فکر و نظر

نرسمہاراؤ اور اٹل بہاری واجپائی میں موازنہ کتناصحیح؟

اگر کانگریس پارٹی نرسمہا راؤ کو بھی عزت بخشتی تو شاید نرسمہا راؤ کی وراثت  کانگریس کو فائدہ پہنچا سکتی تھی؟

فوٹو: پی ٹی آئی

فوٹو: پی ٹی آئی

اٹل بہاری واجپائی کے انتقال کے بعد ایک نئی بحث شروع ہو گئی ہے کہ  اگر کانگریس پارٹی نرسمہا راؤ کو بھی عزت بخشتی تو شاید نرسمہا راؤ کی وراثت  کانگریس کو فائدہ پہنچا سکتی تھی۔لیکن حقیقت یہ بھی ہے کہ واجپائی اور راؤ کا کوئی مقابلہ نہیں ہے ۔واجپائی کو بی جےپی ان کی زندگی اور موت کے بعد بھی عزت کی نگاہ سے دیکھتی رہی۔ راؤ کی طرح واجپائی نے کبھی اپنے پارٹی والوں کو نیچا دکھانے یا ذلیل کرنے کی کوشش نہیں کی،بلکہ کئی موقع پرجیسے آگرہ سمیٹ ، ایودھیا معاملہ اور خود نریندر مودی کے2002 دنگوں کے بعد گجرات کا وزیرا علیٰ بنے رہنے پر پارٹی کے موقوف کا ساتھ دیا۔

جہاں راؤ5 سال اورواجپائی6 سال وزیر ا عظم رہے ،دونوں کے کام کرنے کے طریقے بہت مختلف تھے۔واجپائی نے اڈوانی،آر ایس ایس اور تمام لوگوں کی خواہشوں اور رائے کا احترام کیا اس کے برعکس راؤ نے کانگریس لیڈروں کو جین حوالہ کیس میں پھسانے کی سازش رچی۔مدھوراؤ سندھیا ارجن سنگھ، کمل ناتھ ،بوٹا سنگھ نارائن دت تیواری،شیو شنکر و دیگر کانگریسی رہنماؤں کوجین حوالہ معاملے میں پھنسایا۔غیر کانگریسی لیڈرز جیسے اڈوانی اور شرد یادوبھی اس معاملے میں ملوث پائے گئے۔اڈوانی کے لئے تو جین حوالہ معاملہ بہت بھاری پڑا کیوں کہ اڈوانی نے 1996 کا لوک سبھا الیکشن نہیں لڑا۔ اگر وہ 1996میں الیکشن جیت جاتے تو شاید واجپائی کے بجائے اڈوانی 13دن کی بی جے پی سرکار کے وزیراعظم ہوتے اور ملک کی تاریخ ہی بدل جاتی۔

غور طلب بات یہ بھی ہے کہ راؤ اپنی موت کے وقت تک یعنی 2004کے دسمبر ماہ تک سیاسی طور پر بالکل حاشیے پر آ چکے تھے۔ان کے اپنے صوبے آندھرا پردیش میں راج شیکھر ریڈی جیسا مقناطیسی شخص کانگریس کا وزیر ا علیٰ و کرتا دھرتا بن چکا تھا اور مسلمانوں کے ووٹ کی فکر کانگریس کو ہمیشہ ستاتی رہتی تھی۔راؤ کے بابری مسجد کے شہید ہونے کے معاملے میں کانگریس کی اپنی قیادت خود راؤ سے ناخوش تھی۔ شاید مشہور مؤرخ رام چندر گہا اور راؤ نواز صحافی سنجے بارو اس بات کو بھول جاتے ہیں کہ 11996میں نرسمہا راؤ کو کانگریس پارلیامنٹری پارٹی سے بہت ہی حقارت آمیز طریقے سے ہٹایا گیا تھا اور پریہ رنجن داس منشی نے جو اس وقت سی پی پی سکریٹری تھے، راؤ کے خلاف ایک قسم کی چارج شیٹ پڑھی تھی۔1997 میں سیتارام کیسری نے ایک بھری پریس کانفرنس میں اعلان کیا تھا کہ وہ نرسمہا راؤ کا 1198 لوک سبھا الیکشن کا ٹکٹ کاٹ رہے ہیں۔غور کرنے اور عبرت آمیز بات یہ ہے کی راؤ نے ہی کیسری کو کانگریس کا صدر بنانے میں مدد کی تھی۔ اس زمانے میں یہ بھی کہا جاتا تھا کہ راؤ نے کیسری کو کانگریس کو نقصان پہنچانے کی نیت سے کانگریس کا صدر بنوایا تھا۔

گہا ، بارو اور دوسرے راؤکے خیر خواہ یہ بات بھی شاید بھول جاتے ہیں کی بحیثیت وزیر اعظم راؤ کے خلاف بدعنوانی کے سنگین الزامات لگے تھے۔ لکھہو بھائی پاٹھک رشوت معاملہ،ہرشد مہتہ اسکینڈل ،یوریا گھوٹالہ ،شکر گھوٹالہ ،گولڈا سٹار گھوٹالہ اور بہت سے معاملے تھے جس میں راؤ کو سزا تک کی نوبت آئی۔آزاد ہندوستان کے راؤ پہلے  وزیر ا عظم رہے جو بہ حیثیت ملزم کھلی عدالت میں پیش ہوئے ۔واجپائی کی لمبی سیاسی زندگی ایسے کسی کلنک سے عاری تھی۔

راؤ کو شاید دہلی میں آخری رسوم کی اجازت نہ ملنا ایک غلط عمل تھا لیکن اس امر کو ذہن میں رکھنا ہوگا کہ وہ قدم راؤ کے خاص منموہن سنگھ نے بحیثیت وزیر ا عظم اٹھایا۔یہ کہنا کہ سونیا گاندھی کا اشارہ تھا غیر موزوں  لگتا ہے کیونکہ جہاں بھی منموہن اصرار کرتے تھے وہاں سونیا گاندھی ان کی رائے اور موقف کی حمایت کرتی تھیں۔انڈو –یوایس نیوکلیئر ڈیل اسکی ایک روشن مثال اور نظیر ہے۔