فکر و نظر

کیا اندرا کی طرح ہی مودی ایمرجنسی لگاکر’نیو انڈیا‘ کا اعلان کرنے جا رہے ہیں؟

ایمرجنسی لگاکر سابق وزیر اعظم اندرا گاندھی نے ‘نئے ہندوستان ‘ کا اعلان کیا تھا۔  اب وزیر اعظم نریندر مودی ‘ نیو انڈیا ‘ کا اعلان کریں‌گے۔

وزیر اعظم نریندر مودی (فائل فوٹو : پی ٹی آئی)

وزیر اعظم نریندر مودی (فائل فوٹو : پی ٹی آئی)

15 اگست، 1975 اور 15 اگست، 2018،دونوں میں خاص فرق ہے لیکن کچھ یکسانیت بھی ہے۔32 سال کا فرق ہے۔  32 سال پہلے 15 اگست 1975 کو ملک انتظار کر رہا تھا کہ ایمرجنسی تھوپنے کے 50 دن بعد تب کی وزیر اعظم اندرا گاندھی لال قلعہ کی فصیل سے کون سا اعلان کریں‌گی یا پھر ایمرجنسی کے ذریعے شہریوں کے آئینی حقوق کو سسپینڈ کرنے کے بعد بھی اندرا گاندھی کی تقریر کی اصل بنیاد کیا ہوگی؟

اور اب 43سال بعد 15 اگست 2018 کے دن کا انتظار کرتے ہوئے ملک پھر انتظار کر رہا ہے کہ جمہوریت کے نام پر کون سا راگ لال قلعہ کی فصیل سے وزیر اعظم مودی گائیں‌گے۔کیونکہ پہلی بار سپریم کورٹ کے چارچیف جسٹس یہ کہہ‌کر عوامی طور پر سامنے آئے کہ ‘ جمہوریت خطرے میں ہے۔  ‘

پہلی بار ملک کی پریمیئر جانچ ایجنسی سی بی آئی کے ڈائریکٹر اور اسپیشل ڈائریکٹر یہ کہتے ہوئے آمنے سامنے آ کھڑے ہوئے کہ وی وی آئی پی جانچ میں اثر ڈالنے سے لےکر سی بی آئی کے اندر ایسے افسروں کی تقرری کی جا رہی ہے جو خود داغدار ہیں۔

پہلی بار سینٹرل انفارمیشن کمیشن (سی وی سی) ہی حکومت پر الزام لگا رہا ہے کہ اطلاع کے حق کو ہی وہ ختم کرنے پر آمادہ ہے۔

پہلی بار الیکشن کمیشن کو حزب مخالف نے یہ کہہ‌کر کٹہرے میں کھڑا کیا ہے کہ وہ انتخابی تاریخ سے لےکر انتخابی جیت تک کے لئے اقتدار کا مہرابنا دیا گیا ہے۔

پہلی بار حکمرانوں پر نگرانی کے لئے لوک پال کی تقرری کا سوال سپریم کورٹ پانچ بار اٹھا چکی ہے پر حکومت چار سال سے ٹال رہی ہے۔

پہلی بار میڈیا پر نکیل کی حد سیدھے طور پر کچھ ایسی ہو چلی ہے کہ ساتھ کھڑے ہو جاؤ نہیں تو نیوز چینل بند ہو جائیں‌گے۔

پہلی بار بھیڑتنتر ملک میں ایسا حاوی ہوا کہ سپریم کورٹ کو کہنا پڑا کہ کہیں لوگ قانون کی حکومت کو بھول نہ جائیں یعنی بھیڑتنتر یا لنچنگ کے عادی نہ ہو جائیں۔

اور پہلی بار اقتدار نے ملک کے ہر اداروں کے سامنے خود کو اس طرح پیش کیا ہے جیسے وہ سب سے بڑی بزنس کمپنی ہے۔  یعنی جو ساتھ رہے‌گا اس کو منافع ملے‌گا۔  جو ساتھ نہ ہوگا اس کو نقصان اٹھانا ہوگا۔

تو پھر آزادی کے 71ویں سالگرہ کے موقع پر وزیر اعظم مودی کیا کہیں‌گے؟اس انتظار سے پہلے یہ ضرور جاننا چاہیے کہ ملک میں ایمرجنسی لگانے کے بعد آزادی کے 28ویں یوم آزادی پر اندرا گاندھی نے لال قلعہ کی فصیل سے کیا کہا تھا۔اندرا گاندھی نے تب اپنی لمبی تقریر کے دوران کہا تھا،

ایمرجنسی کا اعلان کرکے ہمیں کوئی خوشی نہیں ہوئی لیکن حالات کے تقاضے کی وجہ سے ہمیں ایسا کرنا پڑا۔  لیکن ہرایک برائی میں بھی کوئی نہ کوئی بھلائی چھپی ہوتی ہے۔  کڑا قدم اس طرح اٹھائے جیسے کوئی ڈاکٹر مریض کو کڑوی دوا پلاتا ہے جس سے مریض صحت یاب ہوسکے۔

تو ہو سکتا ہے نوٹ بندی اور جی ایس ٹی کے سوال کو کسی ڈاکٹر اور مریض کی طرح وزیر اعظم بھی جوڑ دیں۔  یہ بھی ہو سکتا ہے کہ جن فیصلوں سے عوام ناخوش ہیں اور انتخابی سال کی سمت میں ملک بڑھ چکا ہے اس میں خود کو کامیاب ڈاکٹر قرار دیتے ہوئے نیتی آیوگ سے ملنے والے اعداد و شمار کو ہی لال قلعہ کی فصیل سے وزیر اعظم بتانے نکل پڑے۔یعنی ڈاکٹر نہیں اسٹیٹس مین کےکردار میں خود کو کھڑے رکھنے کی ویسی ہی کوشش کریں جیسا 32 سال پہلے اندرا گاندھی نے لال قلعہ کی فصیل سے یہ کہہ‌کر کیا تھا…

ہماری بیش قیمتی دولت ہے ہماری جرأت، ہمارا حوصلہ، ہماری خوداعتمادی۔  جب یہ خوبی مستحکم رہیں‌گے، تبھی ہم اپنے خوابوں کے ہندوستان کی تعمیر کر سکیں گے۔  تبھی ہم غریبوں کے لئے کچھ کر سکیں‌گے۔تمام فرقوں اور طبقوں کے بےروزگاروں کو روزگاردلا سکیں‌گے۔ان کے لئے ان کی ضرورت کی چیزیں مہیّا کرا سکیں‌گے۔میں آپ سے التجا کروں‌گی کہ آپ سب اپنے آپ میں اور اپنے ملک کے مستقبل میں عقیدہ رکھیں۔  ہمارا راستہ آسان نہیں ہے۔  ہمارے سامنے بہت سی پریشانیاں ہیں۔  ہماری راہ پریشانیوں سے  بھری ہے۔

ظاہر ہے ملک کے سامنے مشکل راہ کو لےکر اس بار وزیر اعظم مودی ذکر ضرور کریں‌گے اور ٹارگیٹ 2022 کو لےکر پھر ایک نیا نظر یہ دیں‌گے۔  پر یہاں سمجھنا ضروری ہے کہ جب ملک کے سامنے سوال آزادی کے لگتے نعروں کا ہو، چاہے وہ اظہار کی آزادی کی بات ہو یا پھر آئینی اداروں کو لےکر  اٹھتے سوال ہو یا پھر پی ایم او ہی ملک چلانے کا مرکز ہو چلا ہو تو ایسے میں کسی بھی وزیر اعظم کو ہمت تو چاہیے کہ وہ لال قلعہ کی فصیل سے آزادی کا سوال چھیڑ دے۔

فوٹو : رائٹرس

فوٹو : رائٹرس

اندرا گاندھی میں ایمرجنسی لگانے کے بعد بھی یہ ہمت تھی تو وزیر اعظم مودی کیا کہیں‌گے یہ تو دور کی کوڑی ہے، لیکن 32 سال پہلے اندرا گاندھی نے آزادی کا سوال کچھ یوں اٹھایا تھا…

آزادی کوئی ایسا جادو نہیں ہے جو غریبی کو چھومنتر کر دے اور ساری مشکلیں حل ہو جائیں آزادی کے معنی یہ نہیں ہوتے کہ ہم جو من مانی کرنا چاہیں اس کے لئے ہمیں چھوٹ مل گئی ہے۔ اس کے برعکس، وہ ہمیں موقع دیتی ہے کہ ہم اپنا فرض پورا کریں اس کا معنی یہ ہے کہ حکومت کو جرأت کے ساتھ آزاد فیصلہ لینا چاہیے۔ہم آزاد اس لئے ہوئے جس سے ہم لوگوں کی زندگی بہتر بنا سکیں۔  ہمارے اندر جو کمزوری سرمایہ داری، نسلی روایت اور اوہام پرستی کی وجہ سے پیدا ہو گئی تھی۔  اور جن کی وجہ سے ہم پسماندہ رہ گئے تھے ان سے لوہا لیں اور ان کو پچھاڑ دیں۔

ظاہر ہے اگر آزادی کے بول وزیر اعظم مودی کی زبان پر لال قلعہ کی فصیل سے تقریر کرتے وقت آ ہی گئے تو دلت لفظ بخوبی رینگے‌گا۔  آدیواسی لفظ بھی آ سکتا ہے اور انتخابی سال ہے تو ریزرویشن کے ذریعے ترقی کی نئی تعریف بھی سننے کو ملے‌گی۔

پر اس کڑی میں یہ سمجھنا ضروری ہے کہ آزادی لفظ ہی ملک کے ہر شہری کے اندر لہر تو پیدا کرتا ہی ہے۔  پھر آزادی کے دن نیشنل ازم اور اس پر بھی سرحد کی حفاظت یا فوجیوں کے شہید ہونے کا ذکر ہر دور میں کیا گیا۔  پھر مودی حکومت کے دور میں امن کے ساتھ کئے گئے سرجیکل اسٹرائک کے بعدکے سیاسی ہنگامے کو پورے ملک نے دیکھا اور سمجھا۔

ایسے میں وزیر اعظم مودی لال قلعہ کی فصیل سے اپوزیشن کے سیکولرازم پر حملہ کرتے ہوئے کس طرح کی نیشنل ازم کا ذکر کریں‌گے اس کا انتظار تو ملک ضرور کرے‌گا لیکن یاد کیجئے 32 سال پہلے اندرا گاندھی نے کیسے حزب مخالف کو نشانے پر لےکر نیشنل ازم  جگایا تھا…

 ہم نے آج یہاں ملک کا پرچم پھہرایا ہے اور ہم اس کو ہرسال پھہراتے ہیں کیونکہ یہ ہماری آزادی سے پہلے کی اس گہری خواہش کی تکمیل کرتا ہے کہ ہم ہندوستان کا پرچم لال قلعہ پر پھہرائیں‌گے۔  حزب مخالف کے ایک رہنما نے ایک بار کہا تھا، یہ پرچم آخر کپڑے کے ایک ٹکڑے کے سوائے اور کیا ہے؟  بے شک یہ کپڑے کا ایک ٹکڑا ہے، لیکن ایک ایسا ٹکڑا ہے جس کی آن بان اور شان کے لئے ہزاروں آزادی کے دیوانوں نے اپنی جانیں قربان کر دیں۔  کپڑے کے اسی ٹکڑے کے لئے ہمارے بہادر جوانوں نے ہمالیہ کی برف پر اپنا خون بہایا۔  کپڑے کا یہ ٹکڑا ہندوستان کی یکجہتی اور طاقت کی نشانی ہے۔  اسی وجہ سے اس کو جھکنے نہیں دینا ہے۔  اس کو ہر ہندوستانی کو، چاہے وہ امیر ہو یا غریب، خاتون ہو یا مرد، بچہ ہو یا جوان یا بوڑھا، ہمیشہ یاد رکھنا ہے۔  یہ کپڑے کا ٹکڑا ضرور ہے لیکن ہمیں زندگی سے  پیارا ہے۔

تو ایمرجنسی لگاکر۔شہریوں کے آئینی حقوق کو سسپینڈ کرکے۔  32 سال پہلے جب اندرا گاندھی ملک کے لئے مر مٹنے کی قسم کھاتے ہوئے لال قلعہ کی فصیل سے اگر اپنی تقریریہ کہتے ہوئے ختم کرتی ہیں…

 یہ آرام کرنے اور تھکان مٹانے کی منزل نہیں ہے، یہ سخت مشقت کرنے کی راہ ہے۔  اگر آپ اس راستے پر آگے بڑھتے رہے تو آپ کے سامنے ایک نئی دنیا آئے‌گی، آپ کو ایک نیا اطمینان حاصل ہوگا، کیونکہ آپ محسوس کریں‌گے کہ آپ نے ایک نئے ہندوستان کی، ایک نئی تاریخ کی تعمیر کی ہے۔  جئے ہند۔

تو پھر اب انتظار کیجئے 15 اگست کو لال قلعہ کی فصیل سے وزیر اعظم مودی کی تقریر کا۔ کیونکہ 32 سال پہلے ایمرجنسی لگاکر اندرا نے ‘نئے ہندوستان ‘ کا خواب دکھایا تھا۔  اور 32 سال بعد جمہوریت کا دوست بن‌کر جمہوریت ختم کرنے کی سوچ کے تحت ‘ نیو انڈیا ‘ کا خواب جگایا جا رہا ہے اور 15 اگست کو بھی جگایا جائے‌گا۔

(مضمون نگار سینئر صحافی ہیں۔)