فکر و نظر

رویش کا بلاگ: مودی حکومت کی مہربانی-امیروں کے 3 لاکھ کروڑ لون معاف ہوئے

مودی حکومت کے 4 سالوں میں21سرکاری بینکو ں نے 3 لاکھ 16 ہزار کروڑ کے لون معاف کئے ہیں۔یہ ہندوستان کی صحت، تعلیم اور سماجی تحفظ کے کل بجٹ کا دو گنا ہے۔ سخت اور ایماندار ہونے کا دعویٰ کرنے والی مودی حکومت میں تو لون وصولی زیادہ ہونی چاہیے تھی، مگر ہوا الٹا۔  ایک طرف این پی اے بڑھتا گیا اور دوسری طرف لون وصولی گھٹتی گئی۔

وزیر اعظم نریندر مودی اور وزیر خزانہ ارون جیٹلی (فوٹو : پی ٹی آئی)

وزیر اعظم نریندر مودی اور وزیر خزانہ ارون جیٹلی (فوٹو : پی ٹی آئی)

مودی حکومت‌کے 4سال میں21سرکاری بینکو ں نے 3 لاکھ 16 ہزار کروڑ کے لون معاف کر دئے ہیں۔ کیا وزیر خزانہ نے آپ کو بتایا کہ ان کی حکومت میں یعنی اپریل 2014 سے اپریل 2018 کے درمیان تین لاکھ کروڑ کے لون معاف کئے گئے ہیں؟یہی نہیں اس دوران بینکوں کو ڈوبنے سے بچانے کے لئے حکومت نے اپنی طرف سے ہزاروں کروڑ روپے بینکوں میں ڈالے ہیں، جس پیسے کا استعمال نوکری دینے میں خرچ ہوتا، تعلیم اور صحت کی سہولت دینے میں خرچ ہوتا وہ پیسہ چند صنعت کاروں پر لٹا دیا گیا۔

انڈین ایکسپریس میں انل سسی کی یہ خبر پہلی خبر کے طور میں چھاپی گئی ہے۔  ہندوستان کی صحت، تعلیم اور سماجی تحفظ کا جو کل بجٹ ہے اس کا دو گنا لون بینکوں نے معاف کر دیا۔2018-19 میں ان تینوں مد کے لئے بجٹ میں 1 لاکھ 38 ہزار کروڑ کا اہتمام رکھا گیا ہے۔  اگر لون وصول‌کے یہ پیسہ صحت، تعلیم اور سماجی تحفظ پر خرچ ہوتا تو سماج پہلے سے کتنا بہتر ہوتا۔اپریل2014 سے اپریل 2018 کے درمیان بینکوں نے محض 44900 کروڑ کی وصولی کی ہے۔باقی سب معاف۔اس کو انگریزی میں رائٹ آف کہتے ہیں۔یہ اعداد و شمار ریزرو بینک آف انڈیاکا ہے۔

جبکہ بی جے پی نے اپریل مہینے میں ٹوئٹ کیا تھا کہ 2016 میں انسالوینسی اینڈ بینکرپسی کوڈ کی وجہ سے 4 لاکھ کروڑ لون کی وصولی کی گئی ہے۔ ریزرو بینک کا ڈیٹا کہتا ہے کہ 44900 کروڑ کی وصولی ہوئی ہے۔اس وقت بھی صحافی سنی ورما نے اپنی رپورٹ میں اس بوگس دعوے کا پردہ فاش کیا تھا۔جبکہ حقیقت یہ ہے کہ مودی حکومت میں جتنی وصولی ہوئی ہے اس کا سات گنا تو معاف کر دیا گیا۔

غنیمت ہے کہ اس طرح کی خبریں ہندی کے اخباروں میں نہیں چھاپی جاتی ہیں اس لئے عوام کا ایک بڑا حصہ ان اخباروں کے ذریعے بیوقوف بن رہا ہے۔تبھی میں کہتا ہوں کہ ہندی کے اخبار ہندی قارئین کا قتل کر رہے ہیں۔ان کے یہاں بہترین صحافیوں کی فوج ہے مگر ایسی خبریں ہوتی ہی نہیں جن میں حکومت کی پول کھولی جاتی ہو۔

مودی حکومت کے وزیر این پی اے کے سوال پر تفصیل سے نہیں بتاتے ہیں۔بس اس پر زور دےکر نکل جاتے ہیں کہ یہ لون یو پی اے کے وقت کے ہیں۔  جبکہ وہ بھی صاف صاف نہیں بتاتے کہ 7 لاکھ کروڑ کے این پی اے میں سے یو پی اے کے وقت کا کتنا حصہ ہے اور مودی حکومت کے وقت کا کتنا حصہ ہے۔بھکتوں کی جماعت بھی جھنڈ کی طرح ٹوٹ پڑتی ہے کہ این پی اے تو یو پی اے کی دین ہے۔  کیا ہمارا آپ کا لون معاف ہوتا ہے؟  پھر ان صنعت کاروں کا لون کیسے معاف ہو جاتا ہے؟

پانچ سال سے صنعت کار خاموش ہیں۔وہ کچھ نہیں بولتے ہیں۔نوٹ بندی کے وقت بھی نہیں بولے۔صنعت کار خاموش اس لئے ہیں کہ ان کے ہزاروں لاکھوں کروڑ کے لون معاف ہوئے ہیں؟ تبھی وہ جب بھی بولتے ہیں، مودی حکومت کی تعریف کرتے ہیں۔قاعدے سے مودی حکومت میں تو لون وصولی زیادہ ہونی چاہیے تھی۔وہ تو سخت اور ایماندار ہونے کا دعویٰ کرتی ہے۔مگر ہوا الٹا۔ایک طرف این پی اے بڑھتا گیا اور دوسری طرف لون وصولی گھٹتی گئی۔

21 سرکاری بینکوں نے پارلیامنٹ کی مستقل کمیٹی کو جو ڈیٹا سونپا ہے اس کے مطابق ان کا لون وصولی ریٹ بہت کم ہے، جتنا لون دیا ہے اس کا محض 14.2 فیصد لون ہی ری کور یعنی وصول ہو پاتا ہے۔ اب آپ دیکھیے۔مودی حکومت میں این پی اے کیسے بڑھ رہا ہے۔ کس تیزی سے بڑھ رہا ہے۔  2014-15 میں این پی اے 4.62 فیصد تھا جو 2015-16 میں بڑھ‌کر 7.79 فیصد ہو گیا۔

دسمبر 2017 میں این پی اے 10.41 فیصد ہو گیا۔  یعنی 7 لاکھ 70 ہزار کروڑ۔اس رقم کا محض 1.75 لاکھ کروڑ نیشنل کمپنی لا ٹریبونل میں گیا ہے۔  یہ جون 2017 تک کا حساب ہے۔  اس کے بعد 90000 کروڑ کا این پی اے بھی اس پنچاٹ میں گیا۔یہاں کا کھیل بھی ہم اور آپ معمولی لوگ نہیں سمجھ پائیں‌گے۔اس خبر میں بینک کے کسی افسر نے کہا ہے کہ لون کو معاف کرنے کا لیا گیا فیصلہ بزنس کے تحت ہوتا ہے۔  بھائی تو یہی فیصلہ کسانوں کے لون کے بارے میں کیوں نہیں کرتے ہیں؟

جن کی نوکری جاتی ہے، ان کے ہاؤس لون معاف کرنے کے لئے کیوں نہیں کرتے ہو؟  ظاہر ہے لون معاف کرنے میں سرکاری بینک یہ انتخاب خود سے تو نہیں کرتے ہوں‌گے۔این پی اے کا یہ کھیل سمجھنا ہوگا۔نجی کاری کی وکالت کرنے والی یہ پرائیویٹ کمپنیاں پرائیویٹ بینکوں سے لون کیوں نہیں لیتی ہیں؟  سرکاری بینکوں کو کیا لوٹ کا خزانہ سمجھتی ہیں؟

کیا آپ جانتے ہیں کہ تقریبا 8 لاکھ کروڑ کا این پی اے کتنے صنعت کاروں یا بزنس گھرانوں کا ہے؟ گنتی کے سو بھی نہیں ہوں‌گے۔  تو اتنے کم لوگوں کے ہاتھ میں 3 لاکھ کروڑ جب جائے‌گا تو امیر اور امیر ہوں‌گے کہ نہیں۔عوام کا پیسہ اگر عوام میں تقسیم ہوتا تو عوام دولت مند ہوتے۔ مگر عوام کو ہندو-مسلم اور پاکستان دے دو اور اپنے دوست بزنس مین کو ہزاروں کروڑ۔

یہ کھیل آپ تب تک نہیں سمجھ پائیں‌گے جب تک خود کو بھکت موڈ پر رکھیں‌گے۔مودی حکومت‌کے4 سال میں 3 لاکھ 16 ہزار کروڑ کا لون معاف ہوا ہے۔یہ لون معافی عوام کی نہیں ہوئی ہے۔این پی اے کے معاملے میں مودی حکومت بنام یو پی اے حکومت کھیلنے سے پہلے ایک بات اور سوچ لیجئے‌گا۔اس کھیل میں آپ ان کو تو نہیں بچا رہے ہیں جن کو 3 لاکھ کروڑ ملا ہے؟  یہ سمجھ لیں‌گے تو گیم سمجھ لیں  گے۔

(یہ مضمون  رویش کمار کے بلاگ پر شائع ہوا ہے۔ )