فکر و نظر

رویش کا بلاگ: یونیفارم سول کوڈ کا مدعا بھی بوگس نکلا…

یونیفارم سول کوڈ کے نام پر چینلوں اور اخباروں میں کتنی بحث چلائی گئی اور مسلمانوں کے متعلق نفرت کے برگدکا درخت کھڑا کیا جاتا رہا۔  اس بحث میں پہلے بھی کچھ نہیں تھا، اب بھی کچھ نہیں ہے۔

(فوٹو : رائٹرس)

(فوٹو : رائٹرس)

یونیفارم سول کوڈ کی اس وقت نہ ضرورت ہے اور نہ ہی یہ ضروری ہے۔  یہ رائے لاء کمیشن آف انڈیا کی ہے۔  پچھلے جمعہ کو لاءکمیشن نے فیملی سےمتعلق قوانین کی اصلاحات  پر اپنی طرف سے ایک خط جاری کیا ہے۔کمیشن کا کہنا ہے کہ کمیونٹی کے درمیان مساوات کی جگہ کمیونٹی کے اندر عورت اور مرد کے درمیان مساوات ہونی چاہیے۔  ستی پرتھا، دیوداسی، تین طلاق اور بچپن کی  شادی یہ سب سماجی برائیاں ہیں اور انسانی حقوق کے خلاف ہے۔  مذہب کے لئے ضروری بھی نہیں ہے۔  کمیشن نے پرسنل لاء اور سیکولر قانون میں کئی قسم کی اصلاحات کی  تجویز پیش کی ہیں۔  جیسے ہندوستانی وراثت قانون 1925 کی کچھ دفعات کے مطابق پارسی عورتوں کو کم حق ملے ہیں۔

کمیشن نے مشورہ دیا ہے کہ پارسی عورتیں جب کمیونٹی سے باہر شادی کریں تو ان کو پارسی پہچان رکھنے کا حق ملے اور ان کے بچّوں کو ماں کے پارسی مذہب اختیار کرنے کا حق ملے۔  کمیشن نے ہندو غیر منقسم فیملی قانون کو ختم کرنے کا مشورہ دیا ہے جس کے سہارے ٹیکس چوری کا کام ہوتا ہے۔کل ملاکر ایک ملک ایک انتخاب کے ساتھ ایک ملک ایک قانون کا یہ ڈرامہ بھی یہاں ختم ہوتا ہے۔  ایسے خیالی موضوعات کا ایک ہی مطلب ہوتا ہے، اصل مسئلہ سے دھیان ہٹاکر کسی ایسی چیز  پر دھیان ٹکا دینا جو تمام مسائل کی بنیاد نظر آنے لگے۔

یونیفارم سول کوڈ کے نام پر چینلوں اور اخباروں میں کتنی بحث چلائی گئی اور مسلمانوں کے متعلق نفرت کے  برگدکا درخت کھڑا کیا جاتا رہا۔  اس بحث میں پہلے بھی کچھ نہیں تھا، اب بھی کچھ نہیں ہے، مگر اس کے ذریعے کم پڑھنے والے اور دلائل  و حقائق  کو کم سمجھنے والوں کے ذہن  میں یہ بات روپ دی گئی کہ مسلمانوں کو خصوصی   تحفظ قانون حاصل ہے۔یونیورسٹی سے نکل‌کر کئی کئی سال تک کچھ نہیں پڑھنے والے بھی یونیفارم سول کوڈ کے نام پر ایسے عالم ہوکر کود پڑتے ہیں جیسے سب جانتے ہوں۔

جب یہ بحث تین طلاق کے ساتھ ساتھ چل رہی تھی تب فیضان مصطفےٰ نے بار بار کہا تھا کہ یہ بےتکا ہے۔  اس کو ایک ساتھ کیا ہی نہیں جا سکتا ہے۔  باری باری سے سب میں اصلاح کی ضرورت ہے لیکن آپ ملک کے تنوع کو ختم کر کے سب پر ایک جیسا پرسنل قانون نہیں تھوپ سکتے ہیں۔  اس لئے بہتر ہوگا کہ جن کے پرسنل لاء ہیں ان کے اندر اصلاح کئے جائیں۔

تب فیضان مصطفےٰ کو جانے کیا کیا کہا گیا۔  اب لاء کمیشن نے اپنا ٹائم اور عوام کا پیسہ برباد کرنے کے بعد یہی کہا ہے۔  اس کو کمیشن تک پہنچاکر پہچان دی گئی تاکہ پریس کو موقع ملے بحث کا۔ نتیجہ کیا ہوا۔  اس بحث کے بہانے ناظرین کو فرقہ پرست بنانے کا کارخانہ کھولا گیا، چلایا گیا۔  ٹی وی پر دلیل کی ضرورت تو ہوتی نہیں ہے۔  اینکر کو پتا ہوتا نہیں ہے۔  بس اقتدار کے آقا کا حکم ہے تو ٹکڑے اٹھاکر دوڑ جانا ہے۔

پہلے الیکشن کمیشن نے کہا کہ ایک ملک ایک انتخاب نہیں ہو سکتا ہے۔  اس بار تو نہیں ہو سکتا تو جو پانچ سال میں نہیں ہو سکتا اس پر پانچ سال بحث کیوں ہوئی؟  لاء  کمیشن نے بھی کہہ دیا کہ یونیفارم سول کوڈ کی نہ ضرورت ہے نہ ضروری ہے۔دو مدعوں کا یہ حال ہوا مگر ان کو زندہ رکھنے کے لئے بیان دلواکر، سیمینار کرکے جواز دیاگیا تاکہ لگے کہ واقعی کچھ ہونے والا ہے۔  ملک کے مسئلہ  کی جڑ ختم ہونے والی ہے۔تو اس طرح ہندوستان کے نوجوانوں آپ پھر الو بنے۔  کہاں تو آپ کی نوکری پر، تعلیم اور صحت پر بحث ہونی چاہیے تھی مگر ایجنڈہ تھا کہ آپ یہ سب چھوڑ‌کر ہندو مسلم کریں۔

انگریزی حکومت جو ڈیزائن چھوڑ گئی تھی، اس ڈیزائن کو حقیقت میں بدلنے کے لئے ادارے لگے ہیں۔  آخر آپ کب تک اور کہاں تک ہندو مسلم کریں‌گے۔  کیا نوکریوں کے لئے لاٹھی کھاتے ہوئے بھی ہندو مسلم کریں‌گے۔  اس کا کیا کریں‌گے جو آپ کو فرضی بحث میں الجھاکر الو بنایا گیا؟  کیا آپ اپنے ان مہینوں کو لوٹا سکیں‌گے، ہندوستان کو برباد کرنے کے لئے گڑھے گئے بحث کے مدعوں پر جو وقت خرچ ہوا ہے، کیا اس کو لوٹا سکیں‌گے؟

وہ سب چھوڑئیے، آپ کے ذہن میں جو زہر بھرا گیا ہے، اسی سے باہر آنے میں زمانہ بیت جائے‌گا۔  آپ فرقہ پرست بنا دئے گئے ہیں، اس کوراشٹر واد کا نام دیا گیا ہے، تاکہ آپ کو لگے کہ ملک کی تعمیر میں کوئی حصہ داری  اور قربانی دے رہے ہیں۔  یاد رکھنا جوان دوستوں، بوتل کا لیبل بدل دینے سے زہر نہیں بدل جاتا ہے۔

آپ اس زہر کے اثر میں تھے، آپ کو یہی اچھا لگتا ہے، اس کے نام پر نیوز چینلوں کو پروپگینڈہ کا اڈہ بنا دیا گیا۔  آپ ترستے رہے کہ آپ کی  پیٹھ پر پڑی لاٹھی، کینسل ہوئے امتحان کی ایک جھلک کوئی دکھا دے، بڑھی ہوئی فیس کی کوئی بات کر دے، غائب ہوتی نوکری پر گفتگو ہو جائے، لیکن تب تک بہت دیر ہو چکی تھی۔  اب اس زہر سے باہر آنا اتنا آسان نہیں ہے۔

آپ سیاست کا متبادل کیا خاک ڈھونڈیں‌گے، پہلے آپ اپنا متبادل  تلاش کر لیں۔  آپ اپنے اندر بھری گئی نفرت کا متبادل محبت تلاش کر لیں۔  اتنا ہی بہت ہوگا۔  نہیں ہوگا تو ایک کام کیجئے۔  ایک ٹی شرٹ پر پر لکھ لیجئے۔  خوابوں سے بھری ہماری جوانی کی ہر شاخ پر اس نے الو کب بٹھا دیا؟  ہمیں الو کب بنا دیا؟

(یہ مضمون بنیادی طور پر رویش کمار کے فیس بک پیج پر شائع ہوا ہے۔)