گراؤنڈ رپورٹ

گراؤنڈ رپورٹ: کئی خاندانوں  کو بے گھر کر کے پٹنہ میں بنے‌گا وزیروں اور ججوں کے لئے بنگلہ

گراؤنڈ رپورٹ: بہار کی نتیش حکومت پٹنہ کے گردنی باغ میں 268 ایکڑ زمین پر وزیروں اورججوں اور سرکاری افسروں کے لئے ایک ہزار سے زیادہ گھربنانے جا رہی ہے۔

بزرگ خاتون ہیرامن دیوی کا گھر بھی ملبے میں تبدیل ہو گیا ہے۔  ان کا بھی یہی کہنا ہے کہ کمائی اتنی نہیں ہے کہ روم کرایے پر لےکر رہیں۔  (فوٹو : امیش کمار رائے / دی وائر)

بزرگ خاتون ہیرامن دیوی کا گھر بھی ملبے میں تبدیل ہو گیا ہے۔  ان کا بھی یہی کہنا ہے کہ کمائی اتنی نہیں ہے کہ روم کرایے پر لےکر رہیں۔  (فوٹو : امیش کمار رائے / دی وائر)

پٹنہ:70 سالہ رام دیال دھوبی تقریباً40 سال پہلے پن پن سے پٹنہ کے گردنی باغ میں آکر بسے تھے۔  پن پن میں اس وقت نہ روزگار تھا اور نہ زراعت کرنے کے لئے ان کے پاس زمین۔نتیجتاً ان کو بیوی کے ساتھ گردنی باغ آنا پڑا۔اس وقت گردنی باغ میں اتنی آبادی نہیں تھی۔  چاروں طرف جنگل تھا۔  البتہ، کچھ سرکاری کوارٹر تھے، جن میں سرکاری بابو رہتے تھے۔

رام دیال دھوبی نےگردنی باغ کے روڈ نمبر 7 میں سرکاری کوارٹر کے پیچھے پھیلے جنگل کو کاٹا اور جھوپڑی بناکر رہنے لگے۔وہاں رہتے ہوئے ان کو سرکاری افسروں کے کپڑے دھونے کا کام بھی مل گیا، کیونکہ وہ دھوبی ہے۔اس طرح سر کو چھت ملی اور پیٹ کی آگ بجھانے کے لئے کام۔  کام اور گھر کی بےفکری کے چلتے ہوئے انہوں نے پن پن کی بچی کھچی زمین بیچ دی اور گردنی باغ کو ہی مستقل ٹھکانہ بنا لیا۔قریب چالیس سال یہاں گزار چکنے کے بعد اب دوسری بار ان کو منتقل ہونا ہے۔  وہ کہاں جائیں‌گے، ان کو نہیں پتا۔

ان کے گھر کے سامنے کا سرکاری بنگلہ اور آس پاس کے کچھ گھروں کو منہدم کیا جا چکا ہے۔اپنے گھر کے سامنے مایوس بیٹھے رام دیال کہتے ہیں،’میرے گھر پر بھی ارتھ موور چلانے آئے تھے، لیکن بہت سارا سامان تھا، اس لئے میں نے منّت کی کہ کچھ دن بعد گھر توڑا جائے، تو وہ لوگ مان گئے اور کہا کہ جتنی جلدی ممکن ہو، گھر خالی کر دوں۔  ‘

گردنی باغ میں دھوبی کمیونٹی کے لوگوں کے 50 گھر ہیں اور یہ تمام دہائیوں پہلے دوسرے ضلعوں سے آکر یہاں بس گئے۔رام دیال کے گھر کے پاس ہی پرمود کمار دھوبی کا گھر ہے۔پرمود کے دادا بھی پن پن سے ہی یہاں آکر بسے تھے۔ وہ گزر چکے ہیں۔  پرمود اپنی ماں کے ساتھ یہاں رہتے ہیں اور کپڑا دھوکر گھر چلاتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں،’میرے دادا جی یہاں آئے تھے، تو انہوں نے سرکاری بابو کا کپڑا دھونا شروع کیا۔بابو نے بھی کہا کہ یہی جنگل کاٹ‌کر گھر بنا لیں، کیونکہ اس سے ان کو سہولت ہوتی۔میرے داداجی کا گھر پن پن ندی کے کنارے پر تھا، جو کٹاؤ کی بھینٹ چڑھ گیا۔  اب تو وہاں اپنا کچھ ہے بھی نہیں کہ لوٹ جائیں۔  ’60 سالہ  رام سنیہی دیوی جب 20 سال کی تھیں، تو مظفرپور سے شوہر کے ساتھ یہاں آئیں اور پھر یہیں کی ہوکر رہ گئیں۔

عابدہ خاتون، اس کے شوہر مرتضیٰ علی اور دو بیٹے ملبے کے پاس ڈبے کا گھر بناکر رہنے پر مجبور ہیں۔  (فوٹو : امیش کمار رائے / دی وائر)

عابدہ خاتون، اس کے شوہر مرتضیٰ علی اور دو بیٹے ملبے کے پاس ڈبے کا گھر بناکر رہنے پر مجبور ہیں۔  (فوٹو : امیش کمار رائے / دی وائر)

شوہر جب تک زندہ تھے، تو کوئی دقت نہیں ہوئی، لیکن ان کے مرنے کے بعد ان پر اضافی ذمہ داری آ گئی۔  لہذا ان کو سرکاری ملازمین‎ کے گھروں میں دائی کا کام کرنا پڑا۔  بہت بعد میں انہوں نے پاس میں چائے کی گمٹی کھول لی۔ ان کا گھر اور چائے کی گمٹی دونوں توڑ دئے گئے ہیں۔وہ کہتی ہیں،’بیٹے اور بہو کے چلتے دوسری جگہ روم لینا پڑا۔  خرچ بڑھ گیا ہے، لیکن کمائی گھٹ گئی، کیونکہ چائے کی دکان بند ہے۔  ‘

دراصل،بہار حکومت گردنی باغ میں 268 ایکڑ زمین پر وزیروں، ججوں اور سرکاری افسروں کے لئے 1 ہزار سے زیادہ گھر بنانے جا رہی ہے۔ رہائشی عمارتوں کے علاوہ کئی سرکاری محکمہ جات کے دفتر، شاپنگ مال، ہسپتال وغیرہ بھی بنیں‌گے۔شعبہ تعمیرکی اس بڑی اسکیم کو سال 2013 میں ہی کابینہ  کی منظوری مل گئی تھی، لیکن کسی وجہ سے کام شروع نہیں ہو رہا تھا۔اس سال جنوری میں سی ایم نتیش کمار کی صدارت میں ہوئی میٹنگ میں پروجیکٹ کا ماسٹر پلان پیش کیا گیا تھا،جس کو منظوری مل گئی۔اب اس پر کام بھی شروع ہو گیا ہے۔

غور طلب ہو کہ گردنی باغ کو 1920-30 میں تیار کیا گیا تھا، جب سیکریٹریٹ  اور دیگر سرکاری عمارتوں کی تعمیر کی جا رہی تھی۔  سیکریٹریٹ اور دیگر سرکاری عمارت بن رہی تھی، تو ان دفتروں میں کام کرنے والے ملازمین‎ کے رہنے کے لئے گردنی باغ میں 700 سے زیادہ ایک منزلہ مکان  بنائے گئے تھے۔  ان مکانوں میں سرکاری افسر رہتے تھے۔  باقی خالی حصے میں جنگل تھا۔

بتایا جاتا ہے کہ ان مکانوں میں رہنے والے سرکاری افسروں کے گھروں میں کام کرنے، کپڑے دھونے، بیت الخلا کی صفائی، گاڑیوں کی ڈرائیونگ وغیرہ کے لئے لوگوں کی ضرورت پڑی۔ان ضروریات کو پوری کرنے کے لئے دوسرے ضلعوں سے لوگوں کا آنا شروع ہوا۔یہ لوگ انہیں سرکاری مکانوں کے آس پاس جھوپڑی بناکر رہنے لگے۔

سرکاری افسروں کو بھی اس سے سہولت ہوئی، کیونکہ ضرورت کے وقت فوراً وہ حاضر ہو جاتے تھے۔  یہاں آکر بسے لوگوں نے محسوس کیا کہ گاؤں کی بہ نسبت یہاں زندگی سکون والی ہے، تو انہوں نے گاؤں کی زمین بیچ دی اور فیملی کے ساتھ رہنے لگے۔اسی پتے پر انہوں نے ووٹر کارڈ سے لےکر راشن کارڈ، بجلی کنیکشن اور آدھار کارڈ تک بنوا لیا۔اب جب حکومت ان کو مویشیوں کی طرح گردنی باغ سے ہانک رہی ہے، تو ان کے سامنے دکھوں کا پہاڑ کھڑا ہو گیا ہے۔

رام دیال دھوبی بتاتے ہیں،’بنا کسی نوٹس کے 28 جون کو پولیس اور سرکاری افسر بولڈوزر اور ارتھ موور ساتھ لےکر آئے اور مکان توڑنا شروع کر دیا۔  کئی مکان منہدم کر دئے، لیکن بہت منت سماجت کرنے پر کچھ گھروں کو یہ کہہ‌کر چھوڑ دیا کہ جتنی جلدی ممکن ہو، سامان باندھ‌کر وہ گھر چھوڑ دیں۔  ‘

یہاں کے جھوپڑی نما گھروں میں بیت الخلا نہیں ہے۔  لوگ کچھ دور واقع سرکاری بیت الخلا میں جایا کرتے تھے، لیکن 28 جون کو اس بیت الخلا کو بھی توڑ دیا گیا۔  رام دیال دھوبی کہتے ہیں،’بیت الخلا توڑ دینے سے ہم لوگوں کو بہت دقت ہوتی ہے۔  قضائےحاجت کرنے کے لئے منھ اندھیرے پاس سے ہی گزر رہے ریلوے پٹری پر یا جھاڑیوں میں جانا پڑتا ہے۔  خواتین کو سب سے زیادہ دقت ہے۔  ‘

دھوبی گلی میں رہنے والے دھوبی کے لئے دوسری جگہ روم لےکر رہنا بھی مشکل ہے اور اس کی وجہ ہے ان کا پیشہ۔  پرمود کمار دھوبی تفصیل سے بتاتے ہیں،’ہم لوگ روز 20-25 گھروں میں جاتے ہیں اور کپڑا لےکر آتے ہیں۔ایک گھر سے 4-5 کپڑے ملتے ہیں۔  مطلب کہ روز تقریباً 100 کپڑے ہم لاتے ہیں۔  ان کو گھر میں ہی سرف میں ڈالتے ہیں اور سائیکل پر دھوبی گھاٹ لے جاتے ہیں۔  وہاں ان کو صاف کر کے سکھاتے ہیں اور گھر لاتے ہیں۔  یہاں بھی کچھ دیر سکھانا پڑتا ہے۔  اس کے بعد آئرن کرکے  ان کو گھروں تک پہنچاتے ہیں۔  ‘

رام سنیہی دیوی کا گھر اور چائے کی گمٹی دونوں توڑ دئے گئے ہیں۔  دکان ٹوٹ جانے سے ان کی کمائی رک گئی ہے۔  (فوٹو : امیش کمار رائے / دی وائر)

رام سنیہی دیوی کا گھر اور چائے کی گمٹی دونوں توڑ دئے گئے ہیں۔  دکان ٹوٹ جانے سے ان کی کمائی رک گئی ہے۔  (فوٹو : امیش کمار رائے / دی وائر)

پرمود آگے کہتے ہیں،’دوسری جگہ روم کی بات کرنے جاتے ہیں، تو وہ اول تو روم دینا نہیں چاہتے ہیں،کیونکہ پانی کا خرچ زیادہ ہوگا اور ساتھ ہی دوسرے کرایہ دار بھی پریشانی محسوس کریں‌گے۔دوسرے،اگر دینے کو تیار بھی ہوتے ہیں، تو بجلی خرچ زیادہ مانگتے ہیں اور یہ شرط بھی رکھ دیتے ہیں کہ بجلی نہیں رہنے پر ہم کوئلے کا چولہا جلاکر آئرن نہیں کر سکتے۔ ان شرطوں کے ساتھ کہیں روم لےکر رہنا ممکن ہے کیا؟ ‘

گردنی باغ میں کتنی فیملی ہیں،اس کا کوئی سرکاری اعداد و شمار نہیں ہے۔لیکن، غیرقانونی طور پر ان کی تعداد 2500 سے 3 ہزار بتائی جا رہی ہے۔  ٹاؤن شپ کے لئے ان تمام فیملیوں کو ہٹایا جا رہا ہے۔ زیادہ تر گھروں کو منہدم کیا جا چکا ہے۔  چند گھر بچے ہوئے ہیں۔ ان کو بھی آج نہیں تو کل توڑ دیا جائے‌گا۔ادھیڑ عابدہ خاتون کا گھر چتکوہرا بازار کے قریب تھا۔وہ سپرپوری فیملی کے ساتھ تقریباً 40 سال پہلے سیتامڑھی سے یہاں آکر بسی تھی۔ ہفتہ بھر پہلے بولڈوزر سے ان کا گھر توڑ دیا گیا۔  سب کچھ اتنی جلدی ہوا کہ کافی سامان گھر سے نکال ہی نہیں سکی۔

وہ کہتی ہیں،’کثیر تعداد میں پولیس اور سرکاری ملازم بولڈوزر لےکر آئے تھے۔  ہم نے پوچھا بھی کہ گھر توڑ دیں‌گے، تو ہم لوگ کہاں جائیں‌گے، لیکن انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا اور گھر توڑتے چلے گئے۔  ‘وہ ملبے کے پاس بانس کا گھر بناکر رہ رہی ہیں۔  سامنے ملبے کے ڈھیر ان کو ہر پل اس چھوٹے سے گھر کی یاد دلاتا ہے، جو کبھی ان کا آشیانہ ہوا کرتا تھا۔انہوں نے کہا، ‘ 4-5 ہزار روپے ماہوار سے نیچے کا روم نہیں ملتا ہے۔  ہماری اوقات نہیں ہے کہ صرف روم کے کرائے پر اتنا خرچ کریں۔  ‘عابدہ کے بیٹے توقیر عالم کی چپل کی دکان 15 دن پہلے ہی گرادی گئی۔  دکان بند تھی، اس لئے توقیر بہت سامان نکال نہیں پائے۔

وہ کہتے ہیں،’میرے والد محترم نے 20-25 سال پہلے دکان شروع کی تھی۔  فی الحال میں ہی دکان چلا رہا تھا۔  بولڈوزر چلنے سے 30-40 ہزار روپے کا سامان برباد ہو گیا۔  پولیس انتظامیہ نے سخت فرمان دیا ہے کہ اگر دوبارہ دکان لگائی گئی، تو جرمانہ بھرنا ہوگا۔  جرمانے کے ڈر سے 15 دنوں سے دکان نہیں لگا رہا ہوں۔  ‘بزرگ خاتون ہیرامن دیوی کے سسر 70 سال پہلے یہاں آئے تھے اور چتکوہرا بازار کے قریب گھر بناکر رہنے لگے۔  ان کے بعد کی پشت بھی یہی پلی بڑھی۔  اب اچانک سے ان کو بے گھر ہونا پڑ رہا ہے۔  ان کا بھی یہی کہنا ہے کہ کمائی اتنی نہیں ہے کہ روم کرائے پر لےکر رہیں۔

سیدہ خاتون کا یہاں دو کمروں کا گھر تھا۔  گھر توڑ دئے جانے کے بعد وہ کرائے کے مکان میں رہ رہی ہیں، لیکن خرچ بڑھ جانے سے گھر کا بجٹ بگڑ گیا ہے۔  وہ کہتی ہیں، ‘ 4-5 ہزار روپے کا اضافی بوجھ پڑ گیا ہے۔  گزارا مشکل سے ہو رہا ہے۔  ‘ویسے،یہ لوگ یہاں غیر قانونی طریقے سے ہی رہ رہے تھے کیونکہ یہ سرکاری زمین ہے۔لیکن،اس کے باوجود ان کے تمام ضروری دستاویز مثلاً ووٹر کارڈ، راشن کارڈ، آدھار کارڈ ان پتے پر ہی بن گئے۔

وہ لوگ یہاں کئی دہائیوں سے رہ رہے تھے، لیکن ان دہائیوں میں جو بھی حکومتیں آئیں، انہوں نے ان کو نہ تو منظم کرنے کی زحمت اٹھائی اور نہ ہی ان کو دوسری جگہ منتقل کرنے کی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ انہوں نے بھی کہیں اور جانے کا نہیں سوچا۔  اگر حکومت نے شروعاتی دور میں ہی اس مسئلہ کا حل نکال لیا ہوتا، تو ایسی نوبت ہی نہیں آتی۔

پرمود کمار دھوبی کہتے ہیں کہ اول تو ہماری اقتصادی حیثیت اتنی نہیں ہے کہ کہیں اور روم لےکر رہیں اور اگر روم لینے بھی جاتے ہیں، تو مکان مالک کئی طرح کی شرطیں رکھ دیتا ہے، جن کو ماننا ممکن نہیں ہے۔  (فوٹو : امیش کمار رائے / دی وائر)

پرمود کمار دھوبی کہتے ہیں کہ اول تو ہماری اقتصادی حیثیت اتنی نہیں ہے کہ کہیں اور روم لےکر رہیں اور اگر روم لینے بھی جاتے ہیں، تو مکان مالک کئی طرح کی شرطیں رکھ دیتا ہے، جن کو ماننا ممکن نہیں ہے۔  (فوٹو : امیش کمار رائے / دی وائر)

گردنی باغ کا یہ علاقہ دیگھہ اسمبلی حلقہ  میں آتا ہے۔  یہ علاقہ پٹنہ صاحب پارلیامانی حلقہ میں پڑتا ہے۔  دیگھہ اسمبلی سیٹ 2008 میں حد بندی میں وجود میں آیا تھا۔  بی جے پی رہنما سنجیو چورسیا یہاں سے ایم ایل اے ہیں۔مقامی لوگوں نے بتایا کہ انتخاب میں انہوں نے بی جے پی کو ووٹ دیا تھا، لیکن بی جے پی ایم ایل اے سنجیو چورسیا کی طرف سے ان کو کوئی پختہ یقین دہانی نہیں مل رہی ہے۔  ان کا کہنا ہے کہ یقین دہانی ملنا تو دور، وہ تسلی دینے بھی نہیں آئے۔

بی جے پی ایم ایل اے سنجیو چورسیا کہتے ہیں،’میں نے انتظامیہ سے گزارش کی ہے کہ گردنی باغ سے منتقل ہونے والی فیملیوں کے لئےانتظام کیا جائے۔  لیکن، خالی زمین ہے کہاں کہ ان کو بسایا جائے۔  ‘سی پی آئی ایم ایل  کی تنظیم گردنی باغ جھگی جھوپڑی تحفظ اور ماحولیاتی تحفظ جدو جہد کمیٹی کی طرف سے گزشتہ دنوں سی ایم کو ایک میمورینڈم دےکر کم سے کم 10 فیصدی زمین پر مکان بناکر ان فیملیوں کو دینے کی اپیل کی گئی، لیکن اس پر بھی کوئی کارروائی نہیں ہوئی ہے۔

کمیٹی کے رہنما مرتضیٰ علی کہتے ہیں،’ہم نے اسمبلی کے سامنے بھوک ہڑتال کی تھی، لیکن حکومت نے ہمارے مسائل سننے میں کوئی دلچسپی نہیں دکھائی۔  ‘مرتضیٰ علی نے آگے بتایا،’ڈی ایم کی طرف سے کہا گیا تھا کہ جن کے گھر ٹوٹے ہیں، ان کے نام اور شناختی کارڈ کی تفصیلی جانکاری ایک کاغذ میں لکھ‌کر جمع کیا جائے۔  کچھ لوگوں نے جانکاری سونپ دی ہے، لیکن اب تک کوئی خبر نہیں ہے کہ کیا ہونے جا رہا ہے۔  ‘

گردنی باغ کے متاثر ین نے کہا کہ اگر ان کو رہنے کے لئے حکومت کوئی اور جگہ  دے، تو وہ گردنی باغ چھوڑنے کو تیار ہیں۔گزشتہ دنوں بھاکپامالے کے ایم ایل اے نے سی ایم نتیش کمار سے ملاقات کر کے گردنی باغ سے منتقل ہو رہی فیملیوں کی دقتوں سے واقف کرایا تھا اور کم سے کم 10 فیصدی زمین ان کو دینے کو کہا تھا، لیکن سی ایم نے دو ٹوک الفاظ میں کہہ دیا کہ ایسا ممکن نہیں ہے۔سی پی آئی ایم ایل کے  ایم ایل اے سداما پرساد نے کہا، ‘ نتیش کمار کے رد عمل بےحد مایوس کرنے والا تھا۔  انہوں نے نہ صرف ان فیملیوں کو زمین دینے میں ناکامی ظاہر کر دی بلکہ یہ بھی کہا کہ گاؤں میں ہر طرح کی سہولیات حکومت دے رہی ہے، پھر وہ شہر کیوں آ رہے ہیں؟ ‘

سداما پرساد نے کہا کہ نتیش کمار نے ان کو بتایا ہے انہوں نے شہری ترقی اور محکمہ تعمیر  کو معاملہ دیکھنے اور منتقل ہونے والی فیملیوں کو دوسری جگہ گھر دینے کو کہا ہے۔اس مقصد کو لےکر شہری ترقیاتی اور محکمہ تعمیر کے افسروں سے رابطہ کیا گیا، تو انہوں نے اس طرح کے کسی ہدایت کی جانکاری ہونے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ شہری غریبوں کے لئے رہائش گاہ سے جڑا منصوبہ بہار اسٹیٹ ہاؤسنگ بورڈ کے ذمہ ہے۔بہار اسٹیٹ ہاؤسنگ بورڈ کے سکریٹری سدھانشو کمار چوبے سے جب رابطہ کیا گیا، تو انہوں نے دو ٹوک لہجے میں کہا، ‘ہاؤسنگ بورڈ کا گردنی باغ ٹاؤن شپ سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔  ‘

چوبے کو جب سی ایم کی ہدایت کا حوالہ دیا گیا، تو انہوں نے کہا، ‘ہم لوگ نہ تو اس منصوبہ کو دیکھ رہے ہیں اور نہ ہی ہمارے پاس کوئی ہدایت ہی آئی ہے۔  ہو سکتا ہے کہ کوئی لوکل باڈی یہ دیکھ رہی ہو۔  ‘نتیش کمار کی یقین دہانی کہ انہوں نے شہری ترقیاتی اورمحکمہ تعمیرکو ہدایت دی ہے اور محکمہ اور ہاؤسنگ بورڈ کا اس طرح کے کسی ہدایت کے ملنے سے انکار کر دینا یہی بتاتا ہے کہ منصوبہ سے متاثر ہونے والی سینکڑوں فیملیوں کو چھت دلانے کو لےکر بہانے بازی کی پالیسی اپنائی جا رہی ہے۔  زمینی سطح پر ان مہاجروں کے لئے کچھ ہونا نہیں ہے۔

(مضمون نگار آزاد صحافی ہے اور پٹنہ میں رہتے ہیں۔  )