فکر و نظر

رویش کا بلاگ : نوجوانوں کو پتہ ہونا چاہیے کہ روزگار کو لےکر اُن کے وزیر اعظم کا نظریہ کیا ہے ؟

ہندوستانی نوجوان پرماننٹ روزگار کی تیاری میں جوانی کے پانچ پانچ سال ہون کر رہے ہیں۔ان سے یہ بات کیوں نہیں کہی جا رہی ہے کہ روزگار کا چہرہ بدل گیا ہے۔  اب عارضی کام ہی روزگار کا نیا چہرہ ہوگا۔

لوک سبھا میں عدم اعتماد تحریک  پر جواب دیتے وزیر اعظم نریندر مودی۔  (فائل فوٹو : پی ٹی آئی)

لوک سبھا میں عدم اعتماد تحریک  پر جواب دیتے وزیر اعظم نریندر مودی۔  (فائل فوٹو : پی ٹی آئی)

‘ فورتھ انڈسٹریل ریویولیوشن میں سرمایہ سے زیادہ اہمیت اہلیت کی ہوگی۔  ہائی اسکل لیکن عارضی ورک روزگار کا نیا چہرہ ہوگا۔  مینوفیکچرنگ، انڈسٹریل پروڈکشن ڈیزائن میں بنیادی تبدیلیاں آئیں‌گی۔  ڈجیٹل پلیٹ فارم، آٹومیشن اور ڈیٹا فلوس (بہاؤ) سے جغرافیائی دوریوں کی اہمیت کم ہو جائے‌گی۔ ای کامرس، ڈجیٹل پلیٹ فارم مارکیٹ پلیسس جب ایسی ٹکنالوجی سے جڑیں‌گے جب ایک نئی قسم کے انڈسٹریل اور بزنس لیڈر سامنے آئیں‌گے۔  ‘

یہ تقریر وزیر اعظم مودی کی ہے جو انہوں نے برکس ممالک کی کانفرنس میں کی ہے۔  یہ تقریر آپ کو بی جے پی کی سائٹ اور یو ٹیوب پر ہرجگہ مل جائے‌گی۔  آپ اس کو سنیں گے تو پتا چلے‌گا کہ روزگار کو لےکر وزیر اعظم کیا سوچ رہے ہیں؟کیا ہندوستانی نوجوانوں کو پتا ہے کہ روزگار کو لےکر ان کے وزیر اعظم کیا رائے رکھتے ہیں؟  پرماننٹ روزگار کی تیاری میں جوانی کے پانچ پانچ سال ہون کر رہے ہیں ہندوستانی نوجوانوں کے درمیان یہ بات کیوں نہیں کہی جا رہی ہے کہ روزگار کا چہرہ بدل گیا ہے۔  اب عارضی کام ہی روزگار کا نیا چہرہ ہوگا۔

وزیر اعظم کو یہی بات برکس میں نہیں، ہندوستان میں کہنی چاہیے۔  ویسے وزیر اعظم پکوڑا وغیرہ کی مثال دےکر یہی بات کہہ رہے ہیں مگر ان کو نوجوانوں کے درمیان آکر صاف صاف کہنا چاہیے کہ زمانہ بدل گیا ہے۔عارضی کام ہی روزگار کا چہرہ ہو گیا ہے۔  2019 میں جب وہ روزگار دینے کا وعدہ کریں تو صاف صاف کہیں کہ اگلے پانچ سال میں ہم عارضی روزگار دیں‌گے۔  روزگار کا چہرہ بدل گیا ہے اس لئے آپ بھی بدل جاؤ۔  کیا نوجوان اپنے من پسند وزیر اعظم سے یہ بات سننا چاہیں‌گے؟

29 جولائی کے بزنس اسٹینڈرڈ میں اجئے مودی کی ایک خبر چھپی ہے۔  ملک کے سب سے تیزی سے بڑھتے ہوئے آٹوموبل سیکٹر میں مستقل نوکریاں گھٹتی جا رہی ہیں۔ اس سیکٹر کی جتنی بھی بڑی کمپنیاں ہیں وہ مانگ‌کے حساب سے عارضی طور پر لوگوں کو کام دے رہی ہیں۔اجئے مودی نے ماروتی سزوکی، ہیرو موٹوکور، اشوک لیلینڈ اور ٹی وی ایس موٹر کا تجزیہ کیا ہے۔ان کمپنیوں میں 18-2017 میں 24350 اضافی اسٹاف رکھے ہیں جن میں سے 4 فیصد سے بھی کم نوکری پکی ہے۔سب کی سب نوکریاں ٹھیکے کی ہیں۔  عارضی فطرت کی ہیں۔  23500 سے زیادہ نوکریاں ٹھیکے کی ہیں۔  یہ تبدیلی جو آ رہی ہے۔

وزیر اعظم نے لوک سبھا میں عدم اعتماد تحریک پر جواب دیتے ہوئے روزگار کے کئی اعداد و شمار دئے تھے۔آپ اس تقریر کو پھر سے سنیے۔  ویسے روزگار کو لےکر ریسرچ کرنے اور لگاتار لکھنے والے مہیش ویاس نے 24 جولائی کے بزنس اسٹینڈرڈ میں ان کی تقریر کی تنقید کی ہے۔وزیر اعظم اعداد و شمار دے رہے ہیں کہ ستمبر 2017 سے مئی 2018 کے درمیان فراہم کردہ فنڈ  سے 45 لاکھ لوگ جڑے ہیں۔اسی دوران نیشنل پینشن اسکیم میں تقریباً ساڑھے پانچ لاکھ لوگ جڑے ہیں۔اب مہیش ویاس کہتے ہیں کہ یہ تعداد ہوتی ہے پچاس لاکھ مگر وزیر اعظم آسانی سے 70 لاکھ کر دیتے ہیں۔  راؤنڈ فیگرکے چکر میں بیس لاکھ بڑھا دیتے ہیں۔

پھر وزیر اعظم کہتے ہیں کہ چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ، ڈاکٹر اور وکیلوں کو بھی کام ملا ہے یہ تعداد تقریباً 6 لاکھ ہوتی ہے۔  17000 چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ سسٹم میں جڑے ہیں۔  ان میں سے 5000 نے اپنا کاروبار شروع کیا ہے۔اگر سب نے 20 لوگوں کو بھی کام دیا ہوگا تو انہوں نے ایک لاکھ روزگار دئے ہوں‌گے۔  (نئے سی اے فرم میں کیا واقعی میں 20 لوگ ہوتے ہوں‌گے؟  ) ہرسال 80000 ڈاکٹر، ڈینٹل سرجن، آیوش ڈاکٹر تعلیم حاصل کرکے  نکلتے ہیں۔  ان میں سے 60 فیصد اپنی مشق کرتے ہیں۔  5 لوگوں کو کم سے کم روزگار دیتے ہی ہیں۔  یہ تعداد 2 لاکھ 40000 ہو جاتی ہے۔  یہ سب وزیر اعظم بتا رہے ہیں لوک سبھا میں۔

وزیر اعظم کہتے ہیں کہ اسی طرح 80000 وکیل نکلتے ہیں جو دو لوگوں کو تو کام دیتے ہی ہیں،اس طرح روزگار میں 2 لاکھ نوکریاں جڑ جاتی ہیں۔اب آپ بتائیے کیا یہ مذاق نہیں ہے۔  جو کالج سے تعلیم حاصل کر کے وکیل نکلتا ہے وہ اپنے لئے کام ڈھونڈتا رہتا ہے یا باہر آکر دو لوگوں کو نوکریاں دے دیتا ہے۔وزیر اعظم کم سے کم ارون جیٹلی سے ہی پوچھ لیتے۔  نیا وکیل تو کئی مہینوں تک مفت میں کام کرتا ہے، کام سیکھنے کے لئے۔  کب خود کے لئے کمانا شروع کرتا ہے وہی نہیں جانتا۔ اس طرح سے کوئی روزگار کے اعداد و شمار جوڑے‌گا اور وہ بھی وزیر اعظم تو پھر کیسی بات ہوگی۔

یہ بھی پڑھیں : ایک غیر سیاسی تنظیم جس نے بے روزگاری کو انتخابی مدعا بنا دیا

آپ عدم اعتماد تحریک پر وزیر اعظم کی تقریر نکال‌کر سنیے۔  وہ کہے جا رہے ہیں کہ نقل وحمل سیکٹر میں 20 لاکھ ڈرائیور اور کلینر جڑے ہیں۔  نئی کامرشیل گاڑیاں جب سڑک پر آتی ہیں تب 10 لاکھ لوگوں کو روزگار دیتی ہیں۔ڈھائی لاکھ نئی کاریں سڑک پر آتی ہیں ان میں سے پانچ لاکھ ڈرائیور رکھے جاتے ہیں۔ آٹو رکشہ بھی تقریباً ساڑھے تین لاکھ لوگوں کو روزگار دیتی ہے۔  وزیر اعظم نے ای رکشہ اور سائیکل رکشہ اور ریہڑی پٹری کو کیوں نہیں جوڑا، سمجھ نہیں پا رہا ہوں۔

علامتی تصویر/فوٹو: رائٹرز

علامتی تصویر/فوٹو: رائٹرز

ویسے انہوں نے کل تعداد بھی دی اور کہا کہ 90 لاکھ 19 ہزار (9.19 ملین) لوگوں کو کام ملا ہے۔  وزیر اعظم نے اس تعداد کو بھی گول گول کرکے 1 کروڑ کر دیا۔آپ کہیں‌گے کہ کیوں کمیاں نکال رہا ہوں؟  وزیر اعظم مودی کوئی معمولی وزیر نہیں ہیں۔  وہ ملک کے سامنے روزگار کے اعداد و شمار رکھتے ہیں تو دیکھنا چاہیے کہ ان اعداد و شمار کی بنیاد کیا ہے۔کس ڈیٹا سے وہ جان گئے کہ نئی کاروں نے پانچ لاکھ لوگوں کو کام دیا ہے۔  ڈرائیور کے طور پر رکھے گئے ہیں۔  کس ڈیٹا سے ان کو یہ جانکاری ملی ہے کہ وکیلوں نے 2 لاکھ لوگوں کو کام دیا ہے، جو خود کام کھوج رہے ہوتے ہیں۔

مہیش ویاس کہتے ہیں کہ تنازعہ اس پر نہیں ہے کہ روزگار پیدا ہوا یا نہیں ۔ روزگار کی تخلیق ہوئی ہے۔  ہمیشہ کی طرح نوکریاں پیدا ہوتی رہتی ہیں۔  بحث اس بات کو لےکر ہے کہ کیا ان نوکریوں کی تعداد اتنی کافی ہے جو بےروزگاری کو سنبھال سکے؟ای پی ایس میں جو نئے نام جڑ رہے ہیں وہ ضروری نہیں ہے کہ نئی نوکریوں کے نام ہیں۔  مہیش ویاس کی دلیل کو سمجھیے۔  وزیر اعظم کہتے ہیں کہ چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ نے ایک لاکھ نوکریاں دی ہیں۔ تو کیا یہ ایک لاکھ فراہم کردہ فنڈز والے ڈیٹا میں شامل نہیں ہوں‌گے؟

کہیں ایسا تو نہیں کہ سب کو پہلے  فراہم کردہ فنڈز  والے کھاتے سے جوڑ لو اور پھر ان کو الگ الگ جوڑ لو اور کل کرکے ایک کروڑ بتا دو۔ کمال کی ریاضی ہے۔مہیش ویاس نے دلیل دی ہے کہ بڑی تعداد میں کامرشیل گاڑیوں کے خریدار ریاستی نقل وحمل محکمہ ہوتے ہیں۔ بڑی پرائیویٹ کمپنیاں خریدتی ہیں۔  کھدائی اور لاجسٹک کمپنیاں خریدتی ہیں۔  چونکہ یہ بڑی کمپنیاں ہوتی ہیں اس لئے اپنے ملازمین‎ کا فراہم کردہ فنڈز کھاتا کھولتی ہیں۔

اگر ایسا ہوا ہے تو یہ تعداد ملازموں کے لیے فراہم کردہ فنڈز کے ڈیٹا میں دکھے‌گی۔  پھر ان کو الگ سے جوڑنے کا مطلب کیا ہوا۔مان لیجئے ایک ہاتھ میں 90 روپیہ ہے۔  ایک ہاتھ میں 10 روپیہ ہے۔  آپ نے ایک بار 90 اور 10 کو ایک ساتھ پکڑا اور کہا کہ سو روپیہ ہو گیا۔  پھر یہ دوسرے ہاتھ کے 10 روپے کو ایک اور بار جوڑ‌کے 110 روپے بتا دیا۔  یا تو آپ ایک ہی بار جوڑیں‌گے یا ایک ہی بار گھٹائیں‌گے۔مہیش ویاس کی اور بھی دلیل ہیں، میں یہاں نہیں لکھوں‌گا، مودی بھکت ناراض  ہو جائیں‌گے۔  ان کو سمجھ نہیں آئے‌گا کہ میں یہ کیوں کہہ رہا ہوں۔

‘ ایک اہم سوال روزگار کی قسم اور موقع کا ہوگا، جہاں تک ہم دیکھ سکتے ہیں ٹریڈشنل مینوفیکچرنگ ہمارے نوجوانوں کے لئے روزگار کا ایک اہم ذریعہ بنی رہے‌گی۔  دوسری طرف ہمارے ورکر کے لئے بہت ضروری ہوگا کہ وہ اپنی اسکل میں تبدیلی لا سکے۔اس لئے تعلیم اور اسکل سماج کے لئے ہمارا اور ہمارے نظریہ اور پالیسیوں میں تیزی سے تبدیلی لانی ہوگی۔  اسکول اور کالج کے نصاب کو اس طرح سے بنانا ہوگا جس سے یہ ہمارے نوجوانوں کو مستقبل کے لئے تیار کر سکے۔  ٹکنالوجی میں آنے والی تیز تبدیلی اسی رفتار سے مقام پا سکیں۔  ‘

یہ بھی وزیر اعظم کی ہی تقریر کا حصہ ہے جو انہوں نے برکس ممالک کے رہنماؤں کے درمیان کی تھی۔  ہندوستان نے اسکل ڈیولپمنٹ لفظ ہی سیکھا ہے جرمنی اور چین سے۔ شاید کسی اور ملک سے۔ جرمنی کی اسکل ڈیولپمنٹ نصاب آپ دیکھیں‌گے تو حیران رہ جائیں‌گے۔جرمنی برکس کا حصہ نہیں ہے مگر میں مثال دے رہا ہوں۔  چین کی اسکل ڈیولپمنٹ ہندوستان سے کہیں آگے ہیں۔اب آپ ایمانداری سے دو سوال کا جواب دیجئے۔  کیا ہندوستان کی مہارت کی ترقی کے پروگرام اعلیٰ مہارت یعنی  ہائی اسکل کی تربیت فراہم کرتی ہے؟ آپ کسی بھی مہارت کے ترقیاتی مرکز میں جاکر دیکھ لیجئے۔ اس کا جواب آپ دیجئے۔  ورنہ میرے سوالوں کو آپ برداشت نہیں کر پائیں‌گے۔

مہارت کا ترقیاتی مرکز والا روز میرے پاس آتے ہیں کہ کس طرح سے کچھ کے ساتھ جانبداری ہو رہی ہے۔  انہوں نے مودی پر بھروسہ کر کے لاکھوں کا لون لےکر مہارت کا ترقیاتی مرکز کھولا ہے مگر وہ خالی ہیں۔  زیادہ کہیں‌گے تو تصویر سمیت دکھا دوں‌گا۔  وہ کیسے برباد ہوئے ہیں، وہ بھی دکھا دوں‌گا۔  پھر وزیر اعظم نے کیوں نہیں بتایا کہ اسکل انڈیا پروگرام کے تحت کتنوں کو تربیت دی گئی اور کتنوں کو روزگار ملا۔  کیا عدم اعتماد تحریک کے وقت یاد نہیں رہا؟بہتر ہے روزگار پر بحث ہو، صحیح سے بات ہو۔  حزب مخالف میں دم نہیں ہے تو کیا ہوا۔  نوجوانوں کی زندگی کا سوال تو ہے۔  کیا ان کی زندگی سے اس لئے کھیلا جائے‌گا کہ حزب مخالف یہ سوال اٹھانے کے لائق نہیں ہے؟  کیا نوجوان اپنی زندگی سے کھیلنا چاہتے ہیں؟

(یہ مضمون  رویش کمار کے بلاگ قصبہ پر شائع ہوا ہے۔ )