خبریں

وزیر اعظم کی بوہرہ مسلمانوں سے ملاقات : بوہرہ کمیونٹی کے خلاف عام مسلمانوں کا غصہ کتنا جائز ہے ؟

 چاہے صوفی ملیں یا علما ئے دیوبند یا بوہرہ مذہبی رہنما-آپ کو سوال اٹھانا ہے، اٹھائیے، مگر کسی فرقہ کو اس بات پر‘غیر’یاFifth Columnistکی طرح دیکھنا، آپ کی فرقہ واریت کو مترشح کرتا ہے۔یہ دکھاتا ہے کہ کس طرح درون قوم،اکثریت کا اپنی اقلیتوں کے لیےمتعصب نظریہ ہے۔

فوٹو: سوشل میڈیا

فوٹو: سوشل میڈیا

وزیر اعظم نریندر مودی نے جمعہ کواندورکی سیفی مسجد میں محرم کے موقعہ پر منعقد عشرہ میں شرکت کی اور وہاں موجودداؤدی بوہرہ  کے افراد کو خطاب کیا۔بوہرہ کمیونٹی کے روحانی پیشوا سیدنا مفضل سیف الدین کی موجودگی میں وزیر اعظم نے اپنی تقریر کے دوران،بوہرہ فرقہ کے تعمیری جذبہ کی کھل کر تعریف کی۔مودی کے اس پروگرام میں شریک ہونے پر سوشل میڈیا پر کافی چہ می گوئیاں ہوئیں۔

مدھیہ پردیش کےمغربی حصہ میں بوہرہ فرقے کی قابل لحاظ آبادی ہے۔اندوراوربرہانپورکے علاوہ رتلام، مندسور، شاجاپورجیسےکئی اضلاع ہیں جہاں بوہرہ فرقہ آباد ہے۔ چوں کہ مدھیہ پردیش میں صوبائی انتخابات ہونے والے ہیں، وزیر اعظم کی اندور آمد کو سیاسی نظریہ سے بھی دیکھا جا رہا ہے۔

مگر اس پروگرام سے متعلق ایک اور بات یہ رہی کہ سوشل میڈیا پر کئی جگہ مسلم نوجوان،اس کو لے کربوہرہ فرقہ سے ناراض نظر آئے۔وہاٹس ایپ گروپس میں اس پروگرام کو لے کر بوہرہ فرقہ کو ہی تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔عالم یہ تھا کہ کئی لوگوں نے اس ملاقات کو اسلام دشمنی سے تعبیر کر دیا۔

جبکہ اس سے پہلے بھی علما ء کی ملاقات وزیر اعظم سے ہوئی-خود بڑے بڑے مذہبی علماء  وزیر اعظم سے ملنے گئے۔ تب تنقید ہوئی مگر اس طرح چراغ پا ہونے کا کیا مطلب ہے؟اگر سیاسی یا انصاف کی بنیاد پر مخالفت کرنی ہے تو پھر تنقید کا پیمانہ ایک ہونا چاہیئے-پھر چاہے صوفی ملیں یا علما ئے دیوبند یا بوہرہ مذہبی رہنما- آپ کو سوال اٹھانا ہے، اٹھایئے، مگر کسی فرقہ کو اس بات پر ‘غیر’ یا ‘ففتھ کالمنسٹ’کی طرح دیکھنا، آپکی فرقہ واریت کو مترشح کرتا ہے۔ یہ دکھاتا ہے کہ کس طرح درون قوم، اکثریت کا اپنی اقلیتوں کے لیئے کیا نظریہ ہے۔

فائل فوٹو : پی ٹی آئی

فائل فوٹو : پی ٹی آئی

اسلامی دنیا میں مودی درجنوں ملکوں میں گئے، وہاں مسجدوں میں استقبال ہوا۔ مسلم رہنماؤں کے ساتھ سیلفی لی گئیں۔گجرات فساد کے داغ کے باوجود کس مسلم ملک نے صدائے احتجاج بلند کی-ملک کے اندر، علما بڑے بڑے وفد لے کرگئے اور نریندر مودی سے ملے، تصویریں کھنچیں  اور چھپیں بھیں۔تب کیا انکے عقائد کی وجہ سے وہ سب’الگ’ ہو گئے-تعصب کا پہلو صاف نظر آنے لگتا ہے جب آپ ایسے موقع پر اپنے مذہب کے ایک پورے  فرقے پر سوال اٹھا دیتے ہیں۔آپ کو وہ غیر نظر آتا ہے جبکہ ‘مین اسٹریم’ مسلمان رہنما سالہا سال تک کسی بھی پارٹی  سے ساز باز کریں، اس سے ان کے  مذہبی اعتقادپر سوال نہیں کھڑا کیا جاتا۔مگر ایسے موقعہ پر آپ کے اندر پہلے سے موجود فرقہ واریت کا جذبہ باہر آ جاتا ہے۔

اندور میں بوہرہ مسجد میں نریندر مودی کی تقریر کے کئی پہلو ہو سکتے ہیں۔ ویسے بھی مودی کی بوہرہ لیڈر شپ سے رشتے اچھے رہے ہیں۔ یہ ایک امیج بلڈنگ ایکسرسائز تو ہے ہی۔ بی جے پی کی ایک کوشش یہ بھی ہے کہ اگلے پارلیامانی الیکشن سے قبل ہر’سماج’ کو ٹارگیٹ ووٹر بنانے کیے لیے کام کیا جائے، خواہ اس کی آبادی چند لاکھ میں ہی کیوں نہ ہو۔

فوٹو : سوشل میڈیا

فوٹو : سوشل میڈیا

اس کے ساتھ ہی دائیں بازوں کے ‘تھنک ٹینک’اس کوشش میں ہیں کہ کس طرح مسلمانوں کے آپسی اختلافات کو بڑھاوا دیا جائے تا کہ اس سےمسلمانوں کی ووٹ کی طاقت کمزور ہو جائے۔ افسوس اس بات کا ہے کہ ایک طرف مسلمان ملک میں دائیں  بازوں  کی اکثریت والی سیاست کے خلاف کھڑا ہوتا ہے،تو دوسری طرف اپنے ہی اقلیتی فرقوں کی طرف اس کا رویہ سخت ہو جاتا ہے، نہ صرف پرکھنے کے پیمانے پربلکہ پورے فرقے کے ‘اپنے’ یا ‘غیر’ ہونے کے فیصلے صادر کر دینا کسی لحاظ سے صحیح نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔

بی جے پی کی طرح کانگریس پر بھی فسادات کے داغ ہیں اور دوسری پارٹیاں بھی نفرت کی سیاست میں شامل رہی ہیں۔ اس سب کی مخالفت ضروری ہے۔ ہر دور میں مختلف فرقوں ، جماعتوں اور برادریوں کے لیڈراپنے سیاسی رشتہ بنائے رکھنے کے لئے کوشاں رہے ہیں اوررہیں گے۔سیاست ہمیشہ رہے گی تنقید بھی ہونی چاہیئے۔ مگراس میں فرقہ واریت غالب نہیں آنی چاہیئے۔