خبریں

براک اوبامہ کی نوکری،پرنب مکھرجی فاؤنڈیشن اور گنیش چترتھی کی خبروں کا سچ

فیک نیوز :پرنب مکھرجی کی تنظیم دی پرنب مکھرجی فاؤنڈیشن آر ایس ایس کے ساتھ ان کے مشن میں تعاون کر سکتی ہے۔

fake 2

گنیش  کے یوم ولادت سے لے کرمسلسل دس دن تک ایک تہوار ہندوستان میں منایا جاتا ہے جس کو ‘گنیش چترتھی’ یا ‘ونایک چترتھی’ کہتے ہیں۔ اس تہوار کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ جنوبی ہندوستان کے مقابلے مغربی ہندوستان میں اس تہوار کو بڑے جوش وخروش سے منایا جاتا ہے۔دراصل  جنگ آزادی کے دوران ہی مہاراشٹر میں اس تہوار منایا جانے لگا تھا۔اس سال بھی 13 ستمبر کو گنیش چترتھی کے موقع پرہندوستان کے علاوہ بیرون ملک میں مقیم ہندوستانیوں نے  اپنی عقیدت کا اظہار کیا اور یہ تہوار منایا۔

 لوگوں نے سوشل میڈیا میں اپنی تصویریں اور ویڈیو شئیر کیں۔ اسی دوران بالی ووڈ کے معروف ایکٹر انوپم کھیر نے 13ستمبر کو ایک ویڈیو ٹوئٹ کیا  جس میں دکھایا گیا تھا کہ افریقی ملک یوگانڈا میں ہندوستانی افراد گنیش چترتھی کا تہوار منا رہے ہیں۔ اسی ویڈیو میں  کچھ میں افریقی فنکار دھول بھی بجا رہے تھے ۔انوپم کھیر نے اس ویڈیو کو ٹوئٹ کرتے ہوئے؛

یہ جادوئی احساس ہے، یوگانڈا کے شری گنیش مندر میں ‘گنپتی بپا موریا’ کی صداؤں کے ساتھ ڈھول کی آوازاور عقیدت مندوں کے چہروں کے تاثرات قابل دید ہیں !

اسی ویڈیو کو انوپم کھیر نے اپنے آفیشل فیس بک پیج پر بھی شئیر کیا تھا۔ فیس بک اور ٹوئٹر پر متعدد افراد نے کھیر کے ویڈیو کو شئیر کیا، لیکن ری پبلک ٹی وی اور ٹائمز آف انڈیا ویڈیو کی سچائی سے آگے نکل گئے۔ ان دونوں میڈیا اداروں نے خبر شائع کی کہ انوپم کھیر اس وقت گنیش چترتھی کے موقع پر افریقہ کے یوگانڈا میں موجود  ہیں اور وہاں بڑے خلوص و عقیدت کے ساتھ گنیش چترتھی کا تہوار منا رہے ہیں !

ٹائمز آف انڈیا اور ری پبلک ٹی وی کی خبریں جھوٹی ثابت ہوئیں۔بوم لائیو نے یوگانڈا کے شری گنیش مندر کے چیئرمین راہل مشرف  سے رابطہ قائم کیا اور ویڈیو کی حقیقت کے بارے میں پوچھا تو راہل نے جواب دیا کہ؛

  • انوپم صاحب نے جو ویڈیو سوشل میڈیا پر شئیر کی ہے وہ ایک  سال پرانی ہے۔ یہ ویڈیو گزشتہ برس شوٹ کی گئی تھی اور گزشتہ سال ہی سوشل میڈیا پربہت عام ہوئی تھی۔
  • گزشتہ سال کی تقریب میں میں بھی موجود تھا اور اس بات کو دعوے کے ساتھ کہتا ہوں کہ انوپم کھیرتقریب میں موجود نہیں تھے۔ اور نہ ہی ویڈیو انہوں نے شوٹ کیا ہے۔
  • انوپم کھیر اس برس بھی یوگانڈا میں نہیں ہیں!

انوپم کھیر نے ویڈیو شئیر کرتے وقت اس طرح کا کوئی بھی دعویٰ نہیں کیا ہے کہ وہ یوگانڈا میں موجود ہیں اور یہ ویڈیو ان کی اپنی کاوشوں کا نتیجہ ہے۔ میڈیا اداروں نے اس  ویڈیو کے تعلق سے جو کچھ بھی اضافی طور پر لکھا ہے وہ ان کی اپنی حماقت ہے۔اس ویڈیو کو یہاں دیکھا جا سکتا ہے؛

براک اوبامہ2009 سے 2017 تک امریکہ کے صدر رہے۔ ان کو امریکی عوام نے دو بار  منتخب کیا تھا۔2017 میں اپنی ذمہ داریوں سے فارغ ہونے کے بعد اوبامہ کی بہت سی تصویریں سوشل میڈیا میں وائرل ہو گئیں۔ ہندوستان میں ان تصویروں کے تعلق سے  غلط فہمیوں نے جگہ بنائی۔ ان تصویروں میں خاص بات یہ تھی کہ یہ تصویریں اوبامہ کی روز مرہ کی زندگی کی عکاسی کرتی تھیں، ان میں اوبامہ دفتر صدارت  کے پروٹوکول اور قواعد سے دور ہوکر ایک انفارمل طریقے سے لوگوں سے ملتے جلتے نظر آتے ہیں۔

ایک تصویر میں  دکھایا گیا تھا کہ اوبامہ کسی کمرے میں اکیلے بیٹھے ہیں اور لیپ ٹاپ پر اپنا کام کر رہے ہیں۔ اس تصویر کے حوالے سے فیس بک اور ٹوئٹر پر یہ دعویٰ کیا گیا کہ اوبامہ دفتر صدارت  چھوڑنے کے بعد ایک پرائیویٹ کمپنی میں ملازمت کرتے ہیں۔ ہندوستان میں ایسا نہیں ہوتا ہے؛ یہاں تو سرپنچ کی پانچ نسلیں بھی بیٹھ کر کھاتی ہیں !

دوسری اور تیسری تصویر میں دکھایا گیا کہ اوبامہ ایک فوڈ اسٹال پر کھڑے ہیں۔ اس تصویر کے بارے میں دعویٰ کیا گیا کہ اوبامہ نے دفتر صدارت چھوڑنے کے بعد ایک ریستوراں  میں ملازمت شروع کر دی ہے جہاں اوبامہ گراہکوں سے آرڈر لیتے ہیں اور انکو کھانا سرو کرتے ہیں !

fake 1

الٹ نیوز نے انکشاف کیا کہ تصویروں کے ساتھ کئے گئے دعوے جھوٹے ہیں۔ پہلی تصویر میں اوبامہ لیپ ٹاپ استعمال کر رہے ہیں۔ یہ تصویر اس وقت کی جب وہ امریکی صدر تھے۔ یہ ان کے دفتر صدارت ترک کرنے کے بعد کی تصویر نہیں ہے اور نہ ہی اوبامہ کسی پرائیویٹ کمپنی کے ملازم ہیں۔ اوبامہ کے ٹوئٹر پر یہ تصویر موجود ہے ۔2017 کی اس تصویر کے ساتھ ٹوئٹ کیا گیا ہے کہ اوبامہ reddit پر عوام کے سوالات کے جواب دے رہے ہیں۔

دوسری تصویر  2016کی ہے جب اوبامہ نے آرمڈ فورس ریٹائرمنٹ ہوم میں سابق فوجیوں کو دعوت پر بلایا تھا اور ان کے لئے آفیشل ڈنر کا اہتمام کیا تھا۔ اسی تقریب میں اوبامہ کسی شخص سے ہاتھ ملاتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔ لیکن ان کے اس ہاتھ ملانے کو سوشل میڈیا میں یہ کہہ کر عام کیا گیا کہ اوبامہ ایک ریستوراں میں ملازمت کرتے ہیں اور کھانا تقسیم کر رہے ہیں !یہ تصویر Associated Press کے فوٹوگرافر Shawn Thew نے لی تھی۔

تیسری تصویر  Mathew Healey نے Getty Images کے لئے لی تھی۔تصویر2013 کی ہے جب اوبامہ اپنی اہلیہ اور بچوں کے ساتھ دس دن کی چھٹی پر گئے تھے اور ایک فوڈ بار میں انہوں نے کھانے کے لئے قیام کیا تھا۔

اس طرح اوبامہ کی تصویروں کا سچ وہ نہیں ہے جو لوگوں نے سوشل میڈیا میں پیش کیا۔ دفتر صدارت چھوڑنے کے بعد فی الحال اوبامہ netflix  کے ساتھ فلم پروڈکشن میں تعاون کررہے ہیں، وہ کسی ریستوراں میں کھانا سرو نہیں کرتے ہیں۔

اسی سال جون کے مہینے میں سابق صدر جمہوریہ پرنب مکھرجی آر ایس ایس کی سالانہ تقریب میں شرکت کرنے پہنچے تھے۔ اس دوران آر ایس ایس کے جلسے کے بعد سوشل میڈیا میں کچھ ایسی جھوٹی خبروں نے جگہ پائی تھی جو آر ایس ایس کی حمایت میں تھیں اور جن سے  یہ تاثرات ظاہر کرنے کی کوشش کی گئی تھی کہ پرنب مکھرجی کانگریسی ہونے کے باوجود بھی  سنگھ اور اس کے ایجنڈے کے پرزور حمایتی ہیں۔سابق صدر پرنب مکھرجی کے حوالے سے فیک نیوز کا سلسلہ ابھی تک بدستور بنا  ہے اور اس بار فیک نیوز کی اشاعت  دی اکنامک ٹائمز جیسے ذمہ دار  پلیٹ فارم سے ہوئی ہے۔

31 اگست کو دی اکنامک ٹائمز نے ایک خبر شائع کی جس میں انہوں نے دعویٰ کیا کہ؛

  • پرنب مکھرجی کی تنظیم دی پرنب مکھرجی فاؤنڈیشن آر ایس ایس کے ساتھ ان کے مشن میں تعاون کر سکتی ہے۔
  • سابق صدر ہریانہ میں دی پرنب مکھرجی فاؤنڈیشن  کے جانب سے فلاحی پروگراموں کی شروعات کریں گے۔
  • پرنب مکھرجی اپنی تنظیم کے کچھ پروگرام کی افتتاح کے لئے ہریانہ کے چیف منسٹر منوہر لال کھٹر کے ساتھ اسٹیج شیئر کریں گے۔

دی اکنامک ٹائمز کی اس خبر کو بنیاد بناکر OpIndia نے  اپنے پورٹل پر اس خبر کو بڑے دلچسپ طریقے سے شائع کیا ! اور انہوں نے تو اس مبینہ تعاون کی تفصیلات بھی اپنی خبر میں دے ڈالیں ! OpIndia  نے اپنی خبر میں اسی بات کو دوہرایا جو جون اور جولائی میں دوسری فیک نیوز میں لکھی گئی تھی اور جس میں کہا گیا تھا کہ پرنب مکھرجی  آر ایس ایس کےساتھ تعلقات بنانے میں اپنی   کانگریسی شناخت سے اوپر اٹھ گئے ہیں۔

الٹ نیوز نے اپنے انکشاف میں بتایا کہ  دی اکنامک ٹائمز کی یہ بات تو مبنی بر حقیقت ہے کہ سابق صدر ہریانہ میں دی پرنب مکھرجی فاؤنڈیشن  کی جانب سے فلاحی پروگراموں کی شروعات کریں گے اور پروگرام کی افتتاح کے لئے ہریانہ کے چیف منسٹر منوہر لال کھٹر کے ساتھ اسٹیج شیئر کریں  گے۔ لیکن یہ دعویٰ بالکل جھوٹا ہے کہ  پرنب مکھرجی کی تنظیم دی پرنب مکھرجی فاؤنڈیشن آر ایس ایس کے ساتھ ان کے مشن میں تعاون کر سکتی ہے۔

پرنب مکھرجی نے اپنے آفیشل ٹوئٹر سے اس بات کو صاف طور پر کہا کہ میڈیا کے کچھ حصو میں یہ عام کیا جا رہا ہے کہ ان کی تنظیم آر ایس ایس کے ساتھ فلاحی پروگراموں میں تعاون کرے گی۔ مکھرجی نے اپنے دفتر کےجاری کردہ Statement بھی ٹوئٹر پر شئیر کیا۔

پرنب مکھرجی  کے دفتر سے جاری کردہ Statement سے یہ بات پانی کی طرح صاف ہو جاتی ہے کہ آر ایس ایس سے مبینہ  تعاون کی خبریں جھوٹی ہیں۔ اس کے بعد OpIndia نے اپنے آرٹیکل کو تبدیل کیا لیکن دی اکنامک ٹائمز نے اپنی خبر میں کوئی تبدیلی نہیں کی ہے اور نہ ہی معافی مانگی ہے !