فکر و نظر

کانگریس میں طارق انور کی واپسی کے کیا معنی ہیں ؟

 2014 کے مقابلے اس بار کانگریس کی حالت اچھی دکھ رہی ہے۔ ایسے میں ان  کا کانگریس  سے جڑنا، نہ صرف ان کے اپنے صوبے بہار میں بلکہ ملک بھر میں خاص طور سے مسلمانوں کے درمیان ایک مثبت پیغام  ہے۔

طارق انور (فائل فوٹو: فیس بک)

طارق انور (فائل فوٹو: فیس بک)

15 مئی 1999 کو شرد پوار اور پی اے سنگما کے ساتھ مل کر سونیا گاندھی کے غیر ملکی ہونے کا معاملہ اٹھاتے ہوئے بغاوت کرنے والے طارق انور واپس اپنی پرانی پارٹی میں لوٹنے والے ہیں۔انہوں نے شرد پوار کی نیشنلسٹ کانگریس پارٹی کو خیرباد کہہ دیا ہے اور جلد ہی کانگریس میں ان کی شمولیت کی خبر آ سکتی ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ طارق انور کی نہ تو شرد پوار سے کوئی قربت تھی، نہ ہی سنگما سے ان کا کوئی خاص رشتہ تھا، جس کی وجہ سے وہ این سی پی میں گئے ہوں۔ وہ کانگریس خاص کر اس وقت کانگریس کی صدر سونیا گاندھی سے ناراض تھے، جن کی وجہ سے طارق انور کے سرپرست سیتارام کیسری کو حاشیے پر کر دیا گیا تھا۔ اس سے تقریباً ایک سال پہلے کی ہی تو بات ہے۔ طارق انور چچا کسیری کے بہت خاص ہوا کرتے تھے۔ وہی کیوں کیسری کی صدارت والے دور میں غلام نبی آزاد اور احمد پٹیل کو بھی خاصی اہمیت حاصل تھی۔ان تینوں کی پارٹی صدر سے ایسی نزدیکیاں دیکھ کر ہی تو شرد پوار نے طنز کرتے ہوئے کہا تھا، “تین میاں، ایک میرا”۔

خوش اخلاق اور ملنسار طارق انور کے اپنی پرانی پارٹی میں ابھی بھی خاصے دوست موجود ہیں۔ساتھ ہی پارٹی میں ایسا ماننے والے لوگ ہیں کہ طارق انور نے حدیں پار نہیں کی تھیں۔ یعنی ان کا جرم ناقابلِ معافی نہیں ہے۔ یہ بھی اندازہ لگایا جا رہا ہے کہ وہ جلد ہی احمد پٹیل و غلام نبی آزاد کے ساتھ تال میل بٹھا لیں گے، جو کہ راجیو گاندھی کے دور سے کانگریس کی آنکھ اور کان بنے ہوئے ہیں۔ کانگریس کو بھی صحیح معنوں میں ایسے مسلم لیڈر کی ضرورت ہے، جس کی عوامی سطح پر مقبولیت ہو۔

طارق انور ہمہ جہت شخصیت کے مالک ہیں۔ سب سے بڑی بات یہ کہ زمین سے جُڑے نیتا ہیں۔ اس کا ثبوت انکا اپنے پارلیامانی حلقہ کٹیہار سے لوک سبھا کے لیے منتخب ہونا بھی ہے۔ نیشنلسٹ کانگریس پارٹی، جس کا بہار میں کوئی خاص وجود نہیں ہے، کے بینر تلے بھی وہ لوک سبھا چناؤجیت جاتے ہیں۔ ظاہر ہے یہ عوام میں ان کی مقبولیت کا ہی مظہر ہے۔ موجودہ حالات دیکھتے ہوئے یہ بھی ان کا ایک بڑا اچیومنٹ ہے۔

نیتا اور عوام الناس میں مقبول نیتا ہونے کے ساتھ ساتھ پڑھنے لکھنے سے ان کا ناطہ ہے۔ وہ آج کے ان گنے چنے نیتاوں میں سے ہیں، جو اپنی نیتاگری کے علاوہ دیگر معاملات سے بھی باخبر رہتے ہیں۔ قومی و بین الاقوامی حالات و مسائل سے وہ باخبر رہتے ہیں۔ اخبارات میں مختلف موضوعات پر مسلسل ان کے مضامین پابندی کے ساتھ چھپتے ہیں۔

طارق انور کے پارٹی کو خیرباد کہہ دینے والے وقت پر نظر دوڑائیں تو 15 مئی 1999 کا دن یاد آتا ہے۔ کانگریس ورکنگ کمیٹی کی بیٹھک چل رہی تھی۔ اسی بیٹھک میں شرد پوار کی شہ پر پی اے سنگما نے سونیا کے غیر ملکی ہونے کا تذکرہ چھیڑا۔ پھر انہوں نے صاف کہا کہ سونیا کے غیر ملکی ہونے کے موضوع کو ہوا دے کر بی جےپی مسلسل کانگریس کو پریشانی میں مبتلا کیے دے رہی ہے۔ حد تو تب ہو گئی جب سنگما نے نہایت سنگدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا “ہم آپ کے اور آپ کے والدین کے بارے میں بس تھوڑا بہت ہی جانتے ہیں۔

” سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے شرد پوار نے اپنی باتوں میں تھوڑی شکر لپیٹ کر پہلے سونیا کی یہ کہہ کر تعریف کی کہ وہ پارٹی کہ متحد کرنے میں کامیاب رہیں، پھر بہت سلیقے سے وار کیا کہ مگر بھاجپا کے ذریعے آپ کو غیر ملکی ٹھہرانے کی مہم کا کانگریس مناسب ڈھنگ سے جواب نہیں دے پائی۔ اسی طرح کی اور بھی باتیں کی گئیں اور ظاہر ہے سونیا یہ سن کر دم بخود رہ گئیں۔ اپنے سرپرستِ اعلیٰ سیتارام کیسری کی توہین کا بدلہ لینے کے لیے طارق انور نے بھی ان دونوں کا ساتھ دیا اور پارٹی سے اخراج جھیلا۔

اب ان کی کانگریس میں واپسی ہو رہی ہے۔ 2014 کے مقابلے اس بار کانگریس کی حالت اچھی دکھ رہی ہے۔ ایسے میں طارق انور کا پارٹی سے جڑنا، نہ صرف ان کے اپنے صوبے بہار میں بلکہ ملک بھر کے لوگوں خاص طور سے مسلمانوں میں ایک مثبت پیغام کے روپ میں لیا جا سکتا ہے۔