خبریں

سینئر صحافی کلدیپ نیئر کا انتقال

ایمرجنسی کے دوران اس کی مخالفت کرنے کی وجہ سے جیل گئے ۔تقریباً 15کتابیں لکھنے والے کلدیپ نیئر تمام مؤقر اخباروں کے مدیر رہے۔

فوٹو: وکی پیڈیا

فوٹو: وکی پیڈیا

نئی دہلی :پریس کی آزادی اور شہریوں کے حقوق کی حفاظت کے لیے ہمیشہ جد وجہد کرنے والے معروف صحافی،قلمکار اور سماجی کارکن کلدیپ نیئر کا بدھ کی شب کو انتقال ہوگیا۔ان کی عمر 95سال تھی اور وہ گزشتہ تین دنوں سے نئی دہلی کے ایک ہاسپٹل میں زیر علاج تھے۔سینئر صحافی کے بیٹے سدھیر نیئر نے بتایا کہ ان کے والد کا انتقال بدھ کی شب 12بجکر 30منٹ پر اسکارٹس ہاسپٹل میں ہوا۔ سدھیر نے بتایا کہ وہ نمونیا سے متاثر تھے او ر پانچ دن پہلے ان کو ہاسپٹل میں داخل کروایا گیا تھا۔

پسماندگان میں اہلیہ کے علاوہ دو بیٹے ہیں ۔ طویل عرصے سے ان کی صحت ناساز تھی ۔ دی ویک میگزین کے مدیر سچدانند مورتی نے نیئر کو پریس کی آزادی اور شہری حقوق کی حفاظت کے لیے ہمشہ جدوجہد کرتے رہنے والے صحافی کے طور پر یاد کیا۔مورتی نے کہا ؛انہوں نے راجیوگاندھی حکومت کے ذریعے لائے گئے متنازعہ ہتک عزت ایکٹ کی مخالفت کی تھی ۔ہندوستان میں شہریو ں کے حقوق کی حفاظت کے لیے وہ ہمیشہ کام کرتے رہے۔

کلدیپ نیئر ان لوگوں میں سے تھے جنہوں نے ایمرجنسی کی کھل کر مخالفت کی تھی اور میسا کے تحت جیل بھی گئے ۔بیانڈ دی لائنس:این آٹوبایوگرافی ، انڈیا آفٹر نہرو،ڈسٹنٹ نیبرس: اَ ٹیل آف دی سب کانٹی نینٹ، واٹ ایٹ واگھا-انڈیا پاکستان ریلیشنس،سپریشن آف ججیز،دی جج منٹ : انسائیڈ اسٹوری آف ایمرجنسی ان انڈیا،ودآؤٹ فیئر ؛ دی لائف اینڈ ٹرائل آف بھگت سنگھ اور ایمرجنسی ری ٹولڈ سمیت تقریباً15کتابیں لکھنے والے کلدیپ نیئر نے انڈین ایکسپریس اخبارکے مدیر رہنے کے ساتھ ہی 1990میں برٹن واقع ہندوستانی سفارت خانے میں بطور ہائی کمشنر اپنی خدمات انجام دیں۔

14 اگست 1923کو سیالکوٹ میں پیدا ہونے والے نیئر نے اپنی صحافتی زندگی کا آغاز اردو اخبار انجام سے کیا ۔ وہ انگریزی اخبار دی اسٹیٹس مین کے دہلی ایڈیشن کے مدیر بھی رہے ۔ اسی دوران ایمرجنسی کی مخالفت کرنے کی وجہ سے ان کو جیل جانا پڑا۔صحافی اور قلمکار ہونے کے ساتھ ساتھ وہ سماجی کارکن بھی رہے ۔ 1996میں یو این گئے ہندوستانی وفد کا وہ بھی حصہ تھے ۔ 1997میں انہیں راجیہ سبھا کا ممبر نامزد کیا گیا تھا۔

نیئر نے ہندوستان اور پاکستان کے بیچ رشتوں کو بھی درست کرنے میں لگاتار کوشش کی ،انہوں نے امرتسر کے نزدیک اٹاری باگھا بارڈر پر کارکنوں کے ساتھ اس گروپ کی قیادت کی تھی جنہو ں نے ہندوستان اور پاکستان کے یوم آزادی پر وہاں موم بتیاں جلائی تھیں۔اس کے علاوہ ہندوستانی جیلوں مین بند پاکستانی قیدیوں اور پاکستانی جیلوں میں بند ہندوستانی قیدیوں ،جن کی سزا پوری ہونے کے بعد بھی ان کو رہا نہیں کیا گیا تھا ان کے لیے مہم چلاتے رہے۔

1985سے کلدیپ نیئر نے تقریباً 80میگزین میں 14زبانوں میں کالم لکھا ۔ پاکستان کے لاہور میں واقع فورمین کرشچین کالج سے انہوں نے بی اے آنرس کیا اور لاہور مین ہی لاء کالج سے ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کی ۔وہ سپریم کورٹ میں سنیئر وکیل راجیو نائر کے والد تھے۔

اس کے علاوہ 1953میں کلدیپ نیئر نے ایک اسکالر شپ ملنے کے بعد امریکہ کی نارتھ ویسٹرن یونیورسٹی کے مڈل اسکول آف جرنلزم سے صحافت کی تعلیم حاصل کی ۔2015میں صحافت کے شعبے میں بیش بہا خدمات کے لیے ان کو رام ناتھ گوینکا ایوارڈ سے نوازا گیا ۔ اس کے علاوہ ان کے نام سے کلدیپ نیئر صحافتی ایوارڈ بھی میڈیا اہلکاروں کو دیا جاتا ہے۔

(خبررساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)