خبریں

عمر خالد پر حملے کے مبینہ ملزم حراست میں

درویش شاہ پور اور نوین دلال نام کے دو نوجوانوں نے سوشل میڈیا پر ویڈیو جاری کر کے جے این یو کے اسٹوڈنٹ لیڈر پر حملے کی ذمہ داری لی تھی۔  پولیس نے دونوں کو حراست میں لے لیا ہے۔

13 اگست کو حملے کے بعد میڈیا سے بات کرتے عمر خالد (فوٹو : پی ٹی آئی)

13 اگست کو حملے کے بعد میڈیا سے بات کرتے عمر خالد (فوٹو : پی ٹی آئی)

نئی دہلی:جواہرلال نہرو یونیورسٹی (جے این یو)کے اسٹوڈنٹ لیڈر عمر خالد پر حملہ کرنے کا دعویٰ کرنے والے دوشخص کو حراست میں لیا گیا ہے۔  پولیس نے سوموار کو یہ جانکاری دی۔پولیس افسروں نے بتایا کہ درویش شاہ پور اور نوین دلال سے فی الحال پوچھ تاچھ چل رہی ہے۔  حالانکہ انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ دونوں کو کب حراست میں لیا گیا۔یہ دونوں ہریانہ کے جھجر کے رہنے والے ہیں اور بتایا جا رہا ہے کہ ان کو ہریانہ سے ہی حراست میں لیا گیاہے۔دہلی پولیس کی اسپیشل سیل کی ایک ٹیم نے سکھ انقلابی کرتار سنگھ سرابھا کے گاؤں کا دورہ کیا تھا۔ان دونوں نے وہاں 17 اگست کو خود سپردگی کرنے کی بات کہی تھی، حالانکہ یہ وہاں ملے نہیں۔

15 اگست کو فیس بک پر اپلوڈ کئے گئے ایک ویڈیو میں دونوں نے خالد پر حملہ کرنے کا دعویٰ کیا اور یہ بھی کہا کہ یہ حملہ ملک کے شہریوں کو ‘ یوم آزادی کا تحفہ ‘ ہے۔پولیس ویڈیو کے مستند ہونے  کی تصدیق کر رہی ہے اور اس آئی پی ایڈریس کی تلاش‌کررہی ہے جہاں سے اس ویڈیو کو پوسٹ کیا گیا تھا۔ویڈیو میسج میں شاہ پور نے کہا، ‘ہم اپنے آئین کا احترام کرتے ہیں۔  لیکن ہمارے آئین میں پاگل کتوں کو سزا دینے کا کوئی اہتمام نہیں ہے۔  پاگل کتوں سے ہمارا مطلب جے این یو گروہ سے ہے جو ملک کو کمزور بنا رہے ہیں اور ان کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔ ہریانہ میں ہمارے بڑے بزرگوں نے ہمیں سکھایا ہے کہ ایسے لوگوں کو سبق سکھانا چاہیے۔ ‘

ویڈیو میں انہوں نے پولیس سے درخواست کی تھی کہ وہ کسی کو پریشان نہ کریں اور وہ (دونوں) سکھ انقلابی کے گاؤں میں خود سپردگی کریں‌گے۔  لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا۔واضح  ہو کہ خالد پر 13 اگست کو اس وقت حملہ ہوا تھا، جب وہ دہلی کے کانسٹی ٹیوشن کلب میں ایک پروگرام میں حصہ لینے کے لئے جا رہے تھے۔  حملے میں وہ بال بال بچے۔14 اگست کو دہلی پولیس نے اپنی اسپیشل سیل کو یہ معاملہ سونپ دیا، جو خالد اور دو دیگر جے این یو طالب علموں کے خلاف غدار وطن کے معاملے کی بھی جانچ‌کر رہی ہے۔

پولیس نے بتایا کہ ان کو یہ’اطلاع ‘ نہیں تھی کہ سوموار کے پروگرام میں خالد بھی حصہ لینے والے ہیں۔تفتیش سے متعلق ایک پولیس افسر نے بتایا کہ پولیس نے حملہ میں استعمال ہوئے ہتھیار کو ضبط کر لیا ہے اور ابتدائی فارینسک تفتیش میں یہ پتہ چلا ہے کہ خالد کے خلاف جب اس پستول کا استعمال ہوا تھا تب وہ جام ہو گیا تھا۔انہوں نے بتایا کہ پولیس یہ طے کر رہی ہے کہ گولی چلی تھی یا نہیں کیونکہ موقع واردات پر ان کو کوئی کارتوس نہیں ملا تھا۔پولیس نے واقعہ سے متعلق قتل کی کوشش کا معاملہ درج کیا ہے۔

حملے کے بعد دی وائر سے بات کرتے ہوئے عمر نے ان کے خلاف ہو رہے پروپیگنڈہ کو اس حملے کا ذمہ دار بتایا تھا۔انہوں نے کہا،’میں ایک بات بہت ذمہ داری سے بولنا چاہتا ہوں کہ دو سال میں میرے خلاف جو بے بنیاد باتیں بولی گئیں۔ جس طرح سے مجھے بار بار غدار وطن بولا گیا اور میرے خلاف پروپیگنڈہ چلایا گیا یہ (حملہ) اسی کا نتیجہ ہے۔  یہ پروپیگنڈہ ان لوگوں کے ذریعے چلایا گیا جو خود کو ملک کا ذمہ دار شہری بتاتے ہیں، حکمراں پارٹی کے ترجمان اور بڑے بڑے نیوز چینل کا اینکر بتاتے ہیں۔

یہ تمام لوگ اس طرح کا پروپیگنڈہ پھیلا تو رہے ہیں لیکن ابھی تک کورٹ میں کچھ بھی ثابت نہیں ہوا ہے۔  میں نہیں کہہ رہا ہوں کہ وہ لوگ شامل ہیں پر جو ماحول پیدا کیا گیا ہے جس میں کچھ لوگوں کو الگ الگ طریقے سے ٹارگیٹ کر کے ان پر حملہ کئے جا رہے ہیں۔  اس ٹرینڈ کے بارے میں ہمیں سوچنا چاہیے۔  ‘

(خبر رساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)