فکر و نظر

راہل گاندھی کو سمجھنا ہوگا کہ صرف کیلاش یاترا سے مودی کو نہیں ہرایا جاسکتا

کانگریس کا موقف ہے کہ راہل کی کیلاش  یاترا ایک ذاتی اور مذہبی یاترا ہے۔ راہل جب کرناٹک الیکشن کے دوران ایک ہوائی سفر میں حادثے کا شکار ہوتے ہوتے بچے تھے تو کانگریس صدر نے منت مانی تھی۔

rahul-gandhi_mansarovar_ani

راہل گاندھی کی کیلاش مان سروور یاترا بی جےپی کے لیے ایک سر درد اور پریشان کن مسئلہ  بنتا جا رہا ہے۔ایک طویل عرصے کے بعد راہل بی جےپی کو بیک فٹ پر لانے میں کامیاب دکھ رہے ہیں۔کانگریس کا موقف ہے کہ راہل کی کیلاش مان سروور یاترا ایک ذاتی اور مذہبی یاترا ہے۔ راہل جب کرناٹک الیکشن کے دوران ایک ہوائی سفر میں حادثے کا شکار ہوتے ہوتے بچے تھے تو کانگریس صدر نے منت مانی تھی۔ ان کی شیو بھکتی ان کے عقیدے کا حصہ ہے۔

بی جےپی کانگریس اور نہرو گاندھی فیملی کو ہندو مذہب سے دور اور بے نیازثابت کرنا چاہتی ہے۔ان کی پوری اسٹریٹجی سونیا اور راہل گاندھی کو ہندو مخالف دکھانے کے اردگرد گھومتی ہے۔مدھیہ پردیش ، راجستھان چھتیس گڑھ میں اسمبلی الیکشن ہونے والے ہیں اور وہاں کی اکثریت ہندو مذہب اور شیو بھکتوں کی ہے۔ بی جےپی کو یہ خطرہ لاحق ہے کہ کہیں عوام میں راہل اور کانگریس کے لئے نرم گوشہ نہ پیدا ہو جائے۔بی جےپی کے پرانے لیڈرجانتے ہیں کہ سال 2001 میں سونیا گاندھی نے الہ آباد کے کمبھ کے دوران گنگا ندی میں ڈبکی لگا کر سنگھ پریوار پر زک لگائی تھی اور2004 کے لوک سبھا الیکشن میں وہ اٹل بہاری باجپائی جیسے قدآور لیڈرکوپچھاڑنےمیں کامیاب ہو گئیں تھیں۔بی جےپی کا ان کے غیر ملکی ہونے کی کمپین ناکام ثابت ہوئی تھی ۔

در اصل سونیا گاندھی جانتی ہیں کی عوام اور سیاسی رہنماؤں میں ایک قسم کا silent ڈائیلاگ ہوتا ہے۔پرچار،بیانات،ٹی وی-ریڈیو کی یلغار بھی عوام کی سوچ اور اسکا نظریہ نہیں بدل سکتی ہے۔ایسا تجربہ1977،1989اور2004 لوک سبھا الیکشن کے دوران ہوا حب مضبوط حکومتیں جن کے پاس پیسے اور ریسورسز کی کوئی کمی نہیں تھی ، الیکشن ہار گئیں اور عوام نے روپیہ پیسے پبلسٹی کے معاملے میں کمزور سیاسی جماعتوں کا ساتھ دیا۔

جس طریقے سے بی جےپی راہل کی کیلاش یاترا کی مخالفت کر رہی ہے اور تصاویر وغیرہ میں بال کی کھال نکالنے کی کوشش کر رہی ہے اس سے اسکی پریشانی صاف جھلک رہی ہے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ راہل گاندھی ثابت قدمی سے اپنے مشن میں ڈٹے رہیں اور انکی پارٹی کے لیڈر بی جےپی کے ہندتوا اور کانگریس کی ہندو پرستی کی بیچ کا فرق پیش کریں۔کانگریس 1947 سے پہلے اور بعد میں بھی ہندو پرست جماعت رہی ہے۔ پنجاب تحریک کے دوران تو اندرا گاندھی کھل کر ہندو موقف کی حمایت میں سامنے آئیں تھیں اور 1984 میں ان کا قتل بھی ہندو پرست ہونے کی وجہ سے ہوا تھا۔راجیو گاندھی نے 1989کے انتخاب کاآغاز ایودھیا اور فیض آباد میں”رام راجیہ”کے تصور سے کیا تھا۔یہ بھی تاریخ کا حصہ ہے کہ1984 میں  اندرا گاندھی کے قتل کے بعد RSS نے الیکشن میں کانگریس کی حمایت اور مدد کی تھی ۔

نرسمہا راؤ کے بابری مسجد میں موقف اور پرنب مکھرجی کا عروج سب دکھاتا ہے کہ کانگریس میں ہندو نواز لیڈرشپ کو ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا ہے۔بی جےپی سے بنیادی فرق ماب لنچنگ اور گئو رکشامعاملے میں ہےجہاں کانگریس نے آئین اوررول آف لاءکے نفاد کی کوشش کی ہے۔فسادات اور غلطیاں تو کانگریس سے بھی بہت ہوئی ہیں اور اس کی ایک لمبی فہرست تیار کی جا سکتی ہے لیکن کانگریس کی نیت میں کھوٹ نہیں تھی۔یہ بات کانگریس کو عوام تک پرزور ڈھنگ سے پہنچانی ہوگی۔کانگریس کو بی جےپی کی بوکھلاہٹ اور راہل کی یاترا سے  اٹھی بی جےپی کی جھللاہٹ کا فائدہ اٹھانا چاہیے ناکہ ٹی وی نیوز چینلز کا بائیکاٹ کرکے۔

اب جب کہ راہل گاندھی  واپس آ گئے ہیں ، سیاست کے میدان میں کانگریس کے صدر ہونے کے ناطے انھیں اپنی ذمہ داریاں پوری کرنی ہوں گی۔ اپوزیشن کی ایکتا اور ان کو اپنے ساتھ لے کر چلنا ہوگا۔ ملک میں مختلف قسم کی چالیں اور پینترےبازی ہو رہی ہے ۔ ان حالات میں راہل کا رول اپنے ذاتی مفاد سے ہٹ کر اور کانگریس کے سیاسی فائدوں سے کہیں زیادہ مقدم ہے ۔ تیل اور پیٹرول کی قیمتیں آسمان چھو رہی ہیں وہیں دوسری طرف رام مندر اور ایودھیا کے معاملے کا ایک فیصلہ آنے والا ہے جس سے ایک سیاسی طوفان بھی اٹھ سکتا ہے ۔ راہل کو ان حالات میں اپنی عمر اور تجربے سے  بڑے فیصلے لینے پڑ سکتے ہیں۔صرف مذہبی عقیدت اور اکثریت کے عقائد کے ساتھ کھڑے ہونے سے کام نہیں چلے گا۔