خبریں

کیا سیاسی مہم کے تحت بھوپال کی تاریخ کو مسخ کیا جارہا ہے ؟

ایک سیاسی مہم کے تحت شہر میں مختلف مقامات کو  نئے نام دیے جا رہے ہیں۔لیکن جب ایک اخبار جو غیر جانبدار ہونے کا دعویٰ بھی کرتا ہو، ایسی غیر ذمہ دارانہ  اور مزموم حرکت کرے، تو شاید یہ عبرت کا مقام ہے۔

Bhopal

تاریخ کو مسخ کرنے اور اسے بدلنے  کی مہم تو ملک میں ایک طویل عرصہ سے جاری ہے مگر حالیہ واقعہ جس میں  سابق بھوپال ریاست کے پہلے فرمانروا دوست محمد خاں اور گونڈ رانی کملاپتی سے متعلق تاریخی حقائق کو  تبدیل کرنے کی کوشش کی گئی ہے، اس سے مدھیہ پردیش میں ایک بڑے طبقے میں بے چینی  اور غصہ ہے۔

ابھی تک یہ ہوتا تھا کہ دائیں  بازو کی تنظیمیں یا اس سے متعلق افراد نئی تھیوری گڑھ کر دھیرے دھیرے اسے آگے بڑھاتے تھے مگر اس بار معاملہ بہت ہی آگے نکل گیا۔ سب سے زیادہ افسوسناک پہلو یہ ہے کہ ایک ایسا اخبار جو ہندوستان کا سب سے بڑا  ہندی اخبار ہونے کا دعویٰ  کرتا ہے، اس نے بغیر کسی تصدیق کے اور تاریخی شواہد کو نظر انداز کرتے ہوئے، یہ خبر شائع کر دی۔

اٹھارہویں صدی کے آغاز یعنی تقریباً1720-1715کے آس پاس سردار دوست محمد خاں جو اس خطہ میں  اس سے کچھ پہلےآ چکے تھے، ان سے گونڈ رانی کملا پتی نے مدد طلب کی تھی۔  تاریخی کتابیں کہتی ہیں کہ رانی  کے شوہر نظام شاہ گونڈ کو ان کے ہی ایک رشتہ دار  نے دھوکےسےقتل کر دیا تھا۔نظام شاہ گونڈ کا رشتہ دار الم شاہ تھا  جس کے بارے میں کتابوں میں لکھا ہے کہ وہ رانی کے حسن سے متاثر تھا –دعوت پر بلانے کے بعد، اس نے نظام شاہ کو کھانے میں زہر دے دیا تھا۔ اس کے بعد رانی کملا پتی نے دوست محمد خاں کو راکھی باندھی اور دشمنوں سے مدد مانگی۔ دوست محمد خاں نے رانی کے دشمنوں کا قلع قمعہ کیا اور اپنے وعدے کو وفا کیا۔

بھوپال کا موضع جہاں اس وقت کوئی خاص آبادی نہیں تھی اور گاؤں سے مشابہ تھا، اسے رانی کملا پتی نے دوست محمد خاں کو دے دیا تھا۔ پھردوست محمد خاں کے قدم اس علاقے میں جمتے چلے گئے –وہ اس علاقے کے فرمانروا ہوئےباقاعدہ انہیں مغل بادشاہ سے دلیر جنگ کا خطاب ملا–تا  حیات رانی کملا پتی کی وہ تعظیم و تکریم کرتے رہے۔ انہوں نےاسلام نگر کو اپنا دار السلطنت بنایا اور بھوپال میں  قلعہ فتح گڑھ  کی تعمیر شروع کروائی ۔ اس کے بعد بھوپال ریاست تقریباً سوا دو سو سال تک رہی اور اس میں چار بیگمات نے حکومت کی۔

مگر دینک بھاسکر نے ایک رپورٹ میں ان تمام واقعات کو یکسر تبدیل کرتے ہوئے  یہ لکھ دیا کہ دوست محمد خان کی نظر  رانی کملاپتی  پر تھی اور اسی وجہ سے رانی نے چھوٹے تالاب میں’ جل سمادھی ‘لے لی۔تاریخ مسخ کرتے وقت یہ بھی نہیں سوچا کہ چھوٹا تالاب رانی کملا پتی اور دوست محمد خاں کے دور کے بہت بعد کا ہے۔بھوپال میں رانی کملاپتی کی مورتی کو جلد ہی نصب کیا جائےگا،اس  تعلق سے چھپی خبر میں یہ ‘نیا اتہاس’ پیش کیا گیا۔23 ستمبر کی اس خبر میں رپورٹر نے لکھا کہ دوست محمدخاں نے رانی کے بیٹے سے جنگ کی۔ایک کے بعد ایک اسی طرح کی ‘نئی تاریخ’اس خبر میں ملتی ہے، جس کا کوئی پروف بھی اخبار نہیں دے پایا۔

 رانی کا دوست محمد خاں سے مدد لینے کا واقعہ جگہ جگہ درج ہے، پھر وہ قاضی وجدی الحسینی کی تاریخ ریاست بھوپال ہو یا بھوپال گزیٹیر یا دیگر کتابیں ۔رانی ان کو اپنے بیٹے کی طرح سمجھتی تھیں، یہ بھی جگہ جگہ درج ہے۔مگر اس نئی کہانی کا ذکر کرتے ہوئے اخبار نے کوئی حوالہ نہیں دیا، کسی کتاب یا مؤرخ کا ذکر نہیں کیا۔ بلکہ حقائق ہی بدل دئے۔ اس سے پہلے یہ ہوا ہے کہ کوئ تنظیم یا ایجنڈہ کے تحت کام کرنے والے لوگ ایک نئی تھیوری لے آیئں لیکن اس کے لیے بھی کچھ زمین تیار کی جاتی ہے۔

دینک بھاسکر نے اپنی رپورٹ کی شروعات ‘بتایا جاتا ہے’ سے کی اور اس کے بعد نہ صرف کردارکشی کی بلکہ کس نے کس سے جنگ کی اور کسی ایما پر کی، یہ بھی مکمل طور پر تبدیل کر دیا۔ چالرس ایکفورڈ لورڈ اور منشی قدرت علی کے ڈسٹرکت گزیٹیر میں بھی یہ صاف لکھا ہے کہ رانی نے ان سے مدد طلب کی تھی ۔ایک اخبار جس کی اتنی زیادہ ریڈرشپ ہے وہ آخر کیسے ایک فرضی کہانی کو تاریخ کے نام سے اپنے صفحات پر جگہ دیتا ہے اور وہ بھی بغیر کسی حوالے کے۔ مدھیہ پردیش میں گزشتہ پندرہ برس سے بی جے پی کی سرکار ہے ۔سرکاری  سطح پر تو اکثر دیکھا گیا ہے کہ کس طرح نوابی دور کی تاریخ اور بڑی شخصیات کو نظر انداز کیا جاتا رہا ہے۔

یہی حال آثار قدیمہ کا بھی ہے۔ اس دور کی تعمیرات لگاتار گر رہی ہیں اور بلدیہ  کا عملہ، ان عمارات کو بچانے میں کوئی دلچسپی لیتا نظر نہیں آتا۔ شہر میں مختلف مقامات کو از سر نو نئے نام دیئے جا رہے ہیں۔ مگر یہ ایک سیاسی مہم ہے۔ جب ایک اخبار جو غیر جانبدار ہونے کا دعویٰ کرتا ہو، ایسی غیر ذمہ دار اور مزموم حرکت کرے، تو  یہ عبرت کا مقام ہے۔