خبریں

سماجی کارکنوں کی نظر بندی 19ستمبر تک برقرار،مرکز نے عدالت کی’دخل اندازی‘پر اٹھایا سوال

مرکزی حکومت نے عدالت کی دخل اندازی اور شنوائی کی مخالفت کی ہے ۔مرکزی حکومت کا کہنا ہے کہ نکسل ازم ایک سنگین مسئلہ ہے جو پورے ملک میں پھیل رہا ہے۔اگر اس طرح کی عرضی پر شنوائی ہوگی تو یہ ایک خطرناک مثال بن جائے گی ۔

ماؤوادیوں سے مبینہ تعلقات کو لےکر نظربند کئے گئے شاعر وراورا راؤ، سماجی کارکن اور وکیل ارون فریرا، وکیل سدھا بھاردواج، گوتم نولکھا، ورنن گونجالوس۔ (بائیں سے دائیں)

ماؤوادیوں سے مبینہ تعلقات کو لےکر نظربند کئے گئے شاعر وراورا راؤ، سماجی کارکن اور وکیل ارون فریرا، وکیل سدھا بھاردواج، گوتم نولکھا، ورنن گونجالوس۔ (بائیں سے دائیں)

نئی دہلی :سپریم کورٹ نےبھیما کورے گاؤں تشدد معاملے میں سماجی کارکنوں کی نظر بندی کی مدت ایک بار پھر سے بڑھا دی ہے ۔ اس معاملے کی اگلی سماعت اب 19ستمبر کو ہوگی۔خبررساں ایجنسی اے این آئی کے مطابق ؛مرکزی حکومت اس معاملے میں کیس ڈائری اور دوسرے ثبوت پیش کرنا چاہتی ہے ۔شنوائی کے دوران مرکزی حکومت نے مؤرخ رومیلا تھاپر کی عرضی کی مخالفت کی ہے ۔

مہاراشٹر حکومت پہلے ہی اس معاملے میں ایس آئی ٹی کی مخالف کر رہی ہے ۔سماجی کارکنوں کے وکیل ابھیشیک منو سنگھوی نے سپریم کورٹ میں کہا کہ ان میں سے کوئی بھی ملزم الگار پریشد کی تقریب میں موجود نہیں تھا اور نہ ہی ایف آئی آر میں ان میں سے کسی کا نام ہے۔منوسنگھوی نے مزید کہا کہ ورورا راؤ کے خلاف 25مقدمے تھے اور ان تمام معاملوں میں ان کو بری کیا جاچکا ہے ۔ ورنان گونجالوس 18معاملوں میں ملزم تھے اور 17معاملوں میں بری ہوچکے ہیں ۔اسی طرح ارون فریرا کو تمام 11معاملوں میں بری کیا جاچکا ہے۔

سماجی کارکنوں کی طرف سے دلیل دیتے ہوئے منوسنگھو ی نے کہا کہ ایسے کئی معاملے ہیں جن میں ایس آئی ٹی کی تشکیل ہوئی ہے یا پھر کورٹ کی نگرانی میں معاملے کی جانچ ہوئی ہے۔انہوں نے عدالت کو کچھ کاغذات سونپتے ہوئے کہا کہ اس معاملے میں بھی ایس آئی ٹی کی تشکیل ہونی چاہیے یا کم سے کم اس معاملے کی نگرانی کے لیے ایک عدالت ہونی چاہیے۔

مہاراشٹر حکومت کی پیروی کر رہے سینئر سالیسٹر وکیل تشارمہتہ نے کہا کہ گرفتار کیے گئے لوگوں نہ صرف اس معاملے میں شامل ہونے کی وجہ سے گرفتار کیا گیا ہے بلکہ یہ بھی پایا گیا ہے کہ یہ لوگ ملک کے امن و سکون کو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں۔تشار مہتہ نے رومیلا تھاپر کی عرضی کی مخالفت بھی کی ۔انہوں نے کہا جس نے یہ عرضی دائر کی ہے اس کااس معاملے سے کوئی لینا دینا نہیں ہے اور نہ ہی اس بارے میں کوئی جانکاری ہے۔مہتہ نے مزید کہا کہ ملزموں کے پاس سے ایسے کئی دستاویز ملے ہیں جوغلط ہیں۔

دریں اثنا اس معاملے میں مرکزی حکومت نے عدالت کی دخل اندازی اور شنوائی کی مخالفت کی ہے ۔مرکزی حکومت کا کہنا ہے کہ نکسل ازم ایک سنگین مسئلہ ہے جو پورے ملک میں پھیل رہا ہے۔اگر اس طرح کی عرضی پر شنوائی ہوگی تو یہ ایک خطرناک مثال بن جائے گی ۔

مرکزی حکومت کی طرف سے یہ بھی کہا گیا ہے کہ کیا متعلقہ عدالت اس معاملے کو نہیں دیکھ سکتی ۔ہر معاملہ سپریم کورٹ میں کیوں آتا ہے۔یہ کام نچلی عدالت کا ہے اور یہ قانونی دائرے میں ہونا چاہیے۔کیا اس سے یہ پیغام نہیں دیا جارہا ہے کہ نچلی عدالت ایسے معاملوں میں فیصلہ کرنے کی اہلیت نہیں رکھتی ۔مہتہ نے کہا کہ پولیس کے پاس ان سماجی کارکنوں کے خلاف ثبوت ہیں ۔پولیس کو ان کے لیپ ٹاپ ،ہارڈ ڈسک وغیرہ سے کافی ثبوت ملے ہیں ۔

سپریم کورٹ نے اس معاملے میں کہا کہ غیر جانبدارانہ جانچ کا مسئلہ بعد میں آئے گا۔چیف جسٹس دیپک مشرا نےواضح کیا  کہ اس معاملے میں ہم کسی انتہا پسندی(extreme propagation) کا مظاہرہ نہیں کر رہے ہیں بلکہ ہمار مقصد یہ ہے کہ ہم اس چیز کو یقینی بنائیں کہ زیر سماعت معاملہ میں سی آر پی سی اور آئین کی دفعہ 32کا خیال رکھا جارہا ہے یا نہیں۔

منوسنگھوی نے شنوائی کے دوران یہ بھی کہا کہ پولیس کو اس نظم پر اعتراض ہے کہ

‘جب ظلم ہوتو بغاوت ہونی چاہیے شہر ہیں

اگر بغاوت نہ ہوتو صبح ہونے سے پہلے یہ شہر خاک ہونا چاہیے۔

غورطلب ہے کہ سپریم کورٹ نے اس معاملے میں یہ بھی کہا کہ اگر حکومت اور پولیس کے دعوے میں کسی طرح کی خامی پائی جاتی ہے تو کورٹ ایس آئی ٹی جانچ کا حکم بھی دے سکتی ہے۔