خبریں

سپریم کورٹ کا فیصلہ ،Adulteryاب جرم نہیں

سپریم کورٹ نے 158سال پرانی آئی پی سی کی دفعہ 497کو غیرآئینی قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ یہ من مانا قانون تھا۔

Court-Hammer-2

نئی دہلی :سپریم کورٹ نے 158سال پرانی آئی پی سی کی دفعہ 497 کو غیر آئینی قرار دیا ہے ،جس کے تحت Adultery جرم تھا۔چیف جسٹس دیپک مشرا ،جسٹس اے ایم کھانولکر ،جسٹس آر ایف نریمن ،جسٹس ڈی وائی چندرچوڑاور جسٹس اندو ملہوترا کی بنچ نے متفقہ طور پر جمعرات کو کہا کہ Adulteryسے متعلق آئی پی سی کی دفعہ 407غیر آئینی ہے۔

اس معاملے کی شنوائی کے دوران چیف جسٹس دیپک مشرا نے کہا کہ ؛ قانون کا کوئی ایسا اہتمام جو کسی انسان کے وقاراور عورتوں کی برابری کو متاثر کرتا ہے تو یہ آئین کے نظریے سے صحیح نہیں ہے ۔ اب وقت آگیا ہے کہ ہم یہ کہیں کہ شوہر ،بیوی کا مالک نہیں ہوتا ہے۔عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ دفعہ 497واضح طور پر من مانا قانون ہے ۔ یہ غیر آئینی ہے۔دفعہ 497کے تحت اگر کوئی شادی شدہ انسان کسی دوسرے کی بیوی کے ساتھ رشتہ بناتا ہے تو اس کو ایسا جرم مانا گیا تھا جس کے لیے سزا بھی ضروری ہے۔اگر کوئی اس میں ملوث پایا جاتا ہے تو اس کو 5 سال کی سزا یا جرمانہ ہوسکتا تھا۔

عدالت نے اس قانون کو فرسودہ  قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ آئین کی دفعہ 14(برابری کا حق)اور دفعہ 21(جینے کا حق)کی خلاف ورزی ہے ۔ عدالت نے کہا کہ Adultery طلاق کی بنیادہوسکتی ہے ،لیکن اس کو جرم نہیں قرار دیا جاسکتا ہے۔جسٹس دیپک مشرا نے کہا کہ چین ،جاپان اور آسٹریلیا جیسے ممالک میں Adultery جرم نہیں ہے ۔اس کو جرم نہیں ہونا چاہیے۔چیف جسٹس دیپک مشرا اور اے ایم کھانولکر نے کہا کہ ؛ہم شادی کے خلاف جرم کے معاملے میں سزا کا اہتمام کرنے والی آئی پی سی کی دفعہ 497اور سی آر پی سی کی دفعہ 198کو غیر آئینی قرار دیتے ہیں ۔

الگ سے اپنا فیصلہ پڑھتے ہوئے جسٹس نریمن نے دفعہ 497کو فرسودہ اور دقیانوسی قانون بتاتے ہوئے جسٹس مشرا اور جسٹس کھانولکر کے فیصلے کے ساتھ اتفاق کیا ۔انہوں نے کہا کہ دفعہ 497مساوات کے حقوق اور عورتوں کے لیے برابری کا موقع کے حق کی خلاف ورزی کرتی ہے۔اس سے پہلے سپریم کورٹ نے 3بارAdultery کے خلاف قانون کو برقرار رکھا تھا ۔گزشتہ سال یہ کہا گیاتھا کہ Adultery پر قانون ایک عورت کو اپنے شوہر کے ماتحت کے طو رپر مانتا ہے اور اب یہ وقت آگیا ہے کہ سماج یہ مانے کہ ایک عورت ہر معاملے میں مردوں کے برابر ہوتی ہے۔

نیشنل وومین کمیشن کی چیف ریکھا شرما نے سپریم کورٹ کے اس فیصلے کا خیر مقدم کیا  اور یہ کہا کہ ؛یہ ایک فرسودہ قانون تھا ،جس کوبہت پہلے ختم کر دیا جاناچاہیے تھا ۔یہ انگریزوں کے زمانے کا قانون تھا ۔یہاں تک انگریزوں نے بھی اپنے یہاں یہ قانون ختم کردیا تھا ۔لیکن ہم ابھی اس کو بنائے ہوئے تھے۔

(خبررساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)