خبریں

ریزرو بینک کے ذریعے این پی اے روکنے کے لیے کارروائی نہیں کرنے پر پارلیامانی کمیٹی نے اٹھائے سوال

سینئر کانگریسی رہنما ایم ویرپا موئلی کی قیادت والی فنانس پر پارلیامنٹ کی اسٹینڈنگ کمیٹی کی اس رپورٹ کو منظور کرلیا ہے ۔ اس کو پارلیامنٹ کے ونٹر سیشن میں پیش کیا جا سکتا ہے۔

فوٹو: رائٹرس

فوٹو: رائٹرس

نئی دہلی: پارلیامنٹ کی ایک کمیٹی نے انڈین ریزرو بینک کے ذریعے بینکنگ سیکٹر میں ڈوبے قرض کا مسئلہ ‘ پیدا’ ہونے سے پہلے ہی اس کو روکنے کے لیے کارروائی نہیں کرنے پر سوال اٹھایا ہے ۔ کمیٹی نے کہا کہ سینٹرل بینک نے دسمبر 2015 میں اے کیو آر سے پہلے اس سمت میں قدم نہیں اٹھایا۔ فنانس پر پارلیامنٹ کی اسٹینڈنگ کمیٹی کی رپورٹ کے بارے میں  جانکاری رکھنے والے ذرائع نے کہا کہ ریزرو بینک کو یہ پتہ لگانا چاہیے کہ اے کیو آر سے پہلے دباؤ والے اکاؤنٹ کے بارے میں شروعاتی اشارے کیوں نہیں پکڑے جا سکے۔

سینئر کانگریس رہنما ایم ویرپا موئلی کی قیادت والی کمیٹی نے اس رپورٹ کو منظور کر لیا ہے۔ اس کو پارلیامنٹ کے ونٹر سیشن میں پیش کیا جا سکتا ہے۔ اس کمیٹی کے ممبروں میں سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ بھی شامل ہیں۔ کمیٹی نے سوال کیا ہے کہ ریزرو بینک کے ری اسٹرکچرنگ پلان کے ذریعے کیوں دباؤ والے اکاؤنٹس کو ‘ سدا بہار’ کیا گیا۔

ذرائع نے کہا کہ بڑھتے این پی اے کا مدعا وراثت میں ملا ہےاور اس بارے میں ریزرو بینک نے اپنا رول ٹھیک سے ادا نہیں کیا۔ پبلک سیکٹر کے بینکوں کا ڈوبا قرض مارچ 2015 سے مارچ 2018 کے دوران 6.2لاکھ کروڑ روپے بڑھا ہے۔ ذرائع نے رپورٹ کے حوالے سے کہا کہ اس وجہ سے 5.1لاکھ کروڑ روپے کا اہتمام کرنا پڑاہے۔

رپورٹ میں ہندوستان میں لوور لون سے جی ڈی پی کے تناسب پر فکر کا اظہار کیا گیا ہے جو دسمبر 2017 میں 54.5فیصد تھا۔ چین میں یہ تناسب 208.7فیصد ،برٹن میں 170.5فیصد اور امریکا میں 152.2فیصد ہے۔غور طلب ہے کہ پارلیامانی کمیٹی کے مطابق، این ڈی اے کی حکومت میں بینک این پی اے میں 6.2لاکھ کروڑ روپے کا اضافہ ہوا ہے۔  کریسل کی ایک رپورٹ کے مطابق فنانس ایئر 2018 میں ملک میں بینکوں کا کل این پی اے قریب 10.3لاکھ کروڑ روپے تھا۔