فکر و نظر

ٹیچرس ڈے اور ان کی عزت افزائی کا ڈرامہ…

اساتذہ کے ساتھ توہین آمیز رویہ  کوئی نئی بات نہیں۔گزشتہ  4 سالوں میں مرکزی حکومت نے ہندوستان کے فیڈرل اسٹرکچر  کی تردید کرتے ہوئے جس طرح ٹیچرس ڈےکو ہڑپ لیا ہے کہ اس کے ذریعے وزیر اعظم کی امیج نکھاری جا سکے،بس اس کو یاد کر لینا کافی ہے۔

2014 میں دہلی  میں ہوئی  ٹیچرس ڈےتقریب میں وزیر اعظم نریندر مودی (فوٹو : پی آئی بی)

2014 میں دہلی  میں ہوئی  ٹیچرس ڈےتقریب میں وزیر اعظم نریندر مودی (فوٹو : پی آئی بی)

ٹیچرس ڈےپھر آ پہنچا ہے۔ راجستھان حکومت نے پچاس ہزار اسکول اساتذہ کو راجدھانی بلایا ہے۔ کہا جاتا رہا ہے کہ یہ ان کا احترام  عوامی طور پر کرنے کا انعقاد ہے۔ لیکن غور کرنے پر معلوم ہوا کہ یہ استاد وہ ہیں جن کی بحالی 2013 کے بعد ہوئی ہے۔ یعنی وسندھرا راجے کی حکومت بنانے کے بعد۔ تو ارادہ صاف ہو گیا، مقصد جتنا اساتذہ کا احترام کرنے کا نہیں اتنا ان اساتذہ کے احترام  کے بہانے وسندھرا حکومت کا شکریہ ادا کرنے کا ہے کہ اس نے مہربانی کرکے ان کو یہ نوکری دی ہے۔

امرودوں کے باغ میں ہونے والے اس پروگرام کے لئے مالی محکمے سے باقاعدہ رقم منظور کرائی گئی ہے۔ اساتذہ کو ٹی اے ڈی اے بھی دیا جائے‌گا۔ سارے اساتذہ کو ایک روز پہلے ایجوکیشن آفیسر  کے سامنے اپنی حاضری دینی ہے۔ وہ ان کو ان کے نام کا دعوت نامہ دیں‌گے جس کو دکھا کر ہی وہ امرودوں کے باغ میں داخل ہو  سکیں‌گے۔ نہ آنے کی صورت میں ان کی، اس دن کی تنخواہ کاٹ لینے کا حکم ہے۔

ایجوکیشن آفیسروں  کو حکم ہے کہ وہ ان کو بس میں بھر‌کر لائیں۔ ان کا خرچ، ٹی اے سے کاٹ لیا جانا ہے۔ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ غیر رسمی طور پر یہ ہدایت دی گئی ہے کہ استاد جو پہن‌کر آئیں، اس میں کہیں کالا رنگ نہ ہو۔ ایسا شاید اس ڈر سے کہ کوئی استاد اسی کالے رنگ‌کے کپڑے کو وزیراعلیٰ کی مخالفت کرنے کے لئے نہ استعمال کر لیں!

استاد سالوں سال اپنے  الگ الگ قسم کے  بقایا کی ادائیگی نہ ہونے کی وجہ سے ناراض بتائے جاتے ہیں۔ ان کی نوکری کی شرطیں بھی نوبل نہیں ہیں۔ ایسی حالت میں یہ احترام  کا ڈرامہ ان کے ساتھ مذاق ہی کہا جاتا سکتا ہے۔ ایک دوسری خبر دہلی  کی ہے، جہاں کئی نجی اسکولوں نے ٹیچرس ڈےنہیں منانے کا فیصلہ کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اسکول میں تحفظ کے لئے بھی اساتذہ کو ذمہ دار بتاکر گزشتہ دنوں کچھ اساتذہ کو گرفتار کیا گیا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ اساتذہ اور سماج کے درمیان اعتماد کا رشتہ ٹوٹ گیا ہے۔ ان کے مطابق اب صرف لین دین کا ہی تعلق رہ گیا ہے۔ اسکولوں کے اس دکھ کو کیا پوری طرح نظرانداز کیا جا سکتا ہے؟ اساتذہ کے ساتھ توہین آمیز رویہ  کوئی نئی بات نہیں۔ پچھلے چار سالوں میں مرکزی حکومت نے ہندوستان کے فیڈرل اسٹرکچر  کی تردید کرتے  ہوئے جس طرح ٹیچرس ڈےکو ہڑپ لیا ہے تاکہ اس کے ذریعے وزیر اعظم کی امیج نکھاری جا سکے، اس کو یاد کر لینا کافی ہے۔

ہر بار وزیر اعظم خود قومی استاد بن‌کر پورے ملک کے طلبہ  اور اساتذہ کو زندگی کے کچھ سبق پڑھاتے ہیں۔ اس دن اساتذہ کا کام ٹی وی سیٹ لانا، بچوں کو جمع کرنا، یہ متعین کرنا کہ وہ وزیر اعظم کی تقریر کے   وقت جمے رہیں، یہی رہتا ہے۔ پہلے سے طے بچوں کے ساتھ پہلے سے طے سوالوں کے وزیر اعظم جواب دیتے ہیں۔ ٹیچرس ڈےکی یہ ناقدری تو پچھلے چار سالوں میں ہوئی ہے لیکن اساتذہ کا عہدہ سماج میں لگاتار گرتا ہی چلا جا رہا ہے۔ وہ سرکاری کارکن مانے جاتے ہیں۔ اسکول میں پڑھانے کے ساتھ بھی ہر طرح کا سرکاری کام کریں، یہ امید ان سے کی جاتی ہے۔

ان کے کاموں میں پچھلے سالوں ایک اور کام جڑ گیا ہے کہ وہ صفائی کے لیے پیغام رسانی  کا کام بھی کریں۔ مردم شماری ہو یا کوئی اور کام، اسکولی استاد سب سے پہلے دستیاب رہتا ہے۔اسکول میں دوپہر کھانے کا انتظام اور اس کا معیار بنائے رکھنا بھی اسی کا کام ہوتا ہے۔ میں نے خود اس وجہ سے اسکول کے بچوں کے سرپرستوں اور اساتذہ کے رشتے کو خراب ہوتے دیکھا ہے۔

سالوں پہلے جھارکھنڈ کے ایک اسکولی استاد کے ساتھ ہوا واقعہ یاد ہے۔ وہ ہر بار خود رکشہ کرکے گیہوں کے بورے بلاک کے  دفتر سے اسکول لاتے تھے۔ گاؤں والوں نے ان کی پٹائی صرف اس وجہ سےکر  دی کہ ان کو شک تھا کہ وہ جو بورے بچ گئے تھے ان کو بیچ نہ رہے ہوں۔ اتر پردیش میں بھی سالوں پہلے کلاس میں حاضری کی  بنیاد پر اناج دینے کی روایت تھی۔ اس وجہ سے اساتذہ پر دباؤ رہتا تھا کہ بچے  کو پوری حاضری دی جائے۔

اسکولی  اساتذہ  کے کام کو مانا جاتا ہے کہ کوئی بھی کر سکتا ہے۔اسی طرح یہ بھی کہ استاد کے کام کی جانچ  بھی  کوئی  بھی کر سکتا ہے۔ گجرات میں سرکاری افسر ایک آدھ دن اسکول میں جا کر اس کے اچھے یا برے ہونے کی سند نہ صرف دیتے ہیں بلکہ اسکولوں کو کہا جاتا ہے کہ وہ باہر دیوار پر درج کریں کہ ان کو پہلا درجہ ملا ہے یا تیسرا۔سوال یہ ہے کہ اگر دیوار پر لکھا ہو کہ یہ تیسرے درجے کا ہے تو وہاں اپنے بچے  کا داخلہ کون کروائے‌گا!

امتحانوں میں بچوں کے نتیجوں سے بھی اساتذہ کی تنخواہ کو جوڑنے کا کام کیا جاتا ہے۔ کسی مضمون میں اگر بچہ ناکام ہو گیا تو اس کی پوری ذمہ داری استاد پرعائد کر  دی جاتی ہے اور اس کو سزا دی جاتی ہے۔ ٹیچرس ڈےکے موقع پر اگر ہم صرف اس کی جانچ کریں کہ اس کو کتنا ضروری مانا جاتا ہے تو شاید اس دن کی افادیت ثابت ہو۔ عموماً اس دن کو اسکول تک محدود کر دیا جاتا ہے۔

استاد ،کالج اور یونیورسٹی میں بھی ہیں۔ ریاستوں کی یونیورسٹیوں اور مرکزی یونیورسٹیوں میں اساتذہ کی بحالی سالوں سے نہیں ہوئی ہے۔ ٹھیکے پر استاد کی تقرری کی جاتی ہے جن کو پے اسکیل کے مطابق نہیں بلکہ یکمشت رقم ملتی ہے۔ ان کی زندگی اتنی غیریقینی ہے کہ کچھ وقت کے بعد یہ خود اعتمادی کھو بیٹھتے ہیں۔ یہ پورے ملک کا مسئلہ ہے لیکن سیاست اور سماج کے لئے یہ کبھی قابل غور موضوع  نہیں بن پایا ۔

ٹیچرس ڈےپر استادا ور شاگرد کی  روایت، اساتذہ کا احترام کرنے کی جگہ جمہوری سماج میں استاد کی حالت اور اس کے کردار پر سوچنا زیادہ ضروری ہے۔ استاد پیشہ ور ہو، جیسے ڈاکٹر یا انجینئر ہوتے ہیں، یہ سمجھنا ضروری ہے۔ اس پر وسائل لگانے ہوتے ہیں۔ جس ملک میں اسکول اور کالج کی جگہ کوچنگ انسٹی ٹیوٹ  زیادہ عزت پاتے ہوں، وہاں استاد کی کیا بساط! اساتذہ کا کام آج کے سماج میں زیادہ مشکل ہے۔ ان کو سماج، کمیونٹی کے اندر کے پہلے سے جڑ جمائے تعصبات سے جوجھنا پڑتا ہے۔ ایسا کرتے ہی وہ سماج کے دشمن ہو جاتے ہیں۔

چونکہ وہ علم کا کاروبار کرتے ہیں، ان کو اقتدار کے ذریعے پھیلائے جا رہے بھرم جال  کو بھی کاٹنا پڑتا ہے، اس لئے وہ اقتدار کے لئے ہمیشہ شک کے دائرے میں رہتے ہیں ۔ پچھلے چار سالوں میں جس طرح الگ الگ یونیورسٹیوں کے اساتذہ پر حملے ہوئے ہیں، وہ یہی بتاتا ہے ۔ اس ٹیچرس ڈےہم استاد نام کے ادارہ کے سامنے جو بحران آ گیا ہے، اسی پر غور و فکر کریں تو یہ دن کامیاب  ہو جائے۔

(مضمون نگار دہلی  یونیورسٹی میں پروفیسر ہیں۔ )