خبریں

ناول ’میشا‘ پر پابندی سے سپریم کورٹ کا انکار

 ایس ہریش کے ملیالم ناول ’ میشا ‘ کے کچھ حصے کو ہٹانے کی مانگ کرنے والی عرضی کو خارج کرتے ہوئے سپریم  کورٹ  نے کہا کہ تخلیقیت  کی عزت کی جانی چاہیے۔

(فوٹو : رائٹرس)

(فوٹو : رائٹرس)

نئی دہلی: سپریم کورٹ نے اس کتاب پر پابندی لگانے کے لئے دائر عرضی بدھ کو خارج کر دی جس میں ایک ہندو خاتون کے مندر میں جانے کو مبینہ طور پر توہین آمیز طریقے سے پیش کیا گیا تھا۔ چیف جسٹس دیپک مشرا، جسٹس اے ایم کھانولکر اور جسٹس دھننجے وائی چندرچوڑ کی بنچ نے عرضی خارج کرتے ہوئے کہا کہ کسی قلمکار  کے کام  کی عزت کی جانی چاہیے  اور کتاب کے کچھ  حصوں  کے بجائے مکمل کتاب  پڑھی جانی چاہیے۔

بنچ نے دہلی  کے رہنے والے  این رادھاکرشنن کی عرضی پر اپنے فیصلے میں کہا کہ کسی کتاب کے بارے میں اپنے نقطہ نظر کو سینسرشپ کے لئے قانونی دائرے میں نہیں لانا چاہیے۔ بنچ نے کہا کہ قلمکار کو اپنے لفظوں سے اسی طرح سے کھیلنے کی اجازت دی جانی چاہیے جیسے ایک مصور رنگوں سے کھیلتا ہے۔ درخواست گزار نے اپنی عرضی میں  ایس  ہریش کے  ملیالم ناول ‘ میشا ‘ (مونچھ) کے کچھ حصے کو ہٹانے کی درخواست کی تھی۔

سپریم کورٹ  نے 2 اگست کو کتابوں پر پابندی کی روایت  کی تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ خیالات کے آزاد بہاؤ کو روکتا ہے۔ عدالت نے یہ بھی کہا تھا کہ ادبی کام اسی وقت ممنوع قرار دیا جا سکتا ہے جب وہ انڈین پینل کوڈ  کی دفعہ 292 جیسے کسی قانون کی خلاف ورزی کرتا ہو۔ رادھاکرشنن نے عرضی میں الزام لگایا تھا کہ کتاب میں مندروں میں پوجا  کرانے والے براہمنوں کے بارے میں کئے گئے چنندہ تبصرے ‘نسلی اعتراضات’ جیسے ہیں۔

اس میں یہ بھی الزام لگایا گیا تھا کہ کیرل حکومت نے اس کتاب کی اشاعت، اس کی آن لائن فروخت اور ناول کی دستیابی روکنے کے لئے مناسب قدم نہیں اٹھائے۔ مرکز اور ریاستی حکومت دونوں نے ہی کتاب پر پابندی کے لئے دائر عرضی کی مخالفت کرتے ہوئے کہا تھا کہ اظہار رائے  کی آزادی میں رکاوٹ  نہیں ڈالی جانی  چاہیے۔