فکر و نظر

جمہوریت اور آئین بھی اقتدار کے سامنے بےمعنی ہو گیا ہے…

اے ڈی آر اور نیشنل الیکشن واچ کی رپورٹ مانیں  تو جس پارلیامنٹ  کو ملک کا قانون بنانے کا حق ہے، اسی کے اندر لوک سبھا میں 185 اور راجیہ سبھا میں 40 رکن پارلیامان داغدار ہیں۔ تو یہ سوال ہو سکتا ہے کہ آخر کیسے وہ رہنما ملک میں بد عنوانی یا سیاست میں جرم کو لےکر غوروفکربھی کر سکتے ہیں جو خود داغدار ہیں۔

اتر پردیش کے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ (فوٹو : پی ٹی آئی)

اتر پردیش کے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ (فوٹو : پی ٹی آئی)

نام-گرمیت، عمر-25 سال، مقدمہ-7، انکاؤنٹر کی تاریخ-31 مارچ 2017، انکاؤنٹر کی جگہ-بلیا۔

نام-نوشاد عرف ڈینی، عمر 30 سال، مقدمہ-19، انکاؤنٹر کی تاریخ-29 جولائی 2017، انکاؤنٹر کی جگہ-شاملی۔

نام-سرور، عمر-28 سال، مقدمہ-8، انکاؤنٹر کی تاریخ-29 جولائی 2017، انکاؤنٹر کی جگہ-شاملی۔

نام-اکرام عرف تولا، عمر-40 سال، مقدمہ-11، انکاؤنٹر کی تاریخ-10 اگست 2017، انکاؤنٹر کی جگہ-شاملی۔

نام-ندیم، عمر-33 سال، مقدمہ-12، انکاؤنٹر کی تاریخ-8 ستمبر 2017، انکاؤنٹر کی جگہ-مظفرنگر۔

نام-شمشاد، عمر-37 سال، مقدمہ-36، انکاؤنٹر کی تاریخ-11 ستمبر 2017، انکاؤنٹر کی جگہ-سہارن پور۔

نام-جان محمد ، عمر-35 سال، مقدمہ-10، انکاؤنٹر کی تاریخ-17 ستمبر 2017، انکاؤنٹر کی جگہ-کھتولی۔

نام-فرقان، عمر-36 سال، مقدمہ-38، انکاؤنٹر کی تاریخ-22 ستمبر 2017، انکاؤنٹر کی جگہ-مظفرنگر۔

نام-منصور، عمر-35 سال، مقدمہ-25، انکاؤنٹر کی تاریخ-27 ستمبر 2017، انکاؤنٹر کی جگہ-میرٹھ۔

نام-وسیم کالا، عمر-20 سال، مقدمہ-6، انکاؤنٹر کی تاریخ-28 ستمبر 2017، انکاؤنٹر کی جگہ-میرٹھ۔

نام-وکاس عرف کھجلی، عمر-22 سال، مقدمہ 11، انکاؤنٹر کی تاریخ-28 ستمبر 2017، انکاؤنٹر کی جگہ-علی گڑھ۔

نام-سمیت گرجر، عمر-27 سال، مقدمہ-0، انکاؤنٹر کی تاریخ-3 اکتوبر 2017، انکاؤنٹر کی جگہ-گریٹر نوئیڈا۔

نام-رمجانی، عمر-18 سال، مقدمہ-18، انکاؤنٹر کی تاریخ-8 دسمبر 2017، انکاؤنٹر کی جگہ-علی گڑھ۔

نام-نیر محمد، عمر-28 سال، مقدمہ-18، انکاؤنٹر کی تاریخ-30 دسمبر 2017، انکاؤنٹر کی جگہ-میرٹھ۔

نام-شمیم، عمر-27 سال، مقدمہ-27، انکاؤنٹر کی تاریخ-30 دسمبر 2017، انکاؤنٹر کی جگہ-مظفرنگر۔

نام-شبیر، عمر-32 سال، مقدمہ-20، انکاؤنٹر کی تاریخ-2 جنوری 2018، انکاؤنٹر کی جگہ-شاملی۔

نام-بگا سنگھ، عمر-40 سال، مقدمہ-17، انکاؤنٹر کی تاریخ-17 جنوری 2018، انکاؤنٹر کی جگہ-لکھیم پور کھیری۔

نام-مکیش راج بھر، عمر-32 سال، مقدمہ-8، انکاؤنٹر کی تاریخ-26 جنوری 2018، انکاؤنٹر کی جگہ-اعظم گڑھ۔

نام-اکبر، عمر-27 سال، مقدمہ-10، انکاؤنٹر کی تاریخ-3 فروری 2018، انکاؤنٹر کی جگہ-شاملی۔

نام-وکاس، عمر-36 سال، مقدمہ-6، انکاؤنٹر کی تاریخ-6 فروری 2018، انکاؤنٹر کی جگہ-مظفرنگر۔

نام-ریحان، عمر-18 سال، مقدمہ-13، انکاؤنٹر کی تاریخ-3 مئی 2018، انکاؤنٹر کی جگہ-مظفرنگر۔

یہ یوپی کی یوگی حکومت میں پولیس انکاؤنٹر میں مارے گئے 21 مجرموں کا کچا چٹھا ہے۔ سی ایم نے ہدایت دی اور پولیس نے تلاش تلاش کر ان مجرموں کو نشانے پر لیا، جن کو نہ لیا جاتا تو شاید جرم اور بڑھ جاتے۔ ہر انکاؤنٹر کے بعد سینئر پولیس افسروں نے پولیس اہلکاروں کی پیٹھ تھپتھپائی اور سی ایم نے سینئر  پولیس افسروں کی۔

حالانکہ اس پوری فہرست میں صرف سمیت گرجر ایک ایسا نام ہے جس کے خلاف ایک بھی ایف آئی آر پولیس تھانے میں درج نہیں ہے یعنی کوئی مقدمہ پہلے سے چل بھی نہیں رہا تھا لیکن انکاؤنٹر کے بعد ووٹر آئی کارڈ سے نام کی جانکاری ملی اور پھر پولیس نے سمیت گرجر کو پونٹی چڈا کے دو ملازمین‎ کے قتل میں ملوث قرار دے دیا۔

اس کے علاوہ ہر مارے گئے مجرم پر 6 سے 27 مقدمے تک درج تھے۔ تو ظاہر ہے پولیس نے اپنا کام کیا۔ لیکن اگلا سوال یوگی حکومت میں شامل وزراء کا ہے، جن پر کتنے مجرمانہ مقدمے چل رہے ہیں یہ دیکھنااور سمجھنا ضروری ہے۔ کیونکہ انکاؤنٹر انہی کا ہوا جن پر مقدمے درج ہیں اور پولیس کی دلیل بھی یہی رہی کہ نامزد مجرموں کو وہ پکڑنے گئی تو انہوں نے بھاگنے کی کوشش کی۔ کسی نے فائرنگ بھی کر دی تو انکاؤنٹر ہو گیا، اس لئے یوگی حکومت کے وزراء کا حال دیکھتے ہیں۔

الیکشن  لڑتے وقت الیکشن کمیشن کو سونپے گئے حلف نامے میں جن مقدموں کا ذکر ان وزراء نے کیا ہے، اس کو ہی ایسوسی ایشن فار ڈیموکریٹک رائٹ یعنی اے ڈی آر نے مرتب کیا ہے۔ اسی طر ح اتر پردیش الیکشن واچ نے بھی رپورٹ تیار کی اور انہی کی رپورٹ، جو صاف طور پر بتاتی ہے کہ داغدار  وزراء کی کمی نہیں ہے۔ ذرا ناموں پر غور کریں۔

کیشو پرساد موریہ-نائب وزیر اعلیٰ، کل مقدمہ-11، آئی پی سی کی سنگین 15 دفعات

نند گوپال گپتا نندی-کابینہ  وزیر، کل مقدمہ-7، آئی پی سی کی 10 سنگین دفعات

ستیہ پال سنگھ بگھیل-کابینہ  وزیر، کل مقدمہ-7، آئی پی سی کی 10 سنگین دفعات

دارا سنگھ چوہان-کابینہ  وزیر، کل مقدمہ-2، آئی پی سی کی 7 سنگین دفعات

سوریہ پرتاپ شاہی-کابینہ  وزیر، کل مقدمہ-3، آئی پی سی کی 5 سنگین دفعات

اوم پرکاش راج بھر-کابینہ  وزیر، کل مقدمہ-1، آئی پی سی کی سنگین 2 دفعات

سوامی پرساد موریہ-کابینہ  وزیر، کل مقدمہ-1، آئی پی سی کی سنگین 2 دفعات

ریتا جوشی-کابینہ  وزیر، کل مقدمہ-2، آئی پی سی کی1 سنگین دفعہ

آشوتوش ٹنڈن-کابینہ وزیر، کل مقدمہ-1، آئی پی سی کی 1 سنگین دفعہ

برجیش پاٹھک-کابینہ  وزیر، کل مقدمہ-1، آئی پی سی کی 3 سنگین دفعات

اپیندر تیواری-وزیر مملکت، کل مقدمہ-6، آئی پی سی کی سنگین 6 دفعات

سریش کمار رانا-وزیر مملکت،، کل مقدمہ-4، آئی پی سی کی سنگین 6 دفعات

بھوپیندر چودھری-وزیر مملکت،، کل مقدمہ-2،آئی پی سی کی سنگین 2 دفعات

گریش چندر یادو-وزیر مملکت، کل مقدمہ-1، آئی پی سی کی 4 سنگین دفعات

منوہر لال-وزیر مملکت، کل مقدمہ-1، آئی پی سی کی 3 سنگین دفعات

انل راج بھر-وزیر مملکت، کل مقدمہ-2، آئی پی سی کی 1 سنگین دفعہ۔

ویسے، سی ایم بننے سے پہلے تک رکن پارلیامان یوگی آدتیہ ناتھ پر بھی 3 مقدمے تھے۔ ان پر بھی آئی پی سی کی 7 دفعات لگی تھیں لیکن سی ایم بننے کے بعد کابینہ  کے فیصلے سے سارے معاملے ختم ہو گئے۔ اس کے بعد بہت سے معاملوں کو بھی حکومت نے سیاسی معاملہ قرار دیتے ہوئے عدالتوں کو کام سے بچا لیا لیکن الیکشن  لڑتے وقت دئے گئے حلف نامہ میں جن جرائم کا ذکر منتخب ہوئے نمائندوں نے کیا، اس میں داغدار وزراء کی فہرست صاف بتاتی ہے کہ کابینہ  سطح کے 10  وزیر، تو ریاستی سطح کے 6 وزیر داغدار ہیں۔

ان پر آئی پی سی کی وہ دفعات لگی ہوئی ہیں جن کو سنگین جرم کے طور پر مانا جاتا ہے۔ اور سنگین جرم کا مطلب ہے کہ سزا ملے‌گی تو کم سے کم 5 سال جیل میں گزارنا ہوگا۔ ان جرائم کی فہرست میں قتل، اغوا، ریپ  سے لےکر ریاست کے ریوینیو کو چونا لگانے، بد عنوانی کرنے تک کے معاملے درج ہیں۔ اس میں سے زیادہ تر غیر ضمانتی ہیں۔

یعنی الیکشن واچ کی رپورٹ کے مطابق یوگی کے کابینہ میں 45 فیصدی وزیر داغدار ہیں، جن پر مجرمانہ معاملات درج ہیں۔ یعنی جس وقت ریاست کے مجرموں پر نکیل کسنے کی میٹنگ ہوئی  ہوگی  تو کابینہ  نے ہی اس کو پاس کیا اور اس میں بھی کئی منتخب ہوئے نمائندے خود کئی مجرمانہ معاملوں میں پھنسے ہوئے ہیں۔ اگر وزراء سے الگ یوپی میں چنے گئے کل 403 عوامی نمائندوں پر نظر ڈالیں تو 140 ایم ایل اے ایسے ہیں جو داغدار ہیں یا کہیں جن پر مجرمانہ معاملات چل رہے ہیں۔

 تو کیا یوگی حکومت نے صحیح فیصلہ لیا کہ ریاست میں ویسے مجرم جن پر آئی پی سی کی سنگین دفعات درج ہیں ان کے خلاف انکاؤنٹر کا حکم دے دیا گیا، جس سے آنے والے وقت میں وہ سیاست میں نہ آ جائیں۔ یعنی سیاست کے جرم کو روکنے کے لئے مجرموں کا انتخاب لڑنے سے پہلے ہی انکاؤنٹر ضروری ہے یا پھر جو داغدار یا کہیں مجرمانہ معاملوں کے داغ لےکر عوام کے نمائندے بن گئے ان کو خصوصی اختیارات مل گئے کہ وہ پولیس انتظامیہ کو اس کام میں لگا دیں  کہ کوئی مجرم سیاسی طور پر مضبوط نہ ہو۔

یعنی جس طرح یوپی میں انکاؤنٹر کو لےکر مایاوتی اور اکھلیش یادو نے الزام لگائے ہیں کہ سیاسی مخالف کو ختم کرنے کے لئے انکاؤنٹر کرائے جا رہے ہیں تو اس کا اگلا سچ تو یہ بھی ہے کہ ملک میں نہ تو کوئی ایسی ریاست ہے اور نا ہی کسی ریاست میں کوئی ایسا کابینہ ہے جہاں کے ایم ایل اے اور وزیر داغدار نہ ہو۔ اے ڈی آر اور نیشنل الیکشن واچ کی رپورٹ مانے تو جس پارلیامنٹ  کو ملک کا قانون بنانے کا حق ہے، سپریم کورٹ کو بھی آخر میں کسی فیصلے کے مدنظر پارلیامنٹ  کی طرف ہی دیکھنا پڑتا ہے، اسی پارلیامنٹ  کے اندر لوک سبھا میں 543 میں سے 185 رکن پارلیامان داغدار ہیں۔

ان کے خلاف کرپشن یا مجرمانہ معاملات درج ہیں۔ اسی طرح راجیہ سبھا کے بھی 40 رکن پارلیامان ایسے ہیں جو داغدار ہیں۔ تو یہ سوال ہو سکتا ہے کہ آخر کیسے وہ رکن پارلیامان ملک میں بد عنوانی یا سیاست میں جرم کو لےکر غوروفکر بھی کر سکتے ہیں جو خود داغدار ہیں۔ یاد کیجئے وزیر اعظم بننے کے ٹھیک بعد داغدار رکن پارلیامان کو لےکر خود نریندر مودی نے اپنے پہلے خطاب  میں ہی داغدار رکن پارلیامان کو لےکر جیسے ہی یہ سوال چھیڑا کہ فاسٹ ٹریک عدالتوں کے ذریعے سال بھر میں داغدار رکن پارلیامان کے معاملے نپٹائے جائیں۔

ویسے ہی پہلا سوال یہی اٹھا کہ کہیں مودی نے بر کے چھتے میں ہاتھ تو نہیں ڈال دیا کیونکہ جو سوال  گزشتہ دو دہائی سے پارلیامنٹ  اپنے ہی لال ہرے کارپیٹ تلے دباتا رہا اس کو کھلے طور پر وزیر اعظم مودی نے ایک ایسے سکے کی طرح اچھال دیا جس میں اب چت یا پٹ ہونی ہی ہے۔ موجودہ لوک سبھا میں 185 رکن پارلیامان داغدار ہیں اور یہ تعداد بیتے دس سال میں سب سے زیادہ ہے۔ یاد کیجئے تو 2004 میں لوک سبھا میں 150 رکن پارلیامان داغدار تھے تو 2009 میں 158 رکن پارلیامان داغدار تھے۔

گزشتہ  دس سال میں یعنی منموہن سنگھ حکومت کے وقت داغدار رکن پارلیامان کا معاملہ اٹھا ضرور لیکن حکومت گری نہیں اس لئے چیک اینڈ بیلنس تلے ہر بار داغدار رکن پارلیامان کی بات پارلیامنٹ  میں ہی آئی گئی ہو گئی۔ اور تو اور مجرم سیاستداں آسانی سے انتخاب جیت سکتے ہیں اس لئے کھلے طور پر ٹکٹ بانٹنے میں کسی بھی سیاسی جماعت نے کوتاہی نہیں برتی اور الیکشن  کمیشن کے بار بار یہ کہنے کو بھی نظرانداز کر دیا گیا کہ مجرمانہ معاملوں میں پھنسے سیاستدانوں کو ٹکٹ ہی نا دیں۔

یہاں تک کہ منموہن سنگھ کے 10 سال کے میعاد عہد میں لوک سبھا میں تین بار اور راجیہ سبھا میں 5بار داغدار رکن پارلیامان کو لےکر معاملہ اٹھا لیکن ہوا کچھ بھی نہیں۔ وجہ یہی مانی گئی کہ حکومت اتحاد کی ہے تو کارروائی کرنے پر حکومت ہی نہ گر جائے۔ یعنی سوال تین سطح پر ہے۔ پہلا، یوپی میں مجرموں کا انکاؤنٹر سیاسی منشا کے ساتھ مستقبل کی سیاست سادھنے کے لئے مجرمانہ معاملوں  میں پھنسے حکمراں ہی تو نہیں اٹھا رہے ہیں۔

دوسرا، تمام ریاستوں میں اقتدار تک پہنچنے کے لئے پہلے مجرم کا استعمال ہوتا تھا اب مجرم ہی انتخاب لڑ‌کے قانون سازی کا خصوصی اختیارات پا بھی لیتے ہیں اور پھر کھلے طور پر جرم بھی کرتے ہیں۔ مثلاً یوپی میں انا ؤ ریپ کیس میں بی جے پی ایم ایل اے سینگر پر ریاستی حکومت ہاتھ ڈال نہیں پاتی تو معاملہ سی بی آئی کے پاس جاتا ہے لیکن پولیس اہم گواہ یوسف کو بھی بچا نہیں پاتی اس کا قتل ہو جاتا ہے۔

اسی طرح بہار میں مظفرپور بالیکاگریہہ کیس بھی سی بی آئی کے پاس جاتا ہے کیونکہ حکمراں ایم ایل اے اور وزیر اس میں پھنستے ہیں اور پھر مظفرپور کیس سے جڑی خبروں تک کو چھاپنے پر روک ریاستی حکومت لگا دیتی ہے۔ تیسرا سوال سیدھے مودی حکومت سے جڑا ہے۔ ایک طرف داغدار رکن پارلیامان کو لےکر وہ بےچینی دکھاتے ہیں دوسری طرف سپریم کورٹ کے پانچ بار کہنے پر بھی بیتے چار سال میں خود پر نگرانی رکھنے کے لئے لوک پال کی تقرری نہیں کر پاتے ہیں۔

سوال یہ نہیں ہے کہ مجرموں کی دھرپکڑ کی جائے۔ فاسٹ ٹریک کورٹ میں معاملے کو لایا جائے یا پھر انکاؤنٹر کر دیا جائے۔ سوال یہ ہے کہ جب اقتدار چلانے والوں میں ہی مجرموں کی کثرت ہو۔ درج مجرمانہ معاملے ہی مجرم ہونے کا پیمانہ ہے تو پھر حکمراں کو کیسے قانون بنانے کا حق دیا جا سکتا ہے۔ اگر اس کے خلاف بھی معاملات درج ہیں۔ یا پھر مجرموں کے لئے انتخاب لڑ‌کر اقتدار میں آنا ہی جمہوریت ہو چکی ہے۔

یا جرم سے بچ‌کر اپنے سیاسی اور مجرمانہ دشمنوں کو ٹھکانے لگانا ہی سسٹم ہے تو پھر انتخابی عمل کا مطلب کیا ہے اور قانون بنانے والی پارلیامنٹ  ہو یا اسمبلی اس کے مطلب اور معنی کب تک بچیں‌گے اور اوپری طور پر جب یہ سب نظر آ رہا ہے تو ملک میں ضلع یا پنچایت سطح پر کیا حال ہوگا، اس کا صرف تصور کیا جا سکتا ہے۔ اسی سال مدھیہ پردیش میں میونسپل الیکشن ہوئے۔ اے ڈی آر کی رپورٹ کے مطابق 16 فیصدی امیدواروں نے حلف نامہ میں لکھا کہ ان کے خلاف سنگین مجرمانہ الزام درج ہیں۔

یعنی ایک ایسا سیاسی نظام  ہی بنتا جا رہا ہے جہاں مجرم ہونا انتخابی جمہوریت کا راگ سب سے مضبوطی سے گانے  جیسا ہو گیا ہے  اور مجرموں کی جگہ جمہوریت کا ہی انکاؤنٹر مجرمانہ نظام کر رہا ہے جو خود کو عوام کا نمائندہ بتاتا ہے۔ جمہوریت کے مندر یعنی پارلیامنٹ  یا اسمبلی میں بیٹھ‌کر قانون بناتا ہے۔ اے ڈی آر کی ایک رپورٹ کے مطابق رکن پارلیامان اور ایم ایل اے کی ایک لمبی فہرست ہے جن پر اغوا کے الزامات درج ہیں۔ اس میں بی جے پی کے 16 رکن پارلیامان ، ایم ایل اے ہیں تو کانگریس کے 6 رکن پارلیامان ، ایم ایل اے ہیں۔اور ملک بھر میں الگ الگ پارٹیوں کے کل 64 سے زیادہ رکن پارلیامان ، ایم ایل اے ہیں جن پر اغوا جیسے معاملات درج ہیں۔

خواتین کے حقوق کے سوال یا ان کے ظلم وستم کو لےکر رکن پارلیامان اور ایم ایل اے کا عالم یہ ہے کہ 48 رکن پارلیامان / ایم ایل اے ایسے ہیں جن کے خلاف عورت پر ظلم و ستم  کا معاملہ درج ہے اور اس جرم میں ریپ  سے لےکر لڑکی بیچنے تک کے الزامات ہیں۔ یعنی یہ تصور سے پرے ہے کہ جرم سے آزاد جمہوریت  کی جگہ کیسے مجرمانہ جمہوریت بنائی جا رہی ہے۔ سماج کو اسی کے مطابق ڈھالا جا رہا ہے۔ جب جمہوریت یا آئین بھی منتخب اقتدار کے سامنے بےمعنی ہو گیا  ہے تو پھر داغدار لیکن منتخب ہوئے نمائندے کیسا سماج یا ملک بنا پائیں‌گے، یہ سوچنا تو ہوگا۔

موجودہ وقت میں لوک سبھا اور راجیہ سبھا میں 786 رکن پارلیامان، تمام اسمبلیوں میں 4120 ایم ایل اے، ملک میں 633 ضلع پنچایتوں میں15581 ممبر، ڈھائی لاکھ گرام سبھاؤں میں 26 لاکھ ممبر یعنی سوا سو کروڑ کے ملک میں 2620487 لوگ ہی سیاسی اقتدار کی ہوڑ میں گاؤں سے لےکر دہلی  تک چھائے ہوئے ہیں۔

اس میں سے 50 فیصدی داغدار ہیں۔ 36 فیصدی سنگین مجرمانہ معاملوں میں ملزم ہیں۔ صرف پارلیامنٹ  اور ملک کی اسمبلیوں میں بیٹھ‌کر ملک چلانے والے کل 4896 میں سے 1580 نے تو اپنے حلف نامے میں لکھ‌کر دیا ہے کہ ان کے خلاف سنگین مجرمانہ معاملات درج ہیں۔ یعنی سوال بڑھتے جرائم کا نہیں بلکہ جمہوریت کے نام پر جرم کو پناہ دینے کا ہے۔

(مضمون نگار سینئر صحافی ہیں)