فکر و نظر

خاص رپورٹ : اے بی پی نیوز سے صحافیوں کے استعفیٰ سے پہلے پتنجلی نے چینل سے ہٹائے تھے اشتہار

پتنجلی کے ترجمان نے اے بی پی نیوز چینل سے اشتہار ہٹانے کی بات قبول کرتے ہوئے سینئر صحافی پنیہ پرسون باجپئی اور ملند کھانڈیکر کے استعفیٰ میں ہاتھ ہونے سے انکار کیا۔

اے بی پی نیوز کے پروگرام میں بابا رام دیو (فوٹو بشکریہ : اے بی پی نیوز)

اے بی پی نیوز کے پروگرام میں بابا رام دیو (فوٹو بشکریہ : اے بی پی نیوز)

نئی دہلی : اے بی پی نیوز سے دو سینئر  صحافیوں کا چینل چھوڑنا اور ایک اینکر کو 15 دن تک آف ایئر رکھنے کا فیصلہ انتظامیہ کے ذریعے نریندر مودی حکومت کو خوش کرنے کی کوشش لگتی ہے،یوگ گرو اور کاروباری بابا رام دیو کی کمپنی پتنجلی کا چینل سے اچانک اپنا اشتہار ہٹا لینا بھی اس کی وجہ ہو سکتی ہے۔ چینل کے اشتہارات کی جانکاری رکھنے والے ایک شخص نے دی وائر کو بتایا کہ 15 جولائی کے آس پاس رام دیو کی کمپنی پتنجلی نے اچانک چینل سے اپنے  اشتہار ہٹا لئے۔

قابل غور بات  یہ ہے کہ اس فیصلے کے کچھ روز پہلے ہی چینل کے ایک صحافی پنیہ پرسون باجپئی  نے اپنے پروگرام ماسٹراسٹروک میں چھتیس گڑھ کی ایک خاتون کسان کی آمدنی دوگنی ہونے سے جڑے مودی حکومت کے دعویٰ کو خارج کرتی ہوئی رپورٹ دکھائی تھی۔ اس کے بعد باجپئی  نے چینل سے استعفیٰ دے دیا تھا۔ دی وائر کے ذریعے بھیجے گئے سوالوں کے جواب میں پتنجلی کے ترجمان ایس کے تجاراوالا نے چینل سے اشتہار ہٹانے کی تصدیق کی ہے۔

حالانکہ تجاراوالا کا کہنا ہے کہ اشتہار ہٹانے کا چینل کے ذریعے مودی حکومت کی تنقید سے جڑی رپورٹس دکھانے سے کوئی لینادینا نہیں ہے۔ ای میل پر دئے اپنے جواب میں انہوں نے کہا، ‘ اصل میں ہمارا ایف سی ٹی (فری کمرشیل ٹائم) شیڈیول تو چلنا ہی نہیں چاہیے  تھا کیونکہ ہماری ڈیل تو 30 جون 2018 کو ہی پوری ہو گئی تھی۔ دھیان نہ دینے کی وجہ سے 15-1 جولائی تو یہ زیادہ چل گیا۔ جیسے ہی اس بھول کا پتا چلا ہم نے اے بی پی نیوز، اے بی پی آنندا اور اے بی پی ماجھا سے اپنا شیڈیول واپس لے لیا۔ ‘

اے بی پی نیوز کے ایڈیٹر ان چیف ملند کھانڈیکر (بائیں) اور صحافی پنیہ پرسون باجپئی (فوٹو بشکریہ : ٹوئٹر)

اے بی پی نیوز کے ایڈیٹر ان چیف ملند کھانڈیکر (بائیں) اور صحافی پنیہ پرسون باجپئی (فوٹو بشکریہ : ٹوئٹر)

حالانکہ تجاراوالا نے اے بی پی نیٹ ورک کے ساتھ ہوئی اس اشتہار ڈیل کی قیمت بتانے سے منع کر یا، لیکن اے بی پی نیوز کے ایک افسر کے مطابق یہ60-50 کروڑ روپے  کے درمیان تھی۔ دی وائر کو ملی جانکاری کے مطابق اس مہینے ملند کھانڈیکر اور پنیہ پرسون باجپئی کے استعفیٰ کے بعد پتنجلی نے چینل کے ساتھ دوبارہ اشتہار ڈیل سائن کی ہے۔

تجاراوالا کا کہنا ہے، ‘ آنے والے وقت کے لئے ابھی کسی طرح کی اشتہار ڈیل شروع نہیں ہوئی ہے۔ اگست کے پہلے ہفتے سے اس کو دوبارہ شروع کرنے کا تو سوال ہی نہیں اٹھتا۔ اب تک کوئی ایف سی ٹی شیڈیول  شروع نہیں ہوا ہے۔ ہمارا میڈیا مکس اور برانڈ مکس ابھی پلاننگ کی سطح پر ہے۔ ‘ انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا ہے کہ پتنجلی کا چینل سے ہوئے استعفیٰ سے کوئی تعلق نہیں ہے اور یہ گروپ پریس کی آزادی میں اعتماد کرتا ہے۔ انہوں نے کہا، ‘ اس سے ہمارا کوئی مطلب نہیں ہے۔ ہم اداریہ کے تقدس اور اظہار کی آزادی کی عزت کرتے ہیں۔ اس طرح کا الزام بالکل بے بنیاد ہے۔ ‘

 چینل سے اشتہار ہٹانے کے بعد اے بی پی نیوز کے ذریعے پتنجلی گروپ کو کانٹریکٹ  کی خلاف ورزی کرنے کے لئے لیگل نوٹس بھیجا گیا تھا۔ ایک طرف تجاراوالا نے دی وائر سے کہا کہ پتنجلی کا چینل کے ساتھ قرار ختم ہو گیا تھا، وہیں  انہوں نے یہ بھی مانا کہ ان کو چینل کی طرف سے اچانک اشتہار ہٹانے کے لئے ایک خط ملا ہے۔ انہوں نے اس بات سے صاف انکار کیا کہ اے بی پی گروپ سے کوئی لیگل نوٹس بھیجا گیا ہے۔

انہوں نے کہا، ‘ یہ کوئی لیگل نوٹس نہیں تھا، بس ایک ای میل تھا۔ اس کے بعد ہمیں اے بی پی نیوز کی طرف سے یہ کہا گیا کہ ایسا میل اچانک کینسل ہونے کی حالت میں بھیجا جاتا ہے اور اس پر دھیان نہ دیں۔ ‘ تجاراوالا نے یہ بھی شامل کیا کہ پتنجلی اور اے بی پی کے تعلقات اب ‘ مضبوط اور دوستانہ ‘ ہیں۔ اے بی پی کے افسروں کے ذریعے اس معاملے پر پوچھے گئے سوالوں کا کوئی جواب نہیں دیا گیا۔