خبریں

سیور صفائی کے دوران موت :زیادہ تر معاملوں میں نہ تو ایف آئی آر درج ہوئی اور نہ ہی معاوضہ ملا

غلاظت ڈھونے کی روایت ختم کرنے کے لئے کام کرنے والے سول سوسائٹی تنظیموں کے وفاق راشٹریہ گریما ابھیان کے ذریعے 11 ریاستوں میں کرائے گئے سروے سے یہ جانکاری سامنے آئی ہے۔

سیور صفائی کے دوران مارے گئے لوگوں کی تصویر، جس کو غیرسرکاری تنظیم راشٹریہ گریما ابھیان نے جاری کیا ہے۔

سیور صفائی کے دوران مارے گئے لوگوں کی تصویر، جس کو غیرسرکاری تنظیم راشٹریہ گریما ابھیان نے جاری کیا ہے۔

نئی دہلی: سیور میں دم گھٹنے سے ہوئی اموات پر ایک مطالعے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ زیادہ تر معاملوں میں نہ تو ایف آئی آر درج کی گئی ہے اور نہ ہی متاثرین کے اہل خانہ کو کوئی معاوضہ دیا گیا ہے۔غلاظت ڈھونے کی روایت ختم کرنے کے لئے کام کرنے والے سول سوسائٹی تنظیموں کے وفاق  راشٹریہ گریما ابھیان کے ذریعے11ریاستوں میں کرائے گئے سروے سے یہ جانکاری سامنے آئی ہے۔

 راشٹریہ گریما ابھیان نے 51 معاملوں میں مارے گئے 97 لوگوں کی جانکاری کی بنیاد پر یہ رپورٹ تیار کی ہے۔ اس میں سے 59 فیصد معاملوں میں کوئی بھی ایف آئی آرنہیں کی گئی ہے۔  وہیں 6 فیصد معاملوں میں اہل خانہ کو یہ جانکاری نہیں ہے کہ ایف آئی آر  ہوئی ہے یا نہیں۔کل ملاکر صرف 35 فیصد معاملوں میں ہی ایف آئی آر  کی گئی ہے۔  وہیں صرف 31 فیصد معاملوں میں متاثرین کو معاوضہ دیا گیا۔  51 معاملوں میں سے 69 فیصد معاملوں میں کسی بھی طرح کا معاوضہ نہیں دیا گیا۔

اس رپورٹ کے مطابق جو بھی مقدمہ میں معاوضہ دیا گیا ہے ان میں سے زیادہ تر میں یہ کوشش کی گئی ہے کہ پیسے دےکر جلدی سے معاملے کو رفع دفع کر دیا جائے، تاکہ کسی کو سزا نہ ہو۔بتا دیں کہ 27 مارچ 2014 کو سپریم کورٹ نے  صفائی کرمچاری آندولن بنام حکومت ہند معاملے میں حکم دیا تھا کہ 1993 سے لےکر اب تک سیور میں دم گھٹنے کی وجہ سے مرنےوالوں اور ان کی فیملی کی پہچان کی جائے اور ہرایک فیملی کو 10 لاکھ روپے کا معاوضہ دیا جائے۔

حالانکہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے 4 سال بیت جانے کے بعد ابھی تک تمام ریاستوں نے اس پر جانکاری نہیں دی ہے۔منسٹری آف سوشل جسٹس اینڈ امپاورمنٹ کے تحت کام کرنے والے ادارےنیشل صفائی کرمچاری کمیشن کے پاس یہ جانکاری بھی نہیں ہے کہ ملک میں کل کتنے صفائی ملازمین ہیں۔رپورٹ کے مطابق جتنے معاملوں میں ایف آئی آر درج کی گئی ہے ان میں سے زیادہ تر (77 فیصد) معاملوں میں تعزیرات ہند کی دفعہ 304 اور 304 اے کے تحت ایف آئی آر درج کی گئی ہے۔  یہ دفعات ان معاملوں میں لگائی جاتی ہیں جہاں پر لاپروائی کی وجہ سے کسی کی موت ہو جاتی ہے۔

وہیں، کچھ ہی معاملوں میں مینول اسکیویجنگ (ایم ایس) ایکٹ 2013 کی دفعہ  7 اور 9 کے تحت ایف آئی آر درج کی گئی۔  اگر ایم ایس ایکٹ کے تحت ایف آئی آر درج کی جاتی ہے تو معاوضہ ملنے میں آسانی ہوتی ہے۔اسی طرح صرف بنگلور کو چھوڑ‌کر ایک بھی جگہ پر کانٹریکٹر  کی گرفتاری نہیں ہوئی تھی۔  جن معاملوں میں ایف آئی آر درج نہیں کی گئی، ان کے رشتہ داروں کا کہنا ہے کہ ان کے اوپر لگاتار سمجھوتہ کرنے کا دباؤ ڈالا جاتا ہے، ڈرایا-دھمکایا جاتا ہے۔

بتا دیں کہ متعلقہ وزارت کی رپورٹ کے مطابق سال 2016 میں سیور میں دم گھٹنے سے 172 لوگوں کی موت ہوئی تھی۔  وہیں سال 2017 میں اس طرح کے 323 موت کے معاملے سامنے آئے۔یہ سروے جنوری سے جولائی 2018 کے درمیان کیا گیا تھا۔  اس دوران بہار، اتر پردیش، تمل ناڈو، اڑیسہ ، جھارکھنڈ اور تمل ناڈو سے 46 لوگوں کی موت کے معاملے سامنے آ چکے ہیں۔  پچھلے چھے مہینے میں ہر چوتھے دن ایک شخص کی موت سیور صفائی کے دوران ہوئی۔

 راشٹریہ گریما ابھیان کے ممبر آصف شیخ نے دی وائر سے کہا، ‘والمیکی، مہتر، ڈوم، بھنگی، ہر، ہادی، گھاسی، اولگانا، مکھیار، تھوٹی، ہیلا اور حلال خور جیسے دلت کمیونٹی کے لوگ میلا ڈھونے کے کام میں لگے ہیں اور ان کو اپنے ہاتھوں سے انسانی غلاظت یا سیور لائنوں اور سیپٹک ٹینک کو صاف کرنے کے لئے مجبور کیا جاتا ہے۔  انتظامیہ اس کمیونٹی کو جان بوجھ کر نظرانداز کر رہا ہے اور ان کی بازآبادکاری نہیں کی جا رہی ہے۔  ‘رپورٹ سے یہ بھی بات سامنے آئی ہے کہ ان معاملوں میں سے ایک بھی فیملی کو ‘ میلا ڈھونے والوں کی بازآبادکاری کے لئے خود  روزگار اسکیم ‘کے تحت کوئی مدد نہیں دی گئی اور نہ ہی ان کی بازآبادکاری کی گئی۔

بتا دیں میلا ڈھونے والوں کی  بازآبادکاری وزارت  کی میلا ڈھونے والوں کے  بازآبادکاری کے لئے خود  روزگار اسکیم (ایس آر ایم ایس) کے تحت کی جاتی ہے۔اس اسکیم کے تحت بنیادی طور پر تین طریقے سے میلا ڈھونے والوں کی  بازآبادکاری کی جاتی ہے۔  اس میں’ایک بار نقدی مدد’کے تحت میلا ڈھونے والے فیملی کے کسی ایک آدمی کو ایک بار 40000 روپے دیا جاتا ہے۔  اس کے بعد حکومت مانتی ہے کہ ان کی  بازآبادکاری کر دی گئی ہے۔

وہیں، دوسری طرف میلا ڈھونے والوں کو تربیت دےکر ان کی بازآبادکاری کی جاتی ہے۔  اس کے تحت فی مہینہ 3000 روپے کے ساتھ دو سال تک کوشل وکاس کی تربیت دی جاتی ہے۔ اسی طرح ایک طےشدہ رقم تک کے لون پر میلا ڈھونے والوں کے لئے سب سیڈی دینے کا اہتمام ہے۔دی وائر نے اپنی پچھلی رپورٹ میں بتایا تھا کہ مرکز میں پچھلے چار سالوں سے حکمراں نریندر مودی حکومت نے اپنی مدت کے دوران میلا ڈھونے والوں کی  بازآبادکاری کے لئے ایک روپیہ بھی جاری نہیں کیا ہے۔ اتناہی نہیں، اس حکومت نے پچھلی یو پی اے حکومت کے ذریعے جاری کی گئی رقم کا تقریباً آدھا حصہ ابھی تک خرچ نہیں کیا ہے۔

وہیں متاثرہ فیملی کے ایک بھی بچےکو پری-میٹرک اسکیم کے تحت کسی بھی طرح کی اسکالرشپ نہیں دی گئی ہے۔  اس اسکیم کا مقصد ہے کہ میلا ڈھونے اور سیور صفائی کے کام میں شامل فیملی کے بچوں کو پڑھنے کے لئے یہ اسکالرشپ دی جائے‌گی۔سب سے زیادہ 37 فیصد لوگوں کی موت 15-25 سال کی عمر والوں کی ہوئی ہے۔  اس کے بعد 35 فیصد لوگوں کی موت 25-35 سال اور 23 فیصد موت 35-45 سال کی عمر والوں کی ہوئی۔

اس ریسرچ کے مطابق والمیکی، ارونتھٹیار، ڈوم، مہتر، رکھی، کمہار، متنگ، میگھوال، چنبر، رائے سکھ اور ہیلا کمیونٹی کے لوگ سیور صفائی اور صفائی سے متعلق کام میں ہیں۔رپورٹ میں کہا گیا ہے، ‘انسانی حقوق کی پوری طرح سے خلاف ورزی کرتے ہوئے ہندوستان کے دلتوں کو ذات پرمبنی کام جیسے کہ مینول اسکیوینجنگ میں دھکیلا جاتا ہے۔  اس طرح کا تعصب پاکیزگی، آلودگی اور چھوت چھات کے نظریہ سے پیدا ہوتا ہے۔  ملک میں ذات پات  کو قائم رکھنے والوں کے ذہن  میں یہ گہرائی سے پیوست ہے۔