فکر و نظر

بڑھتی بے روزگاری اور معاشی ترقی ، آخر کھیل کیا ہے ؟

سرکاری خزانے میں یہ بے روزگار نوجوان کتنا مالی تعاون دیتے ہیں۔مدھیہ پردیش کے ویاپم گھپلے کے دوران یہ راز فاش ہو اتھا کہ گذشتہ پانچ برسوں میں تقریباً86 لاکھ بے روزگاروں نے مختلف سرکاری نوکریوں کے لئے جو فارم بھرے تھے اس فارم کی فیس سے حکومت کو چار سو تیس کروڑ کی آمدنی ہوئی ہے۔

علامتی تصویر/فوٹو: رائٹرز

علامتی تصویر/فوٹو: رائٹرز

گجرات کی پاٹیدار تحریک سے لیکر چند دنوں قبل مہاراشٹر ا میں مراٹھی لوگوں کی پرتشدد ریلیاں ۔ الہ آباد سے لیکر کوٹہ اور دہلی سے لیکر حیدرآباد تک انجینئرنگ، میڈیکل اور مینیجمنٹ سے لیکر سول سرویسیز تک کی تیاریوں میں جی جان لگائے ہوئے طلباکی ایک بڑی فوج ۔یہ ہے موجودہ ہندستان۔ جس کی 50 فیصد سے زائد کی آبادی جو کہ 25 سال یا اس سے کم کی ہے انہیں امتحانات کی تیاریوں میں تن ، من اور دھن سے جٹی ہوئی ہے۔حال ہی میں مرکزی وزیر نتن گڈکری نے کہا کہ جب روزگار ہی نہیں ہے تو ریزرویشن کا مطلب کیا ہے؟ ہونے دو ریزرویشن کیا فرق پڑتا ہے؟ ارون جیٹلی جو کہ روبہ صحت ہو رہے ہیں اورجلد ہی وزارت مالیات کا چارج پھر سنبھالنے والے ہیں کئی بار جاب لیس گروتھ یعنی بے روزگاری پر مبنی اقتصادی ترقی کے گن گا چکے ہیں۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر جاب لیس گروتھ کے پیچھے کھیل کیا ہے۔ اعدادو شمار پر نظر دوڑائیں تو پائیں گے کہ سال 2017 میں صرف سول سروس کے امتحان میں گیارہ لاکھ63 ہزار امیدوار بیٹھے تھے۔ جبکہ جن سیٹوں پر انکی تقرری ہونی ہے ان کی تعداد محض 980ہے۔ اب میڈیکل کا رخ کرتے ہیں۔ رواں سال 2018 کے لئے NEET میں تقریباً ساڑھے تیرہ لاکھ امیدوار وں نے رجسٹریشن کرایا تھا۔جبکہ سیٹوں کی تعداد ساٹھ ہزار ہے۔اب انجینئرنگ پر آتے ہیں۔

سال 2017 میں دس لاکھ 22 ہزار امیدواروں نے اندراج کرایا تھا۔ جبکہ حکومت نے رواں سال میں صرف IITs میں سیٹیں بڑھا کر گیارہ ہزار تین سو کے آس پاس کردی ہیں۔ اب بات کرتے ہیں کچھ دیگر امتحانات کی جیسے SSC یا دیگر زمروں کی۔ صرف ایس ایس سی کی تین ہزار آٹھ سو سیٹوں کے لئے سال2017 میں 38 لاکھ سے زائد امیدواروں نے درخواست فارم بھرے تھے۔ ریاستی حکومتوں کی جانب سے ہونے والے جوڈیشیل سروس، پی سی ایس جنرل یا کلرک یا دیگر زمروں کے امتحانات میں بھی لاکھوں کی تعداد میں طلبا فارم بھرتے ہیں اور امتحان میں بیٹھتے ہیں جبکہ سیٹیں چند سو ہی ہوتی ہیں۔

یہ بھی پڑھیں :روزگار کے گھٹتے اور بدلتے مواقع پر بات کیوں نہیں؟

سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ آخر سرکاری محکموں میں خالی اسامیوں کی تعداد کم ہے یا حکومت کی جانب سے ہی کم سیٹوں کے لئے ملک کی نوجوان نسل کو نوکری کی قطار میں کھڑا کرایا جاتا ہے۔ گذشتہ برس پارلیامنٹ میں ایک سوال کے جواب میں مرکزی وزیر جتیندر سنگھ نے کہا تھا کہ صرف مرکزی حکومت کے مختلف محکمات میں ساڑھے چار لاکھ سے زائد سیٹیں خالی ہیں۔ جبکہ آزاد ذرائع کے مطابق مرکزی اور ریاستی حکومتوں کے مختلف محکموں میں 20 لاکھ سے زیادہ سیٹیں خالی ہیں۔صرف عدلیہ کی بات کریں تو ججوں کی تعداد اس قدر کم ہے کہ صرف ٹرائل پر قیدیوں کے مقدموں کی سماعت میں ہی دس سال تک لگ جاتا ہے۔ اور مقدمے کی سماعت میں تاخیر کی وجہ سے وہ دس دس سال تک ضمانت کے لئے بھی ترستے رہتے ہیں۔ ان میں ملک کی غریب آبادی کا تناسب سب سے زیادہ ہے۔

 یہ ہے بڑھتی بےروزگاری کے ساتھ بلندی کے مراحل طے کرتی ملک کی شرح ترقی کی حقیقت۔ایک اور بات جو اہم ہے وہ یہ کہ اس کا بھی جائزہ لینا ضروری ہے کہ آخر سرکاری خزانے میں یہ بے روزگار نوجوان کتنا مالی تعاون دیتے ہیں۔مدھیہ پردیش کے ویاپم گھپلے کے دوران یہ راز فاش ہو اتھا کہ گذشتہ پانچ برسوں میں تقریباً86 لاکھ بے روزگاروں نے مختلف سرکاری نوکریوں کے لئے جو فارم بھرے تھے اس فارم کی فیس سے حکومت کو چار سو تیس کروڑ کی آمدنی ہوئی ہے۔ اگر ملک گیر سطح پر دیکھا جائے تو سرکاری خزانے میں اربوں روپئے صرف بے روزگار نوجوانوں سے فارم فیس کے نام پر لئے جاتے ہیں۔

اگر اس جاب لیس گروتھ سے ملک کے سماجی نظام پر پڑنے والے اثرات کا جائزہ لیا جائے تو پائیں گے کہ ملک کا وہ پڑھا لکھا طبقہ جو حکومت کی پالیسیوں کو سمجھنے کی صلاحیت رکھتا ہے اسکو چند سو سیٹوں کے لئے قطار میں کھڑا کردیا گیا ہے۔ یعنی ہر سال چند سو ملازمتوں کا اعلان ہوگا اور لاکھوں باشعور نوجوان بجائے اسکے کہ وہ حکومت کی پالیسیوں پر تنقید کریں، صرف امتحانات کی تیاریوں میں الجھے رہیں گے ۔ سال در سال اسی امید پر گزار دیں گے کہ اس سال نمبر نہیں آیا شاید اگلے سال کامیاب ہو جائیں۔ یعنی بغیر کسی محنت کے حکومت نے نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد کو دوسرے کام میں الجھا دیا۔

رہی بات کم پڑے لکھے نوجوانوں کی یا ان لوگوں کی جو کسی بھی مقابلہ جاتی امتحانات کا حصہ نہیں ہوتے وہ سیاسی جماعتوں کی ریلیوں کی رونق بڑھاتے ہیں۔ یہ وہی طبقہ ہے جو کہیں گئو رکشا میں لگا ہوا ہے تو کہیں لو جہاد کے نام پر استعمال ہو رہا ہے آخراسکی بھی کچھ ضروریات ہیں۔یہ پیسے انہیں سیاسی پارٹیوں کی طرف سے حسب ضرورت ملتے رہتے ہیں۔ اور جب بھی کبھی حکومت کی عوام کے بنیادی مسائل کی طرف توجہ دینی کی بات کی جاتی ہے تو وہ کہیں مذہب کے نام تو کہیں علاقائیت کے نام پر زبان بند کرانے کی کوشش کرتی ہے اور اس سلسلے میں اسے کم پڑے لکھے یا بے روزگار نوجوانوں سے بھر پور تعاون ملتا ہے۔

آخر ہندستان کے موجودہ سیاسی تناظر میں اس کا حل کیا ہے۔ اس کا جواب دلت رہنما آنجہانی کاشی رام کے ایک جملے میں سمجھنے کی کوشش کی جا سکتی ہے۔ انہوں نے کہا تھا کہ اگر لوگ یہ چاہتے ہیں کہ ان کے بنیادی مسائل حل ہوں، ان کی ترقی ہو تو انہیں کمزور سرکاریں منتخب کرنی چاہیے۔یعنی وہ کسی بھی ایک پارٹی کو حتمی اکثریت حاصل کرنے سے نہ صرف روکیں بلکہ ان پر دباؤ قائم رکھنے کے لئے ایک مستحکم اپوزیشن کو بھی یقینی بنائیں۔ رام منوہر لوہیا کی بات بھی یاد آرہی ہے کہ اگر سڑکیں خاموش ہوگئیں تو پارلیامانٹ آوارہ ہو جائےگی۔خواہ وہ گجرات کی پاٹیدار تحریک رہی ہو یا مراٹھا ریلیاں اس سمت اشارہ کر رہی ہیں کہ سڑکیں خاموش رہنے والی نہیں ہیں۔

رام دھاری سنگھ دنکر کی بات یاد آتی ہے جب انہوں نے کہا تھا؛ سنگھاشن خالی کرو کہ جنتا آتی ہے۔ لگتا ہے دیر یا سویر ملک کو اسی سمت میں پیش قدمی کرنی ہوگی۔بالخصوص سماجی فلاح و بہبود کے لئے سرگم تنظیموں کو عوامی بیداری کے لئے میدان میں اترنا پڑے گا۔

(مضمون نگار ڈی اے وی یونیورسٹی جالندھر ، پنجاب میں ریسرچ اسکالر ہیں۔)