ادبستان

کیا متھن چکرورتی بھی کبھی ’اربن نکسل‘ تھے؟

خواجہ احمد عباس نے انہیں نکسلی تحریک پر مبنی فلم ‘دی نکسلائٹ’ (1980) ہی آفر کر دی۔ متھن کو یہ پیشکش قبول کرنے میں ہچکچاہٹ تھی کہ اس سے ان کے ماضی کی یادیں تازہ ہو رہی تھیں۔ انہیں وہ دن یاد آ رہے تھے کہ کیسے ہمیشہ ایک دوڑ سی لگی رہتی تھی۔

رشید قدوائی کی تازہ ترین کتاب نیتا ابھینیتا

رشید قدوائی کی تازہ ترین کتاب نیتا ابھینیتا

اداکار متھن چکرورتی اپنی حقیقی زندگی میں کبھی اربن نکسل تھے۔ وہی ‘اربن نکسل’ جن کا ان دنوں چرچہ چل رہا ہے۔ بائیں بازو کی فکر سے وابستہ لوگوں کے لیے دائیں بازو والے اس لفظ کا استعمال کر رہے ہیں۔ بی جے پی  اور سنگھ پریوار کے حمایتیوں کا ماننا ہے کہ اربن نکسلس کی موجودگی ملک کی سالمیت کے لیے خطرہ ہے۔ ان کا اصرار ہے کہ یہ کوئی خام خیالی نہیں جیسا کہ لبرل لیفٹسٹ کہہ رہے ہیں، بلکہ حقیقت ہے۔

16 جولائی 1950 کو ایک لوور مڈل کلاس بنگالی گھر میں پیدا ہوئے متھن کا نام ‘گورنگ’ تھا، بعد میں انہوں نے اپنی پسند کا نام متھن اختیار کیا۔ دیگر بنگالی نوجوانوں کی طرح ہی 1960 کے آخر تک آتے آتے وہ شدت پسند نکسلی تحریک سے وابستہ ہوگئے۔ اپنے بھائی کی حادثاتی موت کے بعد ان کے خیالات میں تبدیلی آنا شروع ہوئی اور وہ محسوس کرنے لگے کہ مسلح جدوجہد سے ایک مثالی معاشرے کی تعمیر شاید ممکن نہیں ہے۔ نکسلیوں کے خلاف مغربی  بنگال پولیس کی کارروائی کے دوران انہیں تھوڑے وقت کے لیے روپوش ہونا پڑا۔

 پونہ کے فلم اینڈ ٹیلی ویژن انسٹی ٹیوٹ آف انڈیا میں داخلے کے بعد ہی وہ اپنے ماضی کے اس ہولناک سیاسی آسیب سے پیچھا چھڑا سکے۔ صحافی علی پیٹر جان سے بات کرتے ہوئے متھن چکرورتی یاد کرتے ہیں کہ کیسے بمبئی پہنچنے سے پہلے ان کا نام بمبئی پہنچ چکا تھا۔

فلم انڈسٹری اور باہر کے لوگ، سبھی میرے ماضی اور کلکتہ میں نکسلی تحریک سے وابستگی نیز نکسلیوں کے شدت پسند لیڈر چارو مجمدار سے میری قربت کے بارے میں جانتے تھے۔ گھر میں ایک دردناک حادثے کے بعد میں نے تحریک سے علیحدگی اختیار کر لی تھی، لیکن جہاں بھی میں جاتا، نکسلی ہونے کا لیبل بھی وہاں میرے ساتھ ہی جاتا تھا۔ چاہے وہ ایف ٹی ٹی آئی پونہ ہو یا بمبئی، جہاں میں ستر کے دہے کے آخر میں آیا۔

بمبئی پہنچ کر متھن نے پردہ سیمیں کے لیے اپنا نیا نام رانا ریز منتخب کیا اور کام کے سلسلے میں مشہور ادیب و فلم کار خواجہ احمد عباس سے ملاقات کی۔ اتفاق سے خواجہ احمد عباس نے انہیں نکسلی تحریک پر مبنی فلم ‘دی نکسلائٹ’ (1980) ہی آفر کر دی۔ متھن کو یہ پیشکش قبول کرنے میں ہچکچاہٹ تھی کہ اس سے ان کے ماضی کی یادیں تازہ ہو رہی تھیں۔ انہیں وہ دن یاد آ رہے تھے کہ کیسے ہمیشہ ایک دوڑ سی لگی رہتی تھی۔ جان سے انہوں نے کہا، ‘لیکن عباس صاحب کی شہرت نے مجھے مجبور کیا کہ میں یہ فلم کر لوں۔ میری خواہش اداکار سے زیادہ بطور ڈانسر یا فائیٹر اسٹیبلش ہونے کی تھی، لیکن عباس صاحب کی ہدایت کاری میں نکسلائٹ کا رول کرنے جیسی پیشکش نے مجھے یہ چیلنج قبول کرنے پر مجبور کر دیا۔’

متھن کے مطابق ‘دی نکسلائٹ’ ان کے کیریر کی یادگار فلم رہی۔ آغاز میں ہی انہیں عباس صاحب جیسی نامور ہستی کے ساتھ کام کرنے کا موقعہ مل رہا تھا، یہ سوچ کر ہی وہ بہت اُتساہِت رہتے تھے۔ ‘ایف ٹی آئی آئی میں میں نے ان کے بارے میں کافی کچھ سنا تھا۔ مجھے پتہ تھا کہ انہوں نے کچھ بہت اچھی فلمیں لکھیں، جنہیں راج کپور نے بنایا ہے۔ ساتھ ہی وہ خود بھی فلمیں بناتے ہیں جو ممبئی میں بننے والی مسالہ فلموں سے کافی الگ ہوتی ہیں۔’ ایک دیگر انٹرویو میں یہ باتیں کہتے ہوئے متھن نے جوڑا، ‘یہ ایک بے جد متاثرکن تجربہ تھا۔ ایک ایسے شخص کے رابطے میں رہنا جو سادگی پسند ہونے کے ساتھ زندگی کی اعلیٰ اقدار پر یقین رکھتا تھا۔ ساتھ ہی ان کا بطور مصنف و فلم کار بھی کام کرنے کا اپنا سادگی بھرا طریقہ تھا۔’

فلم کے لیے عباس کے پاس واضح نظر تھی اور وہ مصر تھے کہ متھن کی تڑک بھڑک ان کے کردار سے مطابقت نہیں رکھتی۔ انہوں نے اپنے اداکار کو یہ بھی سمجھا دیا تھا کہ اسے الگ سے کوئی میک اپ مین یا ہیئر ڈریسر نہیں ملنے والا، نہ ہی آنے جانے کا الگ سے کوئی بھتہ دیا جائے گا۔ یہاں تک کہ عباس تو چاہتے تھے کہ فلم کی شوٹنگ کے لیے بمبئی سے کلکتہ آنا جانا بھی متھن سیکنڈ کلاس یا تھرڈ کلاس کے ڈبے میں کریں۔د ی نکسلائٹ باکس آفس پر کچھ خاص نہ کر پائی، حالانکہ اس نے ایک سیاسی تحریک کی روح ضرور پیش کر دی۔ 1976 میں ریلیز ہونے والی ‘مرگیہ’ اصل میں وہ فلم تھی جس نے بطور اداکار متھن کو پہچان دلائی۔

اس کے برسوں بعد ایک کریمیٹوریم سیاست میں کسی کے قدم رکھنے کا مقام بن گیا۔ بنگال کی مقبولِ عام اداکارہ سُچِترا سین کی آخری رسومات میں شرکت کے لیے متھن کلکتہ میں موجود تھے۔ کہا جاتا ہے کہ کیوراٹولا کریمیٹوریم میں 17 جنوری 2014 کو ترنمول کانگریس کی چیف ممتا بنرجی نے انہیں الیکشن  لڑنے کے لیے راضی کر لیا۔ متھن کے مطابق بنرجی نے ان سے کہا، ‘امی بھے بھے  نییِچّی’ (میں نے طے کر لیا ہے)۔

فوٹو : پی ٹی آئی

فوٹو : پی ٹی آئی

ٹی ایم سی میں شامل ہونے سے پہلے متھن لیفٹ پارٹی کے ساتھ تھے، لیکن جیوتی باسو کا دور ختم ہوتے ہی انہوں نے اس سے دوری بنا لی۔ سی پی ایم کے لیڈر سبھاش چکرورتی سے بھی ان کی خاصی قربت تھی۔ 3 اگست 2009 کو چکرورتی کی موت پر وہ فلائٹ پکڑ کر سیدھے کلکتہ پہنچ گئے تھے۔ بنگال سرکار کے سکریٹریٹ رائٹرس بلڈنگ پہنچ کر انہوں نے چکرورتی کو خراج عقیدت پیش کی۔ پھر وہ ان کے آخری سفر میں بھی کیوراٹولا کریمیٹوریم تک بھیڑ کے ساتھ شامل رہے۔

مرحوم سلطان احمد جیسے ترنمول کانگریس کے لیڈران کا ماننا تھا کہ ممتا بنرجی کو متھن کے بائیں بازو لیڈران کے ساتھ تعلقات کا خیال کرنا چاہیے تھا۔ سبھاش چکرورتی سے ان کی قربت کا سب کو علم تھا۔ متھن جب بھی کلکتہ آتے چکرورتی کے گھر لنچ یا ڈنر پر ضرور جاتے۔ بدلے میں سبھاش دا کو متھن کے ہوٹلوں میں مفت خدمات دی جاتیں۔

متھن اور سبھاش کی جوڑی نے کلکتہ کے سالٹ لیک اسٹیڈیم میں سیلاب متاثرین کی امداد کے لیے 1986 میں ہوپ 86 کے نام سے رقص و موسیقی کا شو کیا۔ سی پی ایم کو مزید خوش کرنے کے لیے متھن اس لائیو پروگرام میں اپنے ساتھ امیتابھ بچن اور ریکھا کو بھی لے آئے۔ یہی نہیں بنگال کے وزیر اعلیٰ جیوتی باسو، جو متھن کے لیے جیوتی انکل تھے اور کلچرل پروگرامس میں زیادہ دلچسپی نہیں رکھتے تھے، نے بھی متھن کی دعوت قبول کی اور پروگرام میں شرکت کی۔

 سی پی ایم سرکار کے ذریعے جب بھی فنڈ جٹانے کے لیے کوئی شو کیا گیا، متھن اس میں ضرور پرفارم کرتے، وہ بھی بنا کوئی فیس لیے۔ جیوتی باسو کے بعد 2000 میں بدھ دیب بھٹا چاریہ جی کے وزیر اعلیٰ بننے تک یہ سلسلہ جاری رہا۔ پھر بائیں بازو کی پارٹی سے متھن کے تعلقات کچھ ٹھیک نہیں رہے۔ بھٹا چاریہ جی نہ صرف یہ کہ مسالہ ہندی فلموں کو کوئی توجہ نہیں دیتے تھے بلکہ انہوں نے سبھاش چکرورتی کے کئی فیصلوں و اقدام کو بر سر عام نامنظور بھی کیا۔کلکتہ کے مشہور اسکاٹش چرچ کالج سے متھن نے کیمسٹری میں ڈگری حاصل کی ہے۔ کالج کے دنوں میں انہوں نے گریکو رومن اسٹائل مکے بازی میں کئی انعامات بھی جیتے۔

صحافی اور قلمکار رشید قدوائی اوآرایف کے وزیٹنگ فیلو ہیں۔