےکر آپس میں ہوڑ مچ گئی۔ اس تجویز پر کانگریس کے اہم پارٹی وہپ (Whip) جیوترادتیہ سندھیا اور ایوان میں کانگریس کے رہنما  ملکارجن کھڑگے کے دستخط ہیں۔ تجویز  کے کئی سیٹ سونپے گئے ہیں، جن پر راجیو ساتو، ویرپا  موئیلی  اور کے وی تھامس کے دستخط ہیں۔

گاندھی مسلسل مودی کو کئی ارب پتیوں کے ساتھ ان کی قربت کو لےکر نشانہ بنا  رہے ہیں، جن میں گوتم اڈانی، انل امبانی اور اجے  پیرامل شامل ہیں۔ مصدقہ  ذرائع کا کہنا ہے کہ کانگریس نے مودی اور ان کے دوستوں کو  نشانہ بنانے والی   ایک طنزیہ  تشہیر مہم کی اسکیم بنائی ہے، جن کے بارے میں کانگریس یہ کہے‌گی کہ مودی ان کے ‘ اچھے دن ‘ کے لئے کام کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی رافیل سودے  پر امول کے اشتہار نے کانگریسی رہنماؤں کو خوش کر دیا ہے کیونکہ اس کو عوام کی منظوری  کا بیرومیٹر مانا جاتا ہے۔

ایک سینئر  رہنما نے کہا کہ امول کی لڑکی اور راہل گاندھی صرف عوام کی فکر کو آواز دے رہے ہیں کہ مودی حکومت صرف مٹھی بھر ارب پتیوں کے لئے کام کرتی ہے۔ برائے مہربانی مجھے یہ بتائیے کہ آخر کن لوگوں نے بی جے پی کو ایشیا کی سب سے دولتمند پارٹی بنایا ہے؟ ‘

راہل گاندھی کا ٹوئٹ : 2014 سے ہندوستان کے وزیردفاع کی کرسی 4 لوگوں کے درمیان گھوم چکی ہے۔ اب ہمیں اس کی وجہ معلوم ہے۔ اس نے وزیر اعظم کو ذاتی طور پر فرانس کے ساتھ نئے سرے سے رافیل قرار پر سودے بازی کرنے کا موقع دیا۔ ہندوستان کے پاس 4 ‘ رافیل ‘ وزیر تھے، لیکن ان میں سے کسی کو نہیں معلوم ہے کہ فرانس میں کیا ہوا۔ سوائے پی ایم کے۔ لیکن وہ بولیں‌گے نہیں۔

بی جے پی نے ضرور یہ یقینی بنانے کی کوشش کی ہے کہ پالتو میڈیا رافیل سودے  کو نہ اچھالے، لیکن یہ مدعا ٹھنڈا پڑتا نہیں دکھ رہا ہے۔ اس سے بھی زیادہ حزب مخالف سیاست کا ابھار بی جے پی کے لئے پریشانی کا سبب بن گیا ہے۔ ذرا اس پر غور کیجئے: اس وقت کے خارجہ سیکریٹری ایس  جے  شنکر، جن کو مودی نے اپنی خارجہ پالیسی کی دیکھ ریکھ کرنے کے لئے منتخب کیا تھا، انہوں نے اپریل 2015 میں وزیر اعظم کے فرانس سفر سے پہلے ایک رسمی پریس کانفرنس کو خطاب کیا تھا اور میڈیا سے کہا تھا کہ عوامی شعبہ کا ایچ اے ایل رافیل کا شراکت دار تھا۔

جے  شنکر کو مودی کا کافی قریبی مانا جاتا تھا۔ اس لئے یہ سوال اٹھتا ہے کہ آخر وہ عوامی طور پر ایسا کوئی دعویٰ کیوں کریں‌گے، جو پلٹ‌کر مودی کے لئے سردرد بن جائے۔ وزیر اعظم غیر ملکی سر زمین پر دفاعی قراروں  کا اعلان نہ کرکے گھر لوٹ‌کر دفاعی معاملوں کی ٹاپ پالیسی بنانے والی  باڈی کی کابینہ کمیٹی (سی سی ایس)سے ہری جھنڈی ملنے کے بعد ہی اس کا اعلان کرتے ہیں۔ لیکن مودی نے 2015 میں اس روایت کو توڑ دیا۔ اس سے پہلے تک ایسے قراروں  کا اعلان وزیر دفاع کیاکرتے تھے۔

لیکن مودی نے تمام روایتوں کو توڑتے ہوئے پیرس میں ہی اس سودے  کا اعلان کر دیا، جس نے اس وقت کے وزیردفاع منوہر پریکر کو تعجب میں ڈال دیا۔ یہ جلدبازی تب اور صاف دکھائی دیتی ہے، جب ہم اس حقیقت کو دیکھتے ہیں کہ سکیورٹی معاملوں  کی کابینہ کمیٹی کی میٹنگ کی ہی نہیں گئی۔

پیرس میں اس وقت کے فرانسیسی صدر فرانسوا اولاند کے ساتھ وزیر اعظم نریندر مودی/ فائل فوٹو : رائٹرس

پیرس میں اس وقت کے فرانسیسی صدر فرانسوا اولاند کے ساتھ وزیر اعظم نریندر مودی/ فائل فوٹو : رائٹرس

دلچسپ یہ ہے کہ ایچ اے ایل سے اس قرار کو چھینے جانے سے پہلے ڈسالٹ ایوئیشن اور ایچ اے ایل، دونوں کے ہی سینئر  افسروں نے مودی کے مارچ 2015 میں  پیرس جانے سے پہلے عوامی  بیانات میں یہ کہا تھا کہ یہ قرار 90 فیصد ہو چکا تھا۔ 90 فیصدی سے ہو چکے قرار کو اچانک رد  کر دیا گیا۔ آخر اچانک کیا بدل گیا؟ یہاں تک کہ بی جے پی کے معاون بھی اس نئے قرار کی قیمت کو لےکر حکومت کے ضدی  رویے اور رازداری کو لےکر پریشان ہیں۔

این ڈی اے کے معاون گروپ میں سے ایک وزیر نے کہا، ‘ نظریہ کی اہمیت ہوتی ہے۔ یہاں تک کہ سیتا کو بھی اگنی پریکشا سے گزرنا پڑا تھا۔ پھر مودی کو لوک سبھا میں اگنی پریکشا کا سامنا  کرنے میں گریز کیوں ہے؟ ‘ دلچسپ یہ ہے کہ بی جے پی کی  معاون شیوسینا کے صدر ادھو ٹھاکرے نے 25 جولائی کو 2جی معاملے کا ذکر کیا اور مودی حکومت سے پوچھا کہ آخر وہ اس پر کیا کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ یہاں یہ درج کیا جا سکتا ہے کہ جب 2جی کا مقدمہ چل رہا تھا، تب 2015 میں انل امبانی گروپ کو رافیل کے پارٹنر کے طور پر شامل کیا گیا اور ایچ اے ایل کو باہر کا راستہ دکھا دیا گیا۔

مختلف پارٹیوں  کے رہنما یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ بھلے  مودی نے فرانسیسی فرم کے ساتھ نئے سرے سے قرار کیا ہو، لیکن اس قرار سے ایچ اے ایل کو کیوں باہر کیا گیا؟ ایک  سینئر  بی جے پی رہنما کا کہنا ہے، ‘ آخر ایک نجی  کمپنی کو مدد پہنچانے کے لئے ایک پبلک انٹر پرائز کے ساتھ حکومت کو سوتیلا رویہ  کیوں اپنانا چاہیے، وہ بھی ایک ایسی کمپنی کے لئے جس کے پاس دفاعی شعبہ میں کوئی سابقہ تجربہ یا کوئی پرانا ٹریک ریکارڈ نہیں ہے اور جو اس مالدار قرار کا حصہ بننے سے محض 2 ہفتہ پہلے ہی وجود میں آئی تھی؟ ‘

ایسے میں جبکہ انتخابات سر پر ہیں اور کانگریس نے رافیل سودے  کو ہمجولی کرپشن  کا مترادف بنانے کے لئے کمر کس لی ہے، تاریخ ایک طرح سے خود کو دوہرارہی ہے۔ یہ بات الگ ہے اس سب کے بیچ  مودی حکومت نے بوفورس معاملے میں نئے سرے سے ایف آئی آر دائر کر دیا ہے۔

(سواتی چترویدی سینئر صحافی ہیں۔ )