فکر و نظر

جو آج ’اینٹی نیشنل‘ کا تمغہ بانٹ رہے ہیں، کبھی وہ ’غدار وطن ‘ ہوا کرتے تھے

اینٹی نیشنل، ہندوستان مخالف جیسے لفظ ایمرجنسی کے حکمرانوں کی فرہنگ کا حصہ تھے۔ آج کوئی اور اقتدار میں ہے اور اپنے ناقدین کو ملک کا دشمن بتاتے ہوئے اسی زبان کا استعمال کر رہا ہے۔

Anti-national

ان دنوں ‘ ملک مخالف ‘ یعنی اینٹی نیشنل ہرجگہ ہیں اور ہر دن بی جے پی کا ایک ترجمان یا کسی تجارتی چینل کے اینکر ہندوستان میں ان کی پہچان کراتا پایا جاتا ہے۔ لیکن وہ بھی ‘ ملک مخالف سرگرمیوں ‘ کی اصلی حد اور تاریخ کے بارے میں آپ کو کچھ نہیں بتاتے ہیں،کیونکہ یہ لفظ اس ملک میں ایک بار پہلے بھی چرچا  میں رہ چکا ہے۔ ایمرجنسی کے دور میں اس لفظ کا استعمال حکومت کی مخالفت کرنے والے کارکنوں ، خاص طور پر غیر ملکی چندہ پانے والوں، دانشوروں اور نئی دہلی  میں اقتدار کے غلط استعمال کا پردہ فاش کرنے والے پریس کو نشانہ بنانے  کے لئے کیا جاتا تھا۔

یہ ایک الگ تاریخ ہے، جس کے بارے میں ہمیں نہیں پڑھایا جاتا ہے۔ یہ دھمکیوں اور اعتراضات کی تاریخ ہے جو ہمیں ایک سوال کی طرف لےکرجاتی ہے۔ ‘ اینٹی نیشنل ‘ ہونے کا الزام ہمیں الزام لگائے جائے جانے والے کے بارے میں زیادہ بتاتا ہے یا ان کے بارے میں بتاتا ہے، جو یہ الزام لگاتے ہیں؟ ایک رہنما، جن کو ‘ اینٹی نیشنل ‘ اور ‘ غیر ملکی ایجنٹ ‘ لفظ سے پیار ہے، وہ ہیں سبرامنیم سوامی۔ وہ راجیہ سبھا کے رکن پارلیامان ہیں اور 1974 سے- جس سال پورے شمالی ہندوستان  میں جے پی آندولن  کے بڑھتے ہوئے  مظاہرے کی دھمک دکھائی دی تھی-ابتک پارلیامنٹ  کے اندر اور باہر رہے ہیں۔

1974 کو ایک ایسے سال کے طور پر بھی یاد کیا جا سکتا ہے جب ہم ‘ غیر ملکی ہاتھ ‘ عہدے کو قومی بحث کے اندر خوب استعمال ہوتا دیکھتے ہیں۔ اگر اندرا گاندھی کی باتوں پر یقین کریں، تو جے پرکاش نارائن کے آندولن  کے پیچھے غیر ملکی خفیہ ایجنسیوں، خاص طور پر سی آئی اے کا ہاتھ تھا، جس کا لیفٹ  حکومتوں کو بےچین کرنے کی تاریخ تھی، جیسا کہ اس نے چلی اور ایران میں کیا تھا (اس وقت کے امریکی صدر رچرڈ نکسن بھی اندرا گاندھی  کے لیے دشمنی کا جذبہ رکھتے تھے اور ایسا بنگلہ دیش جنگ سے پہلے سے تھا)۔

15 اگست 1975 میں دی ٹائمس آف لندن میں شائع جے پی آندولن  کا اشتہار

15 اگست 1975 میں دی ٹائمس آف لندن میں شائع جے پی آندولن  کا اشتہار

25 جون 1975 کو جے  پرکاش نارائن (جے پی) کا  آندولن  دہلی  تک پہنچ گیا جس کا مقصد منتخب  قومی حکومت کو گدی سے اتار پھینکنا تھا۔ اس صبح، وزیر اعظم نے مغربی بنگال کے وزیراعلیٰ سددھارتھ شنکر رے کو اطلاع دی کہ ہندوستانی ایجنسیوں کو آندولن  اور سی آئی اے کے درمیان رشتوں کا پتا چلا ہے۔ اسی رات ایمرجنسی کا اعلان کر دیا گیا۔

اس کے ساتھ ہی ہزاروں حزب مخالف کے کارکنوں ، جن میں بائیں اور دائیں بازو کی جماعتوں کے لوگ شامل تھے، کو حراست میں لے لیا گیا ؛ کئی انڈر گراؤنڈ  ہو گئے۔ کچھ لوگ ایمرجنسی کے خلاف مزاحمت کو منظم کرنے کے لئے ہندوستان میں ہی رک گئے ؛ کچھ بیرون ملک بھاگ گئے۔ اس کے بعد کی چار دہائیوں میں سنگھ نے (بائیں بازو کے برعکس) ہندوستان کے اندر اپنی مزاحمت کا ایک رنگین افسانہ تخلیق کیا ہے۔

راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) ایمرجنسی کی مخالفت میں اترنے  کا دعویٰ کرتا ہے اور یہ تشہیر کرتا ہے کہ ا س کے ممبروں نے گرفتاریاں دی تھیں۔ لیکن ایسے دعووں کے لئے پختہ ثبوتوں کی کمی ہے، کیونکہ اخباروں کو ہڑتال اور جلوسوں کی خبر کرنے سے روک دیا گیا تھا۔ دوسری طرف ایسے دعوے بھی ہیں، جو سنگھ کے ایسے کسی کردار کو سرے سے مسترد کردیتے ہیں۔ خود سبرامنیم سوامی نے سال 2000 میں لکھا تھا کہ ‘ بی جے پی / آر ایس ایس کے زیادہ تر رہنماؤں نے ایمرجنسی کے خلاف جدو جہد کے ساتھ غداری کی تھی۔ ‘ اور ‘ ملک کے ظالموں کے لئے کام کرنے کی پیشکش کی تھی۔ ‘

سوامی نے اٹل بہاری واجپائی  اور آر ایس ایس کے صدر بالاصاحب دیورس کا نام لےکر کہا تھا کہ انہوں نے جیل سے اندرا گاندھی کو معافی نامہ لکھا تھا۔ سوامی نے بیرون ملک میں رہ‌کر سرگرمیاں چلائی اور جیل جانے سے بچے رہے۔ا ان کے اپنے الفاظ میں غیر رہائشی ہندوستانی ‘ حزب مخالف کو بدنام کرنے کے لئے اس وقت کی حکومت کے ذریعے چلائی جا رہی مہم سے ڈرے ہوئے تھے ‘ اور ان کو حزب مخالف کی آوازوں کی ضرورت تھی تاکہ وہ یہ سمجھ سکیں کہ آخر ہندوستان میں چل کیا رہا ہے؟

مارچ 1977 میں لوک سبھا انتخاب کے بعد رام جیٹھ ملانی (دائیں) کے ساتھ سبرمنیم سوامی (فوٹو بشکریہ : ٹوئٹر)

مارچ 1977 میں لوک سبھا انتخاب کے بعد رام جیٹھ ملانی (دائیں) کے ساتھ سبرامنیم سوامی (فوٹو بشکریہ : ٹوئٹر)

دسمبر، 1975 میں سوامی لندن پہنچے اور کینیا، یو کے اور شمالی امریکہ میں پھیلے کارکنوں کے اس نیٹ ورک کا حصہ بن گئے، جو غیر ملکی حکومتوں، مفکروں، صحافیوں کے ساتھ مل‌کر ہندوستان میں اقتدار کے اغواکا پردہ فاش کرنے کی مہم چلا رہے تھے۔ لندن میں سنگھ کے اور جلا وطن مکرند  دیسائی کے لفظوں  میں، ‘ وہ سچ کے تسکر تھے۔ ‘ ایمرجنسی کے خلاف ان کا سب سے اچھا ہتھیار منفی پریس تھا۔

شروعات میں دی نیویارک ٹائمس اور لندن کے دی ٹائمس نے جے پی کو جیل سے رہا کرنے والے اشتہارات کو شائع کیا تھا، جس پر درجنوں مغربی دانشوروں اور خاص  طور پر لیفٹ  کی طرف رجحان رکھنے والی عوامی ہستیوں کے دستخط تھے۔ حالانکہ، اداراتی  پیشکش میں ابھی بھی اکثر وزیر اعظم کے متعلق نرمی دکھائی دے رہی تھی۔ ایمرجنسی کے دو مہینے پورے ہونے پر امریکہ کے چار اہم صحافی، جن میں نیویارک ٹائمس اور دی نیویارکر  کے بھی صحافی شامل تھے، این بی سی کے پروگرام ‘ میٹ دی پریس ‘ کے لئے وزیر اعظم کا انٹرویو لینے اور ہمدردی کے ساتھ ان کی بات سننے کے لئے ہندوستان آئے۔

20 اگست 1975 کو این بی سی کے ' میٹ دی پریس پروگرام میں اندرا گاندھی (فوٹو : پی آئی بی)

20 اگست 1975 کو این بی سی کے ‘ میٹ دی پریس پروگرام میں اندرا گاندھی (فوٹو : پی آئی بی)

اسی ہفتہ آئیں سرخیاں ‘ اب محترمہ گاندھی معیشت کو اپنے حساب سے چلا سکتی ہیں ‘ (Mrs. Gandhi Can Now Do What She Wants With the Economy) کی  طرز پر تھیں۔ اس کا موازنہ 6  مہینے بعد نیویارک ٹائمس کی سرخیوں سے کی جا سکتی ہے، جب غیر ممالک میں ایمرجنسی کے خلاف ماحول تیار ہونے لگا تھا۔

5 فروری، 1976

’ ہندوستان : بڑھ رہا ہے ظلم‘(انڈیا : مور ریپریشن)

30 اپریل، 1976

’ہندوستان میں دھندھلاتی امید ‘ (فیڈنگ ہوپ ان انڈیا)

2 جون، 1976

’رائٹس لیگ نے اقوام متحدہ کو کہا : ہندوستان آزادی کو کچل رہا ہے ‘(Rights League Tells the U.N. India Tramples on Freedoms)

آج غیر ملکی اخباروں کے ذریعے تنقیدی کوریج پررائٹ ونگ پارٹی  کی ابروئیں تن جاتی ہیں، لیکن 1976 میں سوامی ہندوستان میں جمہوریت کے خطرے کے بارے میں نیویارک ٹائمس اور ایک درجن دیگر اخباروں سے بات کر رہے تھے۔ اس طرح سے بڑے پیمانے پر عوام کی  حمایت جٹانے کا ہی نتیجہ تھا کہ امریکی کانگریس نے ہندوستان میں انسانی حقوق پر سماعت کی، اسی طرح کے سوال برٹن کے ہاؤس آف کامنس میں بھی پوچھے گئے۔

ہندتووادی مفکر ایم جی چتکارا نے یہ دعویٰ کیا کہ ‘ غیر ملکی زمین پر دکھائی گئی اس سرگرمی نے ملک میں تاناشاہی حکومت کے منصوبوں کو ناکام کرنے میں اہم رول  اداکیا۔ ‘ ایک طرح سے 1977 کے آخر میں ایمرجنسی واپس لینے کے اعلان میں اندرا گاندھی پر عالمی دباؤ کا بھی کافی ہاتھ رہا۔ ویسے سب سے زیادہ دلچسپ تھا اندرا گاندھی کا رد عمل۔ آج خبروں پر نگاہ رکھنے والوں کو یہ رد عمل کافی جاناپہچانا سا لگے‌گا۔ ٹائمس آف انڈیا سے بات کرتے ہوئے اس وقت کے وزیر اعظم نے مغربی میڈیا کی رپورٹنگ کو ‘ غیر ملکی مداخلت ‘ بتایا اور ان کے کوریج کو ‘ بدنام کرنے والا برے جذبات سے پُر ‘ بتایا۔

1976 کی شروعات میں، ہندوستانی سفارت خانوں کو ‘ اینٹی نیشنل اور غدار وطن کی  سرگرمیوں میں شامل ہونے والوں ‘ کی فہرست (بلیک لسٹ) بنانے کے لئے کہا گیا تھا-جس کا مطلب ان لوگوں سے تھا، جو ایمرجنسی کی مخالفت کر رہے تھے۔

اندرا گاندھی (فوٹو : رائٹرس)

اندرا گاندھی (فوٹو : رائٹرس)

سوامی پر خاص دھیان تھا۔ امریکہ میں ہندوستان کے سفیر ٹی ایل کول نے ‘ غلط اور کینہ پرور پروپیگنڈہ’ پھیلانے کے لئے ان کی مذمت کی اور ستمبر 1976 میں سوامی کی جانچ  کرنے کے لئے ایک راجیہ سبھا کی کمیٹی بنائی گئی۔ سوامی اس وقت ایوان کے ممبر تھے۔ اس کمیٹی نے یہ فیصلہ سنایا کہ سوامی نے ‘ بیرون ملک میں ہندوستان مخالف عناصر کے ساتھ مل‌کر ہمارے جمہوری‎ اداروں کو بدنام کرنے اور ملک کے بیرونی دشمنوں کے ہندوستان مخالف پروپیگنڈہ  کو ہوا دینے کے مقصد سے کام کیا ہے۔ ‘

یہ جملہ دوبارہ پڑھے جانے کے لائق ہے۔ اس میں آئے اہم عہدے  ‘ ہندوستان مخالف عناصر ‘، ہندوستان مخالف پروپیگنڈ ہ ‘، باہری  دشمن ایسے عہدے  ہیں، جن کو ہم ایک بار پھر سے دوہرایا جاتا  سن رہے ہیں، جس کا مقصد حکومت کی تنقید کرنے والوں کو ملک کے دشمن کے طور پر پیش کرنا ہوتا ہے۔ ایمرجنسی عالمی سرگرمی، خاص طور پر ہندورائٹ ونگ   کے لئے ایک ٹرننگ پوائنٹ کی طرح تھی۔ اس کو آگے بڑھانے میں لیفٹ پارٹیوں  اور دانشوروں، مزدور سنگھ، انسانی حقوق کےکارکنوں  اور مذہبی گروپ  کے ممبروں کی  بھی شراکت تھی، لیکن اس مزاحمت کی افواہ پر سنگھ نے قبضہ کر لیا، اور جس نے اس کا سب سے زیادہ فائدہ بھی اٹھایا۔

مؤرخ ایڈورڈ اینڈرسن اور پیٹرک کلیبنس، جن کی حالیہ ریسرچ نے اس مضمون کو با اثر کیا ہے، کا کہنا ہے کہ ‘ ایمرجنسی کے دوران، صلاحیت، مہارت اور نیٹورک کے معاملے میں سنگھ پریوار کے ذریعے کی گئی سب سے اصل ترقی، جن کی طرف ابھی تک دھیان نہیں دیا گیا ہے، کا رشتہ ہندو  راشٹر وادی آندولن  کی عالمی گول بندی سے ہے۔

کارکنوں  کو، جن میں سے کچھ گرفتاری اور سینسرشپ سے بچنے کے لئے ملک سے فرار ہوئے تھے، غیر ممالک میں نئے اڈوں کو تلاش کرنے، اقتصادی مدد اور میڈیا کی حمایت پانے اور اندرا حکومت کے خلاف غیر ملکی حکومتوں اور ایجنسیوں کو متاثر کرنے کی کوشش کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔ ایمرجنسی کے ختم ہو جانے کے بعد بھی یہ کڑیاں ٹوٹی نہیں۔ انہوں نے سنگھ کی تنظیموں کے لئے غیر ملکی پیروکاری اور فنڈنگ کے بڑے ماخذ کی شکل اختیار کر لی، جس کا سلسلہ آج بھی قائم ہے۔

ایمرجنسی کے وقت حمایت کی مانگ کرتے ہوئے لندن میں لگا ایک پوسٹر (فوٹو : وکی  پیڈیا)

ایمرجنسی کے وقت حمایت کی مانگ کرتے ہوئے لندن میں لگا ایک پوسٹر (فوٹو : وکی  پیڈیا)

کچھ رپورٹوں کے مطابق آر ایس ایس کو غیر ملکی فنڈنگ سے لاکھوں ڈالر کی حصولیابی ہوئی ہے، جس میں سے کافی بڑا حصہ غیر ملکی شہریوں سے ملا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر کسی سیاسی طاقت کو غیر ملکی سرگرمی کے ذریعے پرورش اور حمایت دی گئی ہے، تو وہ ہندو راشٹرواد  ہے۔ 2014 سے یہ بات قومی بحث میں بار بار دوہرائی جاتی ہے کہ حکمراں جماعت کے ناقدین بیرون ملک سے اسپانسرڈ ہیں۔ پھر بھی دونوں قومی پارٹیاں اپنے چندے کا ایک بڑا حصہ ‘ غیر ملکی ماخذ ‘ سے حاصل کرتی ہیں، بھلے ایسا کرنا غیر قانونی کیوں نہ رہا ہو۔

2014 میں جب دہلی  ہائی کورٹ نے بی جے پی اور کانگریس دونوں کو ہی ایف سی آر اے (وہی قانون جس کا استعمال مشکلیں کھڑی کرنے والے غیرسرکاری تنظیموں  پر نکیل کسنے کے لئے کیا گیا) کی خلاف ورزی کرنے کا مجرم  پایا، تب ارون جیٹلی نے قانون کو ہی بدل دیا تاکہ سیاسی پارٹیاں پچھلی تاریخ سے اس قانون کے دائرے سے باہر ہو جائیں۔

تاریخ میں ایسا بہت کم ہوتا ہے، جو بالکل نیا ہوتا ہے اور کم سے کم  ‘ اینٹی نیشنل ‘ لفظ تو ایسا قطعی نہیں ہے۔ جب ایسے عہدے  لوٹ‌کر آتے ہیں، تب ہمیں ان کو ان کے پرانے استعمال کی روشنی میں سمجھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ملک مخالف، ہندوستان مخالف، غیر ملکی ہاتھ ایمرجنسی کے نظام کی فرہنگ کا حصہ تھے، جن کا استعمال جمہوریت کی حفاظت کرنے والے کارکنوں  کے خلاف کیا جاتا تھا۔

آج ایک نئی پارٹی اقتدار میں ہے، لیکن یہ اپنے ناقدین کے خلاف اسی زبان کا استعمال کرتی ہے۔ یہ لفظ اپنے آپ میں کافی کم کہتے ہیں (اس کے استعمال کرنے والوں کے بارے میں زیادہ بتاتے ہیں)۔سبرامنیم سوامی اور ارندھتی رائے میں کیا مساوات ہے؟ زیادہ نہیں۔ سوائے ان حکومتوں کے جنہوں نے ان پر ‘ اینٹی نیشنل ‘ ہونے کا الزام لگایا اور یہ ایک سوچنے والی  بات ہے۔