گراؤنڈ رپورٹ

کیا اشرافیہ  تحریک کے بعد پلٹی ہوا سے مدھیہ پردیش میں شیوراج کا دم پھول رہا ہے؟

ایس سی/ایس ٹی ایکٹ میں ہوئی ترمیم کی مخالفت ملک کے کئی حصوں میں ہو رہی ہے لیکن الیکشن کی دہلیز پر کھڑے مدھیہ پردیش میں اس کا اثر زیادہ ہے۔  بی جے پی-کانگریس دونوں ہی جماعتوں کے رہنماؤں کو ریاست میں جگہ جگہ مخالفت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

سیدھی میں وزیراعلیٰ شیوراج سنگھ چوہان کی جن آدرش واد یاترا کے دوران کی گئی توڑپھوڑ (فوٹو :پی ٹی آئی)

سیدھی میں وزیراعلیٰ شیوراج سنگھ چوہان کی جن آدرش واد یاترا کے دوران کی گئی توڑپھوڑ (فوٹو :پی ٹی آئی)

مدھیہ پردیش میں سال کے آخر میں ہونے والے اسمبلی انتخابات کی تیاری کی کڑی میں ریاست کی حکمراں جماعت بی جے پی کے وزیراعلیٰ شیوراج سنگھ چوہان اپنی جن آدرش واد یاترا لےکر سیدھی ضلع پہنچتے ہیں۔کروڑوں کے تانگے پر سوار وزیراعلیٰ جب ایک جلسہ کو خطاب کرنا شروع کرتے ہیں تبھی ایک چپل ان پر پھینکی جاتی ہے جو ان کی بغل میں کھڑے گارڈکو لگتی ہے۔ اس بیچ بھیڑ میں ‘ وزیراعلیٰ واپس جاؤ ‘اور ‘شیوراج سنگھ مردہ باد ‘کے نعرے بھی لگتے ہیں۔

وزیراعلیٰ کی مخالفت کرنے والوں کے گلے میں پڑے بھگوا گمچھے کو دیکھ‌کر قیاس لگائے جاتے ہیں کہ یہ کام بی جے پی کے ہی ناراض  کارکنان کا ہے۔  لیکن، تصویر تب صاف ہوتی ہے جب اس کی ذمہ داری کرنی سینا لیتی ہے۔  وہی کرنی سیناجو راجپوتوں کی آن، بان، شان کی حفاظت کی دہائی دےکر فلم پدماوتی کی مخالفت میں اتر آئی تھی۔یہ حملہ اس مخالفت کی کڑی کا ایک حصہ تھا جس نے مدھیہ پردیش میں بچھی انتخابی بساط کو پوری طرح پلٹ دیا ہے۔چپل پھینکنے والے مظاہرین حال ہی میں پارلیامنٹ کے ذریعے منظور کئے گئے ایس سی ایس ٹی (ظلم روک تھام)قانون ترمیم بل پر بی جے پی کے رخ کی مخالفت کر رہے تھے۔

پارلیامنٹ کے اس فیصلے کی حالانکہ پورے ملک میں ہی اشرافیہ سماج اور تنظیموں  کے ذریعے مخالفت کی جا رہی ہے جس کے چلتے 6 ستمبر کو بھارت بند کا بھی اعلان کیا گیا تھا۔  لیکن، مدھیہ پردیش میں حالت تھوڑی الگ ہے،یہاں اسمبلی انتخابات کو دیکھتے ہوئے اشرافیہ سماج اور تنظیموں  نے ان تمام جماعتوں کی مخالفت شروع کر دی ہے جنہوں نے قانون سازمجلس میں ایس سی / ایس ٹی ترمیم بل کی اجازت دی تھی اور بل کے خلاف آواز نہیں اٹھائی تھی۔

ریاست میں تقریباً تین درجن تنظیموں  نے حکمت عملی کے تحت ایک طرف جہاں سوشل میڈیا اور ہورڈنگس، بینرس وغیرہ کے ذریعے سیاستدانوں اور سیاسی جماعتوں کے خلاف مہم چھیڑ دی ہے تو وہیں دوسری طرف رہنماؤں کو گھیر‌کر ان کو کالے جھنڈے دکھائے جا رہے ہیں اور ان سے اس بل کی مخالفت نہ کرنے کے پیچھے کی وجہ بھی پوچھے جا رہے ہیں۔امن کا جزیرہ کہلانے  والے مدھیہ پردیش میں پچھلی دو دہائیوں سے سڑک، بجلی، پانی ہی اہم مدعے رہے تھے جن پر سرکاریں  بنتی اور بگڑتی آئی تھیں۔  ذات پات بھی یہاں کام کرتا تھا لیکن اتر پردیش یا بہار کی طرح یہاں یہ فرق اس سطح پر نہیں تھے کہ جو حکومتوں کے بننے اور بگڑنے کی وجہ بنیں۔

موجودہ وقت میں بھی انتخاب اسی پرانے سڑک، پانی اور بجلی کے ڈھرّے پر لڑے جانے کی انتخابی بساط تیار ہو چکی تھی۔  وزیراعلیٰ شیوراج سنگھ غریب فیملیوں کو 200 روپے فی ماہ بجلی دینے کا اعلان کر چکے تھے تو وہیں ہر منچ سے ریاست کی سڑکوں کا مقابلہ امریکہ سے کرتے نظر آ رہے تھے۔  کانگریس بھی انہی مدعوں پر حکومت کو گھیرنے کی حکمت عملی بنا رہی تھی۔لیکن، یہ انتخابی بساط تب پلٹ گئی جب ایس سی / ایس ٹی ترمیم بل قانون سازمجلس سے منظور ہوا اور سپریم کورٹ کا وہ حکم رد کر دیا گیا جہاں اس نے اس قانون کے تحت بنا تفتیش گرفتاری پر روک لگا دی تھی۔

اشرافیہ کے لوگوں نے قانون سازمجلس کے اس قدم کو اپنے خلاف پایا۔  انتخاب کی دہلیز پر کھڑے مدھیہ پردیش میں اس پر رد عمل یہ ہوا کہ نہ صرف اشرافیہ مخالفت میں اترے بلکہ او بی سی اور اقلیتی کمیونٹی نے بھی General Backward and Minority Sector Officer Employees Association (SPX)کے بینر تلے قانون سازمجلس کے اس قدم کی مخالفت شروع کر دی ہے اور نہ صرف حکمراں بی جے پی بلکہ حزب مخالف کانگریس کے رہنماؤں کو بھی نشانے پر لینا شروع کر دیا ہے۔  ان کے گھروں کا گھیراؤ کیا جا رہا ہے، وہ جہاں بھی جاتے ہیں ان کو کالے جھنڈے دکھاکر ان کے خلاف نعرے بازی کی جاتی ہے۔

کانگریس رکن پارلیامان، سابق مرکزی وزیر اور مدھیہ پردیش کانگریس انتخابی مہم کمیٹی کے صدر جیوترادتیہ سندھیا کو بھی شیوراج جیسی حالت کا ہی سامنا تب کرنا پڑا جب ان کو اپنے ہی پارلیامانی حلقہ گنا، جہاں ان کو مہاراج کی طرح عزت دیا جاتا ہے، میں عوام نے گھیر‌کر کالے جھنڈے دکھائے اور سوال و جواب کرنا شروع کر دیا۔کچھ ایسا ہی کانگریس ریاستی صدر کمل ناتھ کے ساتھ ودیشا ضلع کی گنجباسودا تحصیل میں ہوا جب سپاکس کی طرف سے ان کو کالے جھنڈے دکھائے گئے۔

ریاستی کانگریس ایگزیکٹیو صدر اور ایم ایل اے جیتو پٹواری جب نیمچ کانگریس کی جن جاگرن یاترا لےکر پہنچے تو کچھ جوانوں کی جماعت نے کالے پرچم دکھاتے ہوئے ان کی گاڑی روک لی اور ایس سی / ایس ٹی ایکٹ پر کانگریس کا رخ صاف کرنے کو کہا۔جیسےتیسے وہ وہاں سے نکلے تو بیتے سال کسان تحریک کے گواہ بنے مندسور کی پپلیامنڈی میں ایک جلسہ میں کرنی سینااور پرشورام سیناکے سوالوں سے ان کو دو چار ہونا پڑا جہاں ان سے پوچھا گیا کہ قانون سازمجلس سے بل منظور ہوتے وقت کیوں کانگریس خاموش تھی۔

وہیں، نیمچ میں گھروں کے باہر لوگوں نے لکھ رکھا ہے، ‘یہ اشرافیہ کے گھر ہیں یہاں ووٹ مانگنے نہ آئیں۔  ‘ گوالیار میں بھی کاروباریوں نے اپنی دکان کے باہر ایسے ہی بینر لگا رکھے ہیں۔مظاہرین  رہنماؤں کو گھیرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہے ہیں۔  گوالیار میں مرکزی  کان کنی، پنچایتی راج اور دیہی وزیر نریندر سنگھ تومر کی رہائش گاہ کا گھیراؤ کیا گیا اور ان سے استعفی کی مانگ کی گئی۔  وہیں، ریاستی شہری ترقی وزیر مایا سنگھ کو ایک پروگرام میں شریک ہونے کے دوران کالے پرچم دکھانے کی کوشش کرنے والے نوجوانوں کو گرفتار کرنا پڑا۔  جس کے بعد چھپتے چھپاتے بڑی مشقت سے مایا سنگھ اپنے گھر پہنچ سکیں۔

بھنڈ میں مقامی بی جے پی رکن پارلیامان ڈاکٹر بھاگی رتھ پرساد کے نام اطلاع چسپاں کی گئی۔  بی جے پی کے قومی نائب صدر پربھات جھا اور ریاستی حکومت میں وزیر صحت رستم سنگھ سمیت کئی وزیر، رکن پارلیامان اور ایم ایل اے مشتعل طبقے کے نشانے پر رہے۔سیدھی میں مقامی بی جے پی رکن پارلیامان ریتی پاٹھک کا بھی گھیراؤ کیا گیا تو ان کو مظاہرین سے کہنا پڑا کہ اکیلے میرے ہاتھ میں کچھ نہیں ہے، تلوار لاکر میرا گلا کاٹ دو۔

(فوٹو :فیس بک / جیوترادتیہ مادھوراؤ سندھیا)

(فوٹو :فیس بک / جیوترادتیہ مادھوراؤ سندھیا)

پوری ریاست میں ایسے ہی نظارے دیکھے جا رہے ہیں۔رہنماؤں اور جماعتوں کے لئے پریشان کن حالت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ کانگریس اور بی جے پی نے اپنے تمام حالیہ پروگراموں کو رد کر دیا ہے۔جن آدرش وادی یاترا میں وزیراعلیٰ نے اپنے کروڑوں کے تانگے میں گھومنا بند کر دیا ہے اور نئے سرکلر کے حساب سے اب وہ صرف ہیلی کاپٹر اور کار سے ہی سفر کریں‌گے، صرف پروگرام کی جگہ پر تانگے میں سوار ہوں‌گے۔

بی جے پی کی پیشانی پر فکر کی لکیریں اس لئے بھی زیادہ ہیں کہ 12 ستمبر سے پارٹی کے صدر امت شاہ ریاست میں جلسہ شروع کرنے والے ہیں۔  لیکن حالتیں کچھ ایسی ہیں کہ 19 تاریخ کو جس گوالیار میں ان کو یووا سمیلن میں شریک ہونا ہے، وہیں اس اجلاس کی تیاری کو لےکر ہوئی پارٹی کی سمبھاگیہ اجلاس میں شامل ہونے آئے قومی تنظیم کے رہنماؤں کو مخالفت کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ریاستی صدر ونئے سہستربدّھے، تنظیم کے جنرل سکریٹری سہاس بھگت سمیت وزیر اور رہنما اجلاس کے مقام پر پہنچے تو مظاہرین نے اجلاس کے مقام کا ہی گھیراؤ کر دیا جس کے چلتے پہلے تو گھنٹوں تک وہ باہر نہیں نکلے اور جب نکلے تو کالے جھنڈوں سے ان کاسامنا ہوا۔

اس لئے پارٹی رہنماؤں کو ڈر ہے کہ کہیں مظاہرین امت شاہ کو بھی کالے پرچم نہ دکھائیں۔  ایسی حالت نہ  ہو اس لئے حکومت کی طرف سے پوری طاقت جھونکنے کی تیاری ہے۔ریاست میں مخالفت کے اثر کو اس طرح بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ 6 ستمبر کےبھارت بند کے دوران پوری ریاست میں دفعہ 144 لگا دی گئی تھی جو احتیاطاً کئی جگہوں پر 7 دن تک لگی رہے‌گی۔بھارت بند کے دوران بھی مظاہرین نریندر سنگھ تومر اور جیوترادتیہ سندھیا سمیت دونوں جماعتوں کے کئی رہنماؤں کے گھر کے باہر بغاوت کے پوسٹر چپکائے ہیں اور کالے پرچم لگائے گئے۔  پارٹی دفتروں کے باہر بھی ایسا ہی کیا گیا ہے۔

مدھیہ پردیش میں ہی کیوں ہو رہی ہے بل کی اتنی مخالفت؟

مدھیہ پردیش کے ساتھ ساتھ اس سے جڑی ریاستوں چھتیس گڑھ اور راجستھان میں بھی اسمبلی انتخابات ایک ہی وقت پر ہونے ہیں لیکن بل کے خلاف بنا ایسا ماحول وہاں نہیں دیکھا جا رہا ہے تو ایسا اس لئے ہے کیونکہ مدھیہ پردیش میں اس کی اسکرپٹ تقریباً دو سال پہلے ہی تب لکھی جا چکی تھی جب شیوراج سنگھ نےپرموشن میں ریزرویشن کے مسئلے پر ایک منچ سے کہا تھا، ‘ میرے زندہ رہتے کوئی مائی کا لال ریزرویشن ختم نہیں کر سکتا۔  ‘

شیوراج کے اس بیان نے نہ صرف اشرافیہ کو ناراض کیا بلکہ او بی سی اور اقلیت بھی ان کے خلاف کھڑے ہو گئے۔نتیجتاً تینوں طبقے کے ملازمین‎ نے مل‌کر سپاکس کی تشکیل کی اور شیوراج حکومت کی مخالفت شروع کر دی۔بیتے دو سالوں میں تنظیم اتنی مضبوط ہو گئی کہ اب وہ انتخابی میدان میں تمام 230 اسمبلی سیٹوں پر امیدوار کھڑا کرنے کا دعویٰ کر رہی ہے۔ساتھ ہی جہاں پہلے سپاکس صرف پرموشن میں ریزرویشن کے خلاف تھی، اب اس کے ایجنڈے میں اقتصادی بنیاد پر ریزرویشن دینے کا مدعا بھی شامل ہو گیا ہے۔

بل کی مخالفت کے دوران ریاست میں ‘مائی کا لال ‘ لفظ کا خوب استعمال کیا جا رہا ہے اور ‘ آ گئے مائی کے لال ‘ جیسے الفاظ سے شیوراج کو چیلنج دیا جا رہا ہے۔اس لئے جب بل کی مخالفت کی باری آئی تو سپاکس بھی حمایت میں اتر آئی اور تنظیم کی سرگرمی نے مخالفت کی آوازوں کو مضبوط کرنے میں اہم کردار نبھایا۔ جس سے کہ ریاست میں مخالفت کو او بی سی اور اقلیتی طبقے کا بھی ساتھ مل رہا ہے۔  6 ستمبر کےبند میں سپاکس سے جڑے ملازم نوکری سے چھٹیاں لےکر بند میں شامل ہوئے۔

سپاکس کے سرپرست ہیرالال ترویدی بتاتے ہیں کہ جب تک ایس سی / ایس ٹی ایکٹ میں ترمیم واپس نہیں لی جائے‌گی، وہ تحریک جاری رکھیں‌گے۔  انہوں نے 30 ستمبر کو بھوپال میں مہاریلی نکالنے کا بھی اعلان کیا ہے۔وہیں، سیاسی تجزیہ کار اور سینئر صحافی رشید قدوائی کہتے ہیں،’انتخابات کے چلتے ہی ریاست میں مدعےکو زیادہ ہوا دی جا رہی ہے۔  پردے کے پیچھے سے سیاسی جماعتیں بھی اپنی اپنی زمینیں تیار کر رہی ہیں۔  ‘

کیسے پلٹی انتخابی بساط؟

اقتدار کی مخالفت سیدھے حزب مخالف کو فائدہ پہنچاتی ہے۔   بل کے منظور ہونے سے پہلے تک کانگریس کو اس کی امید بھی تھی کہ شیوراج سے ناراض اشرافیہ کا جھکاؤ اس کی طرف ہوگا۔  لیکن اب کانگریس کا بھی نشانے پر آنا سوال کھڑا کرتا ہے کہ اشرافیہ رائےدہندگان کہاں جائے‌گا؟  او بی سی، جو کہ بی جے پی کے حق میں ریاست میں صف بند رہا اور اپنی ہی کمیونٹی سے آنے والے شیوراج کا چہرہ دیکھ‌کر ووٹ کرتا رہا، اوپری طور پر دیکھنےپر لگتا ہے کہ اب وہ بھی کشمکش میں ہے۔

سیدھی سے بی جے پی رکن پارلیامان ریتی پاٹھک (فوٹو بشکریہ:فیس بک )

سیدھی سے بی جے پی رکن پارلیامان ریتی پاٹھک (فوٹو بشکریہ:فیس بک )

سپاکس کو اقلیتوں کی بھی حمایت  حاصل ہے اس لئے اقلیتی طبقہ جس سے کہ کانگریس اپنے حق میں رائے دہندگی کی امید لگا سکتی تھی، اب اس کے لئے بھی انتخابی حکمت عملی پر دوبارہ غور کرنے کی ضرورت ہے۔حالانکہ، رشید قدوائی مانتے ہیں کہ کانگریس کو بھلےہی مخالفت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہو لیکن فائدے میں و ہی رہے‌گی۔  وہی مدعے کو ہوا دے رہی ہے۔  وہ کہتے ہیں،’ کانگریس کے پاس کہنے کے لئے ہے کہ وہ نہ تو مرکز میں ہے اور نہ ہی ریاست کے اقتدار میں، اگر وہ قانون سازمجلس میں بل کی مخالفت بھی کرتے تو اکثریت بی جے پی کے پاس تھی اس لئے بل تو منظور ہو ہی جانا تھا۔  اس لئے وہ بچ‌کے نکل سکتے ہیں۔  ‘

اس بیچ، ستمبر کو گوالیار میں بل کے خلاف ہوئے ایک مہاسمیلن میں بھاگوتاچاریہ ٹھاکر دیوکی نندن نے شامل ہوتے ہوئے بھرے منچ سے کہا کہ اگر دو مہینے کے اندر حکومت ترمیم بل کو واپس لےکر سپریم کورٹ کا فیصلہ نافذ نہیں کرتی ہے تو عوام کو انتخابات میں ہم اختیار دینے پر غور کریں‌گے۔  سپاکس 230 سیٹوں پر انتخاب لڑنے کا اعلان پہلے ہی کر چکی ہے۔حالیہ واقعات کو دیکھتے ہوئے پرموشن اور کسان جیسے مدعوں کی کہیں کوئی گفتگو نہیں ہو رہی ہے۔ کسانوں کے مدعے اور مرکزی مدعےجیسے کہ نوٹ بندی، جی ایس ٹی وغیرہ پر شیوراج حکومت کو گھیرنے کی تیاری میں جٹی کانگریس بھی اس نئے چیلنج سے کیسے نپٹا جائے، اسی پر دھیان لگا رہی ہے۔

حزب مخالف رہنما اجئے سنگھ نے مدعے پر گفتگو کرنے اور اس کا حل تلاش کرنے کے لئے وزیراعلیٰ سے کل جماعتی اجلاس بلانے کی اپیل کی ہے۔  وہیں، قومی ترجمان رندیپ سرجیوالا  اشرافیہ کے ریزرویشن کی وکالت کر رہے ہیں۔بی جے پی کے لئے حالت اس لئے بھی خراب ہو گئی ہے کہ اب پارٹی کے اندر سے ہی مخالفت کی آواز آ رہی ہے۔  وندھیہ علاقے میں سابق ایم ایل اے گھنشیام تیواری نے بی جے پی سے استعفیٰ دیا تو چمبل منڈل کے شیوپور میں بی جے پی رہنماؤں کی پارٹی سے استعفیٰ کا دور جاری ہے۔  پہلے ضلع خزانچی نریش جندل نے استعفی دیا، اس کے بعد ایک ایک کرکے کئی سابق پارٹی اہلکار پارٹی چھوڑ‌کر جا چکے ہیں۔انہوں نے الزام لگایا ہے کہ پارٹی نے عام اور پسماندہ طبقہ کے ساتھ دھوکہ کیا ہے۔  نریش انتخابات میں ٹکٹ پانے کے مضبوط دعوے دار تھے۔

ٹیکم گڑھ میں بھی پارٹی کے مقامی معاون میڈیا انچارج برجیش تیواری نے پارٹی چھوڑ دی ہے تو منڈل صدر سریش تیواری نے مودی حکومت پر وار کرتے ہوئے اس کے بل لانے کے لئے فیصلے کو غیرمنصفانہ ٹھہرایا ہے۔ہوشنگ آباد میں وزیراعلیٰ کی جن آشیرواد یاترا کے ٹھیک پہلے بی جے پی یووا مورچہ منڈل کے صدر ویبھو سنگھ سولنکی اور نائب صدر لوکیش ورما نے یہ کہتے ہوئے استعفیٰ دے دیا کہ پارٹی کا بل کو لےکر اسٹینڈ ٹھیک نہیں ہے۔

چھتر پور ضلع سے بی جے پی ایم ایل اے ریکھا یادو نے ایکٹ میں ہوئی ترمیم کو غلط ٹھہرایا ہے۔ وہیں، بی جے پی کے رہنما بھارت بند میں بھی شامل ہوئے، انوپ پور میں تو بی جے پی رہنما کو گرفتار تک کیا گیا۔ان حالات میں انتخابات میں اونٹ کس کروٹ بیٹھے‌گا، اب یہ طے کر پانا مشکل ہو گیا ہے۔ دونوں جماعتوں کے رہنما کھلے منچ سے کچھ بھی بولنے سے کترا رہے ہیں۔  میڈیا کے سوالوں سے بچتے نظر آ رہے ہیں۔  مظاہرین کے سوالوں پر خاموشی سادھے ہیں۔  چیلنج ان کے سامنے یہی ہے کہ کیسے دلت اور اشرافیہ کے درمیان تال میل بٹھایاجائے۔

حالانکہ، رشید قدوائی کہتے ہیں،’اشرافیہ بی جے پی کی سخت حامی رہی ہیں۔  ان کی تعداد بھلےہی کم ہو لیکن وہ اوپنین میکرس ہوتے ہیں اور ٹیچر، میڈیا، افسر ایسے عہدوں پر ہوتے ہیں تو ان کا جانا بی جے پی کو نقصان پہنچائے‌گا۔  بھلےہی وہ کانگریس کو ووٹ نہ دےکر نوٹا پر مہر لگائیں توبھی ووٹ تو بی جے پی کا ہی کٹے‌گا۔  وہیں، ریاست کی سیاست میں اقلیت بہت ہی گنی چنی سیٹوں پر اثر ڈالتے ہیں اور سماندہ پر بی جے پی کی مضبوط پکڑ ہے، بی جے پی کے پچھلے تینوں وزیراعلیٰ اسی طبقے سے رہے ہیں۔  ‘

(دیپک گوسوامی آزاد صحافی ہیں۔)