فکر و نظر

سیاست میں مجرموں پر سپریم کورٹ کا فیصلہ :کھودا پہاڑ نکلی چوہیا …

  سپریم کورٹ کا پورا احترام کرتے ہوئے یہ صلاح دینا مناسب ہوگا کہ ہندوستانی سیاست سے مجرموں کا صفایا کرنے والی عرضی کو شروع میں ہی منع کر دینا تھا۔  یہ نہ ہی اس کا کام ہے اور نہ ہی وہ یہ کرنے کے اہل  ہیں۔

سپریم کورٹ /فوٹو : پی ٹی آئی

سپریم کورٹ /فوٹو : پی ٹی آئی

سپریم کورٹ کی آئینی بنچ نے گزشتہ دنوں پبلک انٹریسٹ فاؤنڈیشن بنام یونین آف انڈیا معاملے میں جو فیصلہ دیا ہے، وہ اس بات کی سب سے بڑی مثال ہے کہ عدلیہ کو ملک کے سارےمسائل کا حل ڈھونڈنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے۔اس معاملے میں درخواست گزار نے عدالت سے گزارش کی تھی کہ ہندوستانی سیاست سے مجرموں کا صفایا کیا جائے۔  سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں ان مجرموں کو ‘دیمک’ کہہ‌کر مخاطب کیا ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ہندوستانی سیاست کے مجرمانہ کردار میں اضافہ ہوا ہے۔  بڑی تعداد میں منتخب رکن پارلیامان اور ایم ایل اے کی مجرمانہ تاریخ رہی ہے۔لیکن یہ مسئلہ ملک کے دوسرے مسائل، مثلاً پیٹرول اور ڈیزل کی قیمت میں اضافہ،بڑھتی بےروزگاری، کسانوں کی بڑھتی ناامیدی اور وسیع پیمانے پر  غذائی قلت کی طرح ہی عدلیہ نہیں سلجھا سکتی۔  ان مسائل کو سلجھانے کے لئے عوامی جدو جہد کی ضرورت پڑے‌گی۔

سپریم کورٹ کا پورا احترام کرتے ہوئے یہ صلاح دینا مناسب ہوگا کہ ہندوستانی سیاست سے مجرموں کا صفایا کرنے والی عرضی کو شروع میں ہی منع کر دینا تھا۔  یہ نہ ہی اس کا کام ہے اور نہ ہی وہ یہ کرنے کے اہل  ہیں۔عدلیہ کا کام، جو تنازعہ اس کے سامنے آئے اس کو قانون کے مطابق حل کرنا ہے۔  اس کا کام قانون بنانا نہیں ہے جیسا کہ ڈویزنل منیجر، اراولی گولف کورس بنام چندرہاس معاملے میں کیا گیا۔

واقعی میں درخواست گزار پبلک انٹریسٹ فاؤنڈیشن سپریم کورٹ سے قانون بنانے کی مانگ‌کررہا تھا جس کے تحت ان لوگوں کو انتخاب لڑنے سے روکا جائے جن پر کسی مجرمانہ معاملے میں پولیس نے چارج شیٹ دائر کی ہو۔لیکن قانون بنانا تو پارلیامنٹ اور اسمبلی کا  کام ہے، نہ کہ عدلیہ کا اور ابھی کوئی ایسا قانون نہیں ہے، جو صرف چارج شیٹ دائر ہونے کی بنیاد پر کسی آدمی کو انتخاب لڑنے کے نااہل ٹھہراتا ہو۔

کئی دنوں کی بحث اور محنت کے بعد آخرکار کیا نتیجہ نکلا؟  قریب قریب کچھ بھی نہیں۔  جیسے کھودا پہاڑ نکلی چوہیا۔اس کے بجائے پانچ ججوں نے جو قیمتی وقت اس معاملے میں لگایا وہ سالوں سے زیر التوا پڑے معاملوں کو دیکھنے میں استعمال کر سکتے تھے۔120 پیراگراف میں دئے گئے اس لمبے فیصلے میں لوگوں کی پریشانیوں پر کورٹ کی تکلیف درج ہے اور اس معاملے میں کورٹ کے کچھ بھی کرنے میں قاصر ہونےکا ذکر بھی کیا گیا ہے۔  اس کے بعد وہ پارلیامنٹ کو قانون میں اصلاح (جو واضح طور پر نہیں کیا جائے‌گا)کے لئے صلاح دیتے ہیں۔

کورٹ نے اپنے فیصلے میں نصیحت والے  لہجے میں کہا ہے کہ ‘ مناسب آئینی طریقے سےسماج کی حکمرانی  کی امید پالنا معقول ہے ‘اور’آلودہ ہو چکی سیاست کو صاف کرنے کے لئے مجرمانہ پس منظر والے لوگوں کو سیاست میں آنے سے روکنے کی مناسب کوشش ہونی چاہیے، جس سے ان کو سیاست میں اترنے کا خیال بھی نہ آئے۔  ‘

116 نمبر کے پیراگراف میں پانچ ہدایت دئے گئے ہیں لیکن ان کی اہمیت کیا ہے؟

ہدایت (1) میں کہا گیا ہے کہ ایسے امیدوار کو طےشدہ فارم میں اپنی امّیدواری بھرنی چاہیے۔

ایسا تو پہلے سے ہی اصول کے مطابق ضروری ہے۔  اس کے لئے کسی ہدایت کی ضرورت نہیں ہے۔

ہدایت (2) میں کہا گیا ہے کہ امیدوار کو بڑے حرف میں لکھنا چاہیے کہ وہ کسی جرم میں ملزم ہے۔

جیسے اس کے کوئی معنی ہیں!

ہدایت (3) میں کہا گیا ہے کہ امیدوار کو اپنی پارٹی کو یہ بات ضرور بتانی چاہیے کہ وہ کسی جرم میں ملزم ہے۔

جیسے کہ پارٹی کو پتا ہی نہیں ہوتا ہے یا پھر وہ اس کی پروابھی کرتی ہے۔

ہدایت (4) میں کہا گیا ہے کہ امیدوار کی طرف سے پتہ چلنے کے بعد کہ وہ کسی مجرمانہ معاملے میں ملزم ہے، پارٹی کو یہ جانکاری اپنی ویب سائٹ پر ضرور ڈالنی چاہیے۔

جیسے کہ لوگ ویب سائٹ دیکھنے جائیں‌گے ہی اور اگر چلے بھی گئے،ان کو اس کی پروا ہوگی۔  ہندوستان میں زیادہ تر لوگ جب ووٹ دینے جاتے ہیں، تو صرف امیدوار کی ذات اور مذہب دیکھتے ہیں نہ کہ اس کا مجرمانہ پس منظر۔

ہدایت (5) میں کہا گیا ہے کہ مجرمانہ پس منظر کے بارے میں امیدوار اور اس کی پارٹی کو اس مقامی اخبار میں چھپوانا چاہیے جو اس خاص علاقہ میں بڑے پیمانے میں پڑھا جاتا ہے۔

یہ بھی ایک غیر-عملی ہدایت ہے۔ ہندوستان میں ہرجگہ ایسے فرضی اخباروں کی کثرت ہے، جن کا بہت کم یا زیرو سرکولیشن ہے، اور ان کا استعمال صرف نام بھر کے لئے عوامی نیلامی یا نوکری کے اشتہار کو چھاپنے کے لئے ہوتا ہے۔  یہ ہدایت صرف ایسے ہی فرضی اخباروں کی تشہیر کو بڑھائے‌گی۔

لیکن تب کیا، جب ان ہدایتوں پر عمل نہیں ہوگا؟ کیا اس کی وجہ سے انتخابی نتیجے منسوخ کئے جائیں‌گے؟  اس فیصلے میں اس بارے میں کچھ بھی واضح نہیں کیا گیا ہے۔سو بات کی ایک بات سمجھیں، تو کھودا پہاڑ، نکلی چوہیا۔

(مضمون نگار سپریم کورٹ کے سابق جج ہیں۔)