فکر و نظر

سنگھ کے ڈائیلاگ کا سبب : کچھ تو ہے، جس کی پردہ داری ہے

بات چیت کی غلط فہمی پیدا کر کے بہت کچھ حاصل کرنے کی خواہش رکھنے والے سنگھ کی سب سے بڑی مشکل یہ ہے کہ وہ اپنے گھر کا دروازہ چوڑا اور اونچا کرنے کو تیار نہیں ہے۔

موہن بھاگوت (فوٹو : پی ٹی آئی)

موہن بھاگوت (فوٹو : پی ٹی آئی)

آج کی تاریخ میں یہ ایک کھلی ہوئی حقیقت ہے کہ خود کو ‘مہذب ‘کہنے والے راشٹریہ سویم سیوک سنگھ نے اپنے سویم سیوک کی معرفت نہ صرف مرکز اور ریاستوں سمیت ملک کی زیادہ تر حکومتوں کی قیادت بلکہ اعلیٰ آئینی عہدوں پر بھی قبضہ کر لیا ہے۔لیکن اس کی عدم تحفظ کی گانٹھ ہے کہ اس کو پھر بھی راحت نہیں لینے دے رہی اوروہ  اچانک یہ محسوس کرانے پر اتر آئی ہے کہ اس کے بارے میں غلط فہمیاں بڑھتی جا رہی ہیں اور ان سے نجات پانے کے لئے اس کو ہندوستان کے مستقبل کے بارے میں اپنے نقطہ نظر کو نئے سرے سے بتانے اورمشتہر کرنے کی ضرورت ہے۔

ان کی اس بات  کا استقبال کیا جا سکتا تھا، بشرطیکہ اپنی صدسالہ یوم پیدائش  سے محض 6سال دور کھڑی’دنیا کی سب سے بڑی’تنظیم کے طور پر وہ ایسا کوئی اشارہ دیتی کہ جس سے’ہندو راشٹر’کا قیام اس کا اعلانیہ ہدف ہے، اس کے لئے جمہوری‎ ہندوستان سے کبھی براہ راست تو کبھی خفیہ دشمنی برتنے سے پرہیز برتنے کے لئے سوچے‌گا۔

ثقافتی تنظیم کے چولے میں سیاست کرنے کا ‘ نہورے-نہورے ‘اونٹ چرانے یا دھان کوٹنے اور کانکھ ڈھکنے کا اس کا کھیل واقعی کچھ زیادہ دلچسپ ہو جاتا اگر وہ دلتوں، پچھڑوں، خواتین اور اقلیتوں کو ‘منواسمرتی’کی دلیل سے دوسرے درجے کا شہری ماننے کے اپنے بانی ڈاکٹر  کیشو بلرام ہیڈگیوار اور ‘گرو جی’ یعنی مادھو سداشیو گولولکر کی روایتی سوچ کے دائروں سے تھوڑا بھی باہر نکل جاتی۔لیکن راجدھانی میں سنگھ کا نقطہ نظر بتانے کے نام پر تین روزہ ‘ڈائیلاگ’میں سرسنگھ چالک موہن بھاگوت جس طرح اس کے پرانے رویے کی ہی تائید کرتے نظر آئے، اس سے ایسے کسی اشارے کی راہ ایک دم سے بند ہو گئی لگتی ہے۔

چونکہ سنگھ میں جمہوری‎ ڈائیلاگ اور سوال و جواب کی روایت ایک دم سے رہی ہی نہیں ہے، وہ تو ملک کی جمہوریت کا اس پر کچھ ایسا دباؤ ہے کہ اس کو خود کو جمہوریت پسند اور ڈائیلاگ کار بتانے کو مجبور ہونا پڑا ہے،اس لئے  انبھیاسے وشم شاسترم کو سچ ثابت کرتے ہوئے ان کا یہ ڈائیلاگ بھی ان کے کثیر جہتی تشہیر’دانشوروں ‘کی سطح سے اوپر نہیں اٹھ پایا۔گزشتہ 8ستمبر کو شکاگو میں عالمی ہندو کانگریس کے خطاب میں اقلیتوں کو نیچا دکھانے کے ناپاک مقصدسے ہندوؤں کو شیر اور ہندو مخالفین کو جنگلی کتا کہہ آئے بھاگوت نے اس ڈائیلاگ میں ملک کے تنوع میں جانبداری نہ کرنے کی بات کہی، توبھی یاد دلانا نہیں بھولے کہ ڈاکٹر ہیڈگیوار نے ہندوستان کو ‘ ہندو راشٹر’ہی بتایا تھا۔ان کے ذریعے مسلمانوں کے بغیر ہندو توا کو ادھورا بتاکر یہ صفائی دینا بھی کہ ہندوراشٹر کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہندوستان میں مسلمان ہونے ہی نہیں چاہیے، اس کڑوی سچائی کو چھپانے کی  شُعبدہ بازی کے سوا کچھ نہیں ہے کہ اس کا مطلوبہ ہندو ملک کبھی بنا تو اس میں مسلمان تو کیا سارے غیرہندو’محدود وقت تک اور بنا کسی حق کے ‘ رہیں‌گے۔

گرو گولولکر کے الفاظ میں’ہندوستان میں راشٹر کا مطلب ہندو ہے،غیر ہندو اس میں رہ سکتے ہیں، لیکن محدود وقت تک اور بنا کسی حق کے ، ان کے سامنے دو ہی اختیار ہیں-یا تو وہ قومی برادری  کے ساتھ مل جائیں اور اس کی تہذیب اپنا لیں یا جب تک وہ اجازت دے، اس کے رحم وکرم پر رہیں اور جب کہیں  ملک چھوڑ‌کر چلے جائیں۔  ان کو ہندو ذات میں مل‌کر اپنا آزاد وجود گنوانا ہوگا یا ہندو ملک کی غلامی کرتے ہوئے بنا کوئی مانگ کئے…یہاں تک کہ بنا شہریت کے حق کے رہنا ہوگا۔  ‘کوئی تو بتائے کہ سنگھ کے گرو کی اس ‘دو ٹوک ‘کے بعد ڈائیلاگ کی معرفت اس کے بارے میں اور کیا جاننا باقی رہتا ہے؟

کچھ نہیں، تبھی تو اس کے اندر کی تاناشاہی بھری نسل پرست اور غیرجمہوری ڈھانچے پر (جس کی وجہ سے اس کا ہر سرسنگھ چالک اپنے قائم مقام کا نام دے جاتا ہے اور جو اب تک ایک کو چھوڑ‌کے چتپاون براہمن ہی ہوتا آیا ہے)سوال اٹھنے پر بھاگوت نے جواب دیا-‘سنگھ کے اندر آکر دیکھو، تب اس کی اصلیت کاپتا چلے‌گا ‘، تو کئی لوگوں کو شاعر ہری ونش رائے بچن کی ‘مدھوشالہ ‘ کی لائنیں یاد آ گئیں:’بنا پیے جو مدھوشالہ کو برا کہے وہ متوالا، پی لینے پر تو اس کا منھ پر پڑ جائے‌گا تالا ‘اور وہ پوچھنے لگے کہ اگر انہی لائنوں کی طرز پر بھاگوت د اس اور باغیوں دونوں میں سنگھ کی جیت کا اعلان کرنا چاہتے ہیں تو یہ تو لوگ پہلے سے ہی جانتے اور مانتے آ رہے ہیں کہ سنگھ میں جن اندھے پن کی تقلید کی جاتی ہے، ایک بار عادت لگ جانے پر ان سے آزادی ممکن نہیں رہ جاتی۔

کیونکہ’ موندہو آنکھی کتہوں کچھو ناہیں’کی سوچ اس سے متاثرین  کو، اور تو اور، اپنے آگے پیچھے اور آس پاس بھی کچھ قابل تقلید نہیں دیکھنے دیتا۔اس کا سب سے بڑا ثبوت خواتین کے لئے سنگھ کے دروازے بند ہونے کو لےکرپوچھے گئے ایک سوال کا خود بھاگوت کے ذریعے ڈاکٹرہیڈگیوار کے حوالے سے دیا گیا یہ جواب ہے کہ اس دور میں (یعنی 1925 میں، جب سنگھ کی بنیاد رکھی گئی)خواتین اور مردوں کے ایک ساتھ کام کرنے کا ماحول ہی نہیں تھا اور جب تک یہ نہیں لگے‌گا کہ ایسا ماحول بن گیا ہے کہ بدلنا چاہیے، سب کچھ ایسے ہی چلے‌گا۔

اب اس کو المیہ نہیں تو اور کیا کہیں کہ نہ سنگھ کے قیام کے وقت ڈاکٹرہیڈگیواریہ دیکھ سکے کہ درگاوتی دیوی،ساتھی بھگوتی چرن ووہرا کی شریک حیات ہونے کی وجہ سے انقلابی جن کو درگا بھابھی کہا کرتے تھے، بیٹے شچیندر کو گود میں اٹھائے ہندوستان ریپبلکن آرمی اور ہندوستان سوشلسٹ ریپبلکن ایسوسی ایشن/ آرمی میں مردوں کے کندھے سے کندھا ملاکر آزادی کے لئے انقلابی آپریشن میں حصہ لے رہی ہیں اور نہ ابھی، جب ملک کی خواتین نے شاید ہی کسی شعبے میں پدریت کے چونچلے کی پول کھولنے میں کوئی کسر باقی رکھی ہو، بھاگوت کو ہی سنگھ میں موجود مردوخاتون امیتازات  میں کچھ غلط دکھائی دیتا ہے۔جانے کس کا انتظار کر رہے ہیں وہ، جو آکر ان کو مطمئن کرے کہ اب ملک اتنا بدل گیا ہے کہ مرد اور خواتین ایک ساتھ کام کر سکتے ہیں اور تب وہ سنگھ اور راشٹر سیویکا سمیتی کے درمیان آمد ورفت کی سوچیں!

پتہ نہیں، اس کے باوجود کیسے وہ کہتے ہیں کہ سنگھ کے کاموں کی وجہ سے اس کی طاقت خاصی بڑھ گئی ہے۔ان کا یہ قول تو اس کی کمزوری کی ہی گواہی دیتا ہے۔ طاقت اور ساتھ ہی خواہش ہوتی تو وہ خواتین اور مردوں کے ایک ساتھ کام کرنے کے لئے ماحول موافق ہونے کا انتظار کرتایا اس کو موافق بنانے میں لگ جاتا؟ابھی تک تو اس کی جو طاقت ہے بھی، وہ اس کی فطری خواہش کا ایسا ماحول بنانے میں ضائع ہوئی جا رہی ہے، جس میں گوڈا کے بی جے پی رکن پارلیامان نشی کانت دوبے ایک پارٹی کارکن کے ذریعے ان کا پیر دھوکر پینے سے اتنے مرعوب  ہو جاتے  کہ  اس کو کرشن اور سداما کی کہانیوں سے جوڑنے لگ جاتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ سنگھ کی’لامحدود توسیع’کی تمام کوششوں  کے باوجود دنیا بھر میں ایسی ایک بھی بڑی شخصیت نہیں ہے، جو سنگھ سے باہر کی ہو اور اس کی تعریف کرتی ہو۔

جہاں تک بھاگوت کے ذریعے آزادی کی لڑائی میں کانگریس کے بڑےکردار کو’ قبول کر لینے’کی بات کہی جا رہی ہے، اس میں کوئی تعجب کی بات اس لئے نہیں ہے کہ سنگھ کا جمہوری‎ قدروں کے لئے جدو جہد کرنے یا ان میں حصہ لینے کی کوئی تاریخ نہیں رہی ہے۔  نہ آزادی سے پہلے کی اور نہ ہی بعد کی۔اسی لئے اس کو اتنے سال بعد یہ’تصدیق’کرنا پڑ رہا ہے کہ ڈاکٹرہیڈگیوار نے انقلابیوں کے لئے ہتھیار جٹانے اور ان کے کردار کے بارے میں لوگوں کو بیدار کرنے کا کام کیا تھا۔تاریخ سے اس بے خبری کے سبب مہاتما گاندھی کا قتل، ایمرجنسی یا بابری مسجد کے انہدام کے بعد، جب بھی اس پر پابندی لگے، اس نے ان کے خلاف جمہوری‎ طریقے سے لڑنے کے بجائے اس وقت کی کانگریس حکومتوں کی لپّو-چپّو کرکے ہی ان کو ہٹوانے کی کوششیں کیں۔اس چکر میں اس نے اس ایمرجنسی کی حمایت سے بھی پرہیز نہیں کیا تھا، جس کے خلاف اس کے سویم سیوک آج کل بےوجہ بھی گرجتے رہتے ہیں۔

آئی بی کے چیف رہے ٹی وی راجیشور نے اپنی کتاب ‘دی کروشیل ایئرس’میں لکھا ہے کہ اس کے سابق سرسنگھ چالک بالاصاحب دیورس ایمرجنسی کی حمایت میں تھے اور اس کو جتانے کے لئے اندرا گاندھی اور سنجے گاندھی سے ملنا چاہتے تھے لیکن نہ اندرا گاندھی اور نہ ہی سنجے نے اس ملاقات کی اجازت دی تھی کیونکہ ان کو ڈر تھا کہ اس سے غلط سیاسی پیغام جائے‌گا۔دوسرے پہلو سے دیکھیں تو سچائی یہ ہے کہ سنگھ جان بوجھ کر ایسے غلط سیاسی پیغامات پر منحصر کرتا رہا ہے۔آج وہ جس وضاحت اور شفافیت کے لئے پریشان ہے،ان دونوں سے اس کو ہمیشہ ایک قسم کی الرجی رہی ہے۔ اس کا بار بار یہ کہنا بھی کہ اس الرجی کے تحت ہی ہے کہ نہ وہ سیاسی تنظیم ہے اور نہ اس کے ہر کام کو بی جے پی سے جوڑ‌کر دیکھا جانا چاہیے۔اسی کے تحت اس نے اکثر ہر انتخاب سے پہلے آنے والی ان خبروں کی کبھی تردید نہیں کی، جن میں اس کے ہزاروں کارکنان کی بی جے پی کے اپوزیشن میں کود پڑنے کا دعویٰ کیا جاتا رہا ہے۔

اب جب بی جے پی بھی اس کی اس کامیابی پر پاگل ہوتی نہیں تھکتی کہ صدر، نائب صدر اور وزیر اعظم سمیت ملک کے تینوں اعلیٰ عہدوں پر سویم سیوک کو بٹھا دیا گیا ہے، اس کے کئی سویم سیوک سرعام سیاست کرتے ہوئے وزیر کے عہدوں کا لطف لے رہے ہیں اور بھاگوت ان کا بچاؤ کرتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ سویم سیوک سنگھ سے صرف سوچ لیتے ہیں اور اپنے شعبے میں کیا کرنا ہے، اس کا فیصلہ خود کرتے ہیں، توبھی اس میں وضاحت اور شفافیت کا حال ایسا ہے کہ اس ‘ڈائیلاگ’میں اپنے کئی مخالفین کو مدعو کرنے کےاعلان کے بعد اس نے مہمانوں کی فہرست تک عام نہیں کی ہے۔ویسے بھی’ ورک ٹوگیدر سیپریٹلی’کی پرانی دلیل سنگھ کے بہت کام آتا رہا ہے۔  اسی کی بنیاد پر وہ اپنے کسی بھی سویم سیوک کے کئے-دھرے کی ذمہ داری لینے سے صاف کنی کاٹ جاتا رہا ہے۔  گئورکشا کے نام پر دنگا فساد اور قتل میں اپنی ضمنی تنظیموں کے کارکنان کے ملوث ہونے پر شرم بھی وہ اسی دلیل سے محسوس نہیں کرتی۔

اب کئی لوگ اس کو پراسراریت کی جس گرد سے باہر آنے کو بےقرار بتا رہے ہیں، وہ بھی اسی لئے پھیلی ہے کہ اب تک وہ اس کو اپنے گول میں معاون مانتا رہا ہے۔  اس بابت اس کا لوہا مانتے ہوئے اتر پردیش کے سابق وزیراعلیٰ اکھلیش یادو نے گزشتہ دنوں ٹھیک ہی کہا کہ 2017 کے لوک سبھا انتخاب میں بی جے پی کی آڑ میں ان کا اصلی مقابلہ سنگھ سے ہی ہوگا، جو یوں تو کہیں نظر نہیں آتا تھا، پس پردہ وار پر وار کرتا جاتا تھا۔

بی جے پی کو کام آنے والے تمام پروپیگنڈااس نے ہی کئے۔  ایسے میں کیا تعجب کہ کئی لوگوں کی نگاہ میں سنگھ کے اس ڈائیلاگ کا اتناہی مطلب ہے کہ اب جب اس نے بی جے پی کی معرفت خود پس پردہ رہتے ہوئے اپنے کئی سیاسی ہدف حاصل کرلیے ہیں، اس کا کھلے میں آنے کا من ہو رہا ہے۔  کیونکہ اب تک اس کے پاس ایک بھی ایسی مثال نہیں ہے، جس سے وہ ثابت کر سکیں کہ اس نے کبھی کسی سے ڈائیلاگ کرکے کچھ سیکھا ہے۔گزشتہ دنوں سابق صدر  پرنب مکھرجی اس کو کچھ سکھانے ناگ پور گئے تو ان کو بھاگوت نے ان کے منھ پر ہی یہ کہہ‌کر ان کو درکنار کر دیا تھا کہ سنگھ، سنگھ ہے اور پرنب، پرنب۔

ظاہر ہے کہ ڈائیلاگ کی غلط فہمی پیدا کر کے بہت کچھ حاصل کرنے کے سنگھ کی دیرینہ خواہش کے مقصد کی سب سے بڑی مشکل یہی ہے کہ وہ اپنے گھر کا دروازہ تو چوڑا اور اونچا کرنے کو تیار نہیں ہے،سونے پر سہاگہ یہ کہ  باہر نکل‌کر مخالفین میں اپنی قبولیت  کے ہاتھی پر سوار ہوکر اکڑتا ہوا گھر کے اندر آنا چاہتا ہے۔

(کرشن پرتاپ سنگھ آزاد صحافی ہیں اور فیض آباد میں رہتے ہیں۔)