فکر و نظر

1984 کو لے کر راہل گاندھی کو  سچ  قبول کرنے کی ہمت دکھانی  چاہیے

’اگر آپ ایک رہنما ہیں اور آپ کی نظروں کے سامنے بڑی تعداد میں لوگوں کا قتل کیا جاتا ہے، تب آپ لوگوں کی زندگی بچا پانے میں ناکام رہنے کی جوابدہی سے مکر نہیں سکتے۔ ‘

کانگریس صدر راہل گاندھی (فوٹو بشکریہ : فیس بک / راہل گاندھی)

کانگریس صدر راہل گاندھی (فوٹو بشکریہ : فیس بک / راہل گاندھی)

1984 میں سکھوں کے قتل عام میں کانگریس پارٹی کے ملوث ہونے کی تردید کرنے سے راہل گاندھی کی کوشش سے بھی زیادہ مایوس کن چیز یہ ہے کہ 34 سالوں سے آزاد ہندوستان کے سب سے سنگین جرائم میں سے ایک پر پردہ ڈالنے کی کوششوں میں شامل ہونے کے جرم کے باوجود ہم میں سے کئی لوگ اس واقعہ کے بارے میں جس مطلب پرستی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔

ان حقائق  پر غور کیجئے: شہریوں کے اجتماعی قتل میں کانگریس رہنماؤں کے ملوث  ہونے کی سچائی کے باوجود، پارٹی نے اس المیہ کے تقریباً چار ہفتے بعد ہوئے لوک سبھا انتخاب میں سب سے زیادہ سیٹوں پر جیت حاصل کی۔

بھلےہی ہم یہ مان لیں کہ اندرا گاندھی کے قتل کی وجہ سے پیدا ہوئی ‘ ہمدردی ‘ نے انسانیت کے بنیادی تقاضے کو بھی پیچھے چھوڑ دیا، لیکن اس کے باوجود انصاف کی ضرورت کو قبول کرنے میں ہم سب کی اجتماعی ناکامی کی میعاد بہت لمبی ہو گئی ہے، اور ہم بھلے یہ قبول نہ کرنا چاہیں، لیکن یہ کہیں گہرائی تک بیٹھ گئی ہے۔ 1985 سے 1989 تک میڈیا اور متوسط طبقہ، راجیو گاندھی کی غیر تنقیدی تعریف میں مبتلا رہا۔ یہ مت بھولیے کہ وہ ایک ایسے وزیر اعظم تھے، جنہوں نے اس قتل عام کو کمزور بناتے ہوئے بڑے درخت کے گرنے پر زمین کے ہلنے کی بات کی تھی اور جنہوں نے تمام انتظامی اور قانونی ہتھکنڈوں کا استعمال یہ یقینی بنانے کے لئے کیا کہ رہنماؤں، پولیس افسروں اور گلی کے غنڈوں پر کوئی مقدمہ مؤثر طور پر نہ چل پائے۔

آخر میں راجیو گاندھی کے ستارے گردش میں آئے، لیکن اس کا تعلق 1984 کے فسادات میں ان کی جوابدہی اور اس کے بعد انصاف کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے سے نہ ہوکر بوفورس بد عنوانی  معاملہ سے تھا۔ ان کے بعد وی پی سنگھ وزیر اعظم بنے، جن کو بھارتیہ جنتا پارٹی اور بائیں بازو  کی حمایت تھی۔ ان کے بعد چندرشیکھر کی حکومت آئی۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ان دو سالوں میں اس قتل عام کے لئے ذمہ دار لوگوں کو سزا دینے کے لئے کچھ بھی پختہ نہیں کیا گیا۔

ویسے بھی بی جے پی کی زیادہ دلچسپی حالیہ تاریخ میں انجام دئے گئے ایک گھناؤنے  جرم کو لےکر پریشان ہونے کے بجائے 16ویں صدی میں بابر کے ذریعے نام نہاد طور پر کئے گئے کسی کام میں زیادہ تھی۔ 1991 میں پی وی نرسمہا راؤ وزیر اعظم بنے جو 1984 کے فسادات اور اس کے بعد  اس پر پردہ ڈالنے کے دوران وزیر داخلہ تھے۔ ان کے بعد ایچ ڈی دیوگوڑا، اندرکمار گجرال اور اٹل بہاری واجپائی  وزیر اعظم بنے۔ منموہن سنگھ 2004 میں وزیر اعظم بنے اور نریندر مودی نے 2014 سے لےکر ابتک ملک کی قیادت کی ہے۔

(فوٹو : رائٹرس)

(فوٹو : رائٹرس)

وقت کے الگ الگ نکات  پر غیرکانگریسی وزیر اعظم، بالخصوص واجپائی اور مودی نے 1984 کے متاثرین کو انصاف دلانے کے سوال پر زبانی جمع خرچ ہی کیا ہے، جس کا عروج پوپلے اور غیر موٴثر کمیشن اور کمیٹیوں کی تشکیل کے طور پر ہوا ہے۔ بڑھاکر دئے گئے راحت پیکیج ، جن کی تعمیر من مانے طریقے سے ایک قتل عام کے متاثرین کا دوسرے قتل عام کے متاثرین کے مقابلے میں طرف داری کرنے کے لئے کیا جاتا ہے، جرم میں شامل لوگوں پر مجرمانہ مقدمہ چلانے کا اختیار نہیں ہے۔

یہ سوال پوچھا جانا چاہیے  کہ آخر کیا وجہ ہے کہ غیرکانگریسی حکومتیں مسلسل  انصاف کرنے میں ناکام رہیں، اس حقیقت کے باوجود کہ ایسا کرنا ان کے لئے سیاسی طور پر فائدےمند ہوتا۔ جواب سیدھا سا ہے۔ کیونکہ اس کے لئے پولیس اور حکمراں طبقے کے حامیوں کو قانونی کارروائی سے نڈر ہوکر لوگوں کے خلاف جرم کرنے کی ملی چھوٹ پر حملہ ہوگا اور اس کو تباہ کرنا ہوگا۔

ہندوستان کو کمانڈ جوابدہی (Command Responsibility-جوابدہی  کا اصول جس میں نچلی سطح پر کئے گئے جرائم کے لئے اعلیٰ سطحوں کے اہلکاروں کو مجرمانہ طور پر ذمہ دار ٹھہرایا جا سکتا ہے، اس بنیاد پر کہ ان کو جرم کی جانکاری ہونے کے باوجود اس کو روکنے اور جرم کرنے والوں کو سزا دینے میں ناکام رہے۔ ) کے اصول کی ضرورت ہے ۔انٹرنیشنل کریمنل لاء کا یہ ایک جانا پہچانا تصور  ہے، لیکن نہ ہی کانگریس اور نہ ہی بی جے پی کبھی بھی اس اہتمام کو قانون کی کتابوں میں شامل کرنے کا جوکھم اٹھائے‌گی۔

1984 کے بعدکا بعد ہندوستان  بڑے پیمانے پر فرقہ وارانہ قتل کے واقعات کا گواہ رہا ہے-میرٹھ کے قریب ملیانہ اور ہاشم پورہ (1987)، بھاگل پور (1989)، بامبے  (93-1992)، گجرات (2002)، کوکراجھار (2012) اور مظفرنگر (2013)۔ ان سارے معاملوں میں تشدد پر قابو پانے میں حکومت کی ناکامی اور تشدد کو انجام دینے والوں کو گرفتار کرنے اور ان کو سزا دلانے میں حکومت کی ناکامی جگ ظاہر ہے۔

ان میں سے ایک واقعہ جو دہلی کے واقعہ سے کافی ملتا جلتا ہے، وہ ہے گجرات۔ 31 اکتوبر، 1984 کو اندرا گاندھی کے قتل کے بعد کانگریس نے جس انتظامیہ اور سیاسی تدبیر  کا استعمال کیا تھا، اس نے 27 فروری، 2002 کو 58 ہندو مسافروں کو زندہ جلانے کے واقعہ کے بعد بی جے پی کے لئے براہ راست ترغیب کا کام کیا۔ جس طرح سے نریندر مودی کی حکومت نے گجرات میں قانونی معاملوں کو جان بوجھ کر کمزور کیا وہ راجیو گاندھی اور نرسمہا راؤکی قیادت میں دہلی  پولیس کے ہتھکنڈوں کی ہوبہو نقل تھی۔

ان دونوں قتل عام میں واحد فرق سپریم کورٹ کے رول  کا ہے۔ 1984 کے فسادات کے بعد ملک کی اعلیٰ ترین عدالت  انصاف سے انکار کئے جانے کی خاموش تماشائی بنی رہی۔ لیکن، 2002 میں نیشنل ہیومن رائٹس  کمیشن کی سرگرمی کی وجہ سے سپریم کورٹ نے نہ صرف اس معاملے میں دلچسپی لی، بلکہ قتل عام کے سب سے زیادہ مشہور معاملوں میں بنیادی انصاف کو یقینی بنانے کی سمت میں پختہ قدم بھی اٹھائے۔ وزیراعلیٰ نریندر مودی پر یقین  نہ ہونے کی وجہ سے سپریم کورٹ نے اس مقصد سے کچھ معاملوں کو ریاست سے باہر منتقل کر دیا یا دوسرے معاملوں کے پروگریس  کو سیدھے اپنی نگرانی میں رکھا۔

دکھ کی بات ہے کہ 1984 کے متاثرین کو ایسی مدد نصیب نہیں ہوئی۔ بی جے پی اور دوسری پارٹیاں اس قتل عام کے بارے میں بات کرتی رہیں، لیکن ایسا انہوں نے صرف کانگریس پر سیاسی برتری بنانے کے لئے کیا، نہ کہ متاثرین کو انصاف دلانے  کی وجہ سے۔ بی جے پی کی خودغرضی کچھ ایسی ہے کہ اس کے اعلیٰ رہنماؤں نے خوشی خوشی دہلی  کے بنگلہ صاحب گرودوارے میں ایک راک پلیٹ کا افتتاح کیا جس میں سکھوں کے قتل کو ‘ Genocide’ قرار دیا گیا تھا، لیکن حکومت کے طور پر ان کا کہنا ہے کہ یہ Genocide نہیں تھا۔

لندن اسکول آف اکانومکس (ایل ایس ای) میں ایک پروگرام کے دوران کانگریس صدر راہل گاندھی۔ (فوٹو بشکریہ : فیس بک / راہل گاندھی)

لندن اسکول آف اکانومکس (ایل ایس ای) میں ایک پروگرام کے دوران کانگریس صدر راہل گاندھی۔ (فوٹو بشکریہ : فیس بک / راہل گاندھی)

اگر راہل گاندھی اصل میں سیاست میں رہنے اور ایک مثبت فرق لانے کو لےکر سنجیدہ ہوتے تو وہ، جس سچ کے بارے میں پورے ہندوستان کو پتا ہے، اس کو لےکر گھس چکے انکاروں  سے چپکے نہیں رہتے۔ اس کی جگہ وہ کچھ ایسا کہنے کی  جرأت کرتے؛

ہاں، جب کانگریس اقتدار میں تھی، اس وقت معصوم لوگوں کا قتل عام ہوا۔ ہاں یہ اس وقت ہوا، جب میرے والد وزیر اعظم تھے۔ ہاں، کانگریس اور اس کے کئی رہنما، جن میں سے کئی تشدد میں ملوث تھے، اس کی جوابدہی لینے سے پیچھے نہیں ہٹ سکتے۔ مجرم  کو صرف کسی کے جرم کو عدالت میں ثابت ہونے تک ہی محدود نہیں کیا جا سکتا۔

اگر آپ ایک رہنما ہیں اور بڑی تعداد میں آپ کی نظروں کے سامنے لوگوں کا قتل کیا جاتا ہے، تب آپ لوگوں کی زندگی کو بچا پانے میں ناکام ہونے کی جوابدہی سے انکار نہیں کرسکتے۔ اور کچھ نہیں تو کم سے کم متاثرین کو انصاف دلانے میں ناکام رہنے کی ذمہ داری لینے سے بھی آپ پیچھے نہیں ہٹ سکتے۔ اس ناکامی کی وجہ سے ہی بے گناہ لوگ لگاتار فرقہ وارانہ تشدد کا شکار ہو رہے ہیں۔

منموہن سنگھ نے وزیر اعظم کے طور پر ملک سے معافی مانگی تھی، لیکن اس نے نہ تو متاثرین کو مطمئن کیا اور نہ ملک کو، کیونکہ یہ کافی نہیں تھا۔ معافی مانگنے کا وقت انصاف کرنے کے بعد، مجرموں کو سزا دینے کے بعد اور ملک سے ایسے گھناؤنے  جرائم کے امکان کو ختم کرنے کے بعد آتا ہے۔ اگر اس ملک کے میڈیا نے میرے والد کے وزیر اعظم رہتے ہوئے ان سے 1984 کے بارے میں سوال پوچھا ہوتا، تو چیزیں شاید الگ ہوتیں۔

 جمہوریت تبھی زندہ رہ سکتی ہے اور اس کو تبھی مضبوطی مل سکتی ہے، جب صحافیوں کے پاس سیاستدانوں اور افسروں سے سوال پوچھنے کا حق ہو اور وہ نڈر ہوکر اپنے اس حق کا استعمال کریں۔ جب میڈیا اپنا کام کرنے میں ناکام رہتا ہے، تب رہنما بھی اپنی ذمہ داری نبھانے میں ناکام رہتے ہیں۔ ‘

مجھے شک ہے کہ راہل گاندھی کبھی بھی اس طرح کا خطاب  کر پائیں‌گے۔ یہ الگ بات ہے کہ ایسا کرنا ان کے سیاسی مفاد میں ہوگا۔ ان کو وراثت میں ملی اخلاقی صلاحیت، ان کو اس سمت میں جانے کے خلاف متنبہ کرے‌گی۔ آخر مودی، جن کے پاس بھی وہی اخلاقیات ہے اور جس کو انہوں نے وراثت میں نہ پاکر خود تلاش کیا ہے، اس کے سہارے ہی اس مقام تک پہنچے ہیں۔