فکر و نظر

غزالہ وہاب کی آپ بیتی؛ ایم جے اکبر نے میرا جنسی استحصال کیا ہے

بات ان دنوں کی ہے جب میں ایشین ایج میں کام کیا کرتی تھی اور اکبر وہاں مدیر تھے۔

سابق مدیر اور وزیر برائے امور خارجہ  وزیر ایم جے اکبر (فوٹو بشکریہ: فیس بک(

سابق مدیر اور وزیر برائے امور خارجہ  وزیر ایم جے اکبر (فوٹو بشکریہ: فیس بک)

ہندوستان میں می ٹو مہم کی دستک  کے بعد، میں نے 6 اکتوبر کو ایک ٹوئٹ کیا تھا کہ ‘آخر ایم جے اکبر کی باری کب آئے‌گی۔’جلدہی میرے دوستوں اور ایشین ایج-جہاں 1994 میں انٹرن کے طور پر میرے جڑنے کے وقت ایم جے اکبر مدیر تھے، کے میرے پرانے شریک کاروں نے مجھ سے رابطہ کرنا شروع کر دیا۔انہوں نے گزارش کی کہ تم اکبر کے بارے میں اپنی کہانی کیوں نہیں لکھتی؟ میں اس بات کو لےکر مطمئن نہیں تھی کہ کیا دو دہائی سے زیادہ وقت گزر جانے کے بعد ایسا کرنا درست ہوگا؟ لیکن جب ایسے پیغام آتے رہے، تب میں نے اس کے بارے میں سوچا۔

میں نے پچھلا ویک اینڈ ان ڈراؤنے 6 مہینوں کو دل میں دوہراتے ہوئے گزارا۔ ذہن کے کسی گم کونے میں دبی ایسی یادیں،جس کا ذرا سا خیال آج بھی میرے رونگٹے کھڑے کر دیتا ہے۔اچانک میری آنکھیں بھر آئیں اور میں نے سوچ لیا کہ میں ایک مظلوم کے طور پر نہیں جانی جاؤں‌گی؛1997 کے وہ6 مہینے میرے لئے کوئی مطلب نہیں رکھتے اور وہ کسی بھی طرح سے میری شخصیت کو واضح نہیں کرتے۔میں نے یہ فیصلہ کیا میں اپنے ٹوئٹ کو آگے نہیں بڑھاؤں‌گی۔ یہ جاننا کہ آپ جس کو آئیڈیل مانتے ہیں، وہ جانوروں سا رجحان رکھتا ہے الگ بات ہے اور اس کو دنیا کے سامنے بتانا، الگ بات ہے۔ لیکن میرے پاس پیغامات کی قطار لگا رہی۔کچھ لوگوں نے کہا کہ ہو سکتا ہے کہ میری کہانی کچھ دوسروں کو بھی اپنا سچ بتانے کا حوصلہ دے۔ اس لئے میں نے اپنی کہانی بتانے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ ہے میری کہانی۔

§

1989 میں جب میں اسکول میں ہی تھی، میرے والد نے مجھے اکبر کی کتاب رائٹ آفٹر رائٹ لاکر دی۔ میں نے دو دنوں کے اندر اس کتاب کو پڑھ ڈالا۔اس کے بعد میں نے انڈیا: دی سیز ود ان اور نہرو:دی میکنگ آف انڈیا خریدی۔میں نے چپ چاپ فریڈم ایٹ مڈنائٹ،اویروشلم اور از پیرس برننگ کو دوسری طرف کھسکا دیا۔ اب میرا پسندیدہ مصنف  بدل گیا تھا۔میں نے ‘جرنلسٹ ‘بننے کا فیصلہ تب ہی کر لیا تھا، جب میں اس کی اسپیلنگ بھی نہیں جانتی تھی، لیکن اکبر کی کتابوں سے میراسامنا ہونے کے بعد میری خواہش، جنون میں تبدیل ہو گئی۔ میرا دھیان کہیں اور نہ بھٹک جائے، اس لئے میں نے اسکول کے بعد جرنلزم کے بیچلر کورس میں داخلہ لے لیا۔

جب 1994 میں مجھے ایشین ایج کے دہلی دفتر میں نوکری ملی، اس وقت میرا یہ یقین پختہ  ہو گیا کہ میرا مقدر مجھے یہاں لےکر آیا ہے، تاکہ میں اس شعبے کے سب سے عمدہ استاد سے سیکھ سکوں۔لیکن، سیکھنے کو انتظار کرنا تھا۔ پہلے ایک بھرم کو ٹوٹنا تھا۔ اکبر اپنی علمیت کو ہلکے میں لیتے تھے، کچھ زیادہ ہی ہلکے میں لیتے تھے۔ وہ دفتر میں چلایا کرتے، گالیاں دیتے اور شراب پیتے۔ ایک سینئر نے میری کھنچائی کرتے ہوئے ہوئے کہا، ‘تم کچھ بالکل چھوٹے شہروالی ہی ہو۔ ‘

شاید اس لئے میں نے اپنی چھوٹی شہر والی ذہنیت کو بھول‌کر اگلے دو سالوں کے لئے-جوان سب ایڈیٹروں کے ساتھ اکبر کے فلرٹ کرنے، ان کے کھل کر جانبداری کرنے اور اور ان کے فحش مذاق-کو دفتر کی تہذیب مان‌کر قبول‌کر لیا۔میں نے لوگوں کو ایشین ایج کے دہلی آفس کو اکبر کا ‘حرم ‘ کہتے سنا-وہاں جوان لڑکیوں کی تعداد مردوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ تھی۔ میں اکثر نائب مدیروں-نامہ نگاروں کے ساتھ ان کے افیئر کی باتیں  بھی سنا کرتی تھی اور یہ بھی کہ ایشین ایج کے ہر علاقائی آفس میں ان کی ایک گرل فرینڈ ہے۔

میں نے ان سب کو دفتر کی تہذیب مان‌کر جھٹک دیا۔ میں ان کی توجہ کے حاشیے پر تھی، اس لئے اب تک متاثر نہیں ہوئی تھی۔لیکن ایشین ایج میں میرے تیسرے سال میں میں اس ‘آفس کلچر ‘سے اچھوتی نہیں رہ سکی۔ ان کی نگاہ مجھ پر پڑی اور اس طرح جیسے برے سپنے کے ایک سلسلے  کی شروعات ہوئی۔میرا ڈیسک بدل‌کر ان کے کیبن کے ٹھیک باہر کر دیا گیا، جو دروازہ کھلنے پر ان کے ڈیسک کے ٹھیک سامنے پڑتا، اس طرح کہ اگر ان کے کمرے کا دروازہ تھوڑا سا بھی کھلا رہ جائے تو میں ان کے سامنے ہوتی تھی۔ وہ اپنے ڈیسک پر بیٹھے ہر وقت مجھے دیکھا کرتے، اکثر ایشین ایج کے انٹرانیٹ نیٹ ورک پر مجھے فحش پیغام بھیجتے۔

اس کے بعد میری صاف دکھ رہی بے بسی سے پرجوش ہوکر انہوں نے مجھے اپنے کیبن میں(جس کا دروازہ وہ ہمیشہ بند کر دیتے)بلانا شروع کر دیا۔ وہ ایسی بات چیت کرتے، جو ذاتی قسم کی ہوتی۔ جیسے میں کس طرح کی فیملی سے آتی ہوں اور کیسے میں اپنے ماں باپ کی خواہش کے خلاف دہلی میں اکیلے رہ‌کر کام کر رہی تھی۔

کبھی کبھی جب ان کو اپنا ہفتہ وار کالم لکھنا ہوتا، وہ مجھے اپنے سامنے بٹھاتے۔ اس کے پیچھے خیال یہ تھا کہ اگر ان کو لکھتے وقت ایک موٹی ڈکشنری، جو ان کے کیبن کے دوسرے کونے پر ایک کم اونچائی کی تپائی پر رکھی ہوتی تھی، سے کوئی لفظ دیکھنا ہو، تو وہ وہاں تک جانے کی کی زحمت اٹھانے کی جگہ مجھے یہ کام کرنے کے لئے کہہ سکیں۔یہ ڈکشنری اتنی کم اونچائی پر رکھی گئی تھی کہ اس میں سے کچھ تلاش کرنے کے لئے کسی کو یا تو پوری طرح سے جھکنا یا اکڑوں ہوکر (گھٹنے موڑ‌کر) بیٹھنا پڑتا اور ایسے میں پیٹھ اکبر کی طرف ہوتی۔

1997 کو ایک روز جب میں آدھا اکڑوں ہوکر ڈکشنری پر جھکی ہوئی تھی، وہ دبے پاؤں پیچھے سے آئے اور مجھے کمر سے پکڑ لیا۔ میں ڈر کے مارے کھڑے ہونے کی کوشش میں لڑکھڑا گئی۔ وہ اپنے ہاتھ میرے پستان سے پھراتے ہوئے میری ہپ  پر لے آئے۔ میں نے ان کا ہاتھ جھٹکنے کی کوشش کی، لیکن انہوں نے مضبوطی سے میری کمر پکڑ رکھی تھی اور اپناانگوٹھا میرے پستان سے رگڑ رہے تھے۔

دروازہ نہ صرف بند تھا، بلکہ ان کی پیٹھ بھی اس میں اڑی تھی۔ خوف کے ان چند لمحوں میں ہر طرح کےخیال میرےذہن  میں دوڑ گئے۔ آخر انہوں نے مجھے چھوڑ دیا۔اس بیچ لگاتار ایک عیارانہ مسکراہٹ ان کے چہرے پر تیرتی رہی۔میں ان کے کیبن سے بھاگتے ہوئے نکلی اور واش روم میں جاکر رونے لگی۔ خوف نے مجھے گھیر لیا تھا۔میں نے خود سے کہا کہ یہ پھر نہیں ہوگا اور میرے مزاحمت نے ان کو یہ بتا دیا ہوگا کہ میں ان کی’ایک اور گرل فرینڈ’نہیں بننا چاہتی۔ لیکن یہ اس برے خواب کی شروعات بھر تھی۔

اگلی شام انہوں نے مجھے اپنے کیبن میں بلایا۔ میں نے دروازہ کھٹکھٹایا اور اندر داخل ہوئی۔ وہ دروازے کے سامنے ہی کھڑے تھے اور اس سے پہلے کہ میں کوئی رد عمل دے پاتی، انہوں نے دروازہ بند کر دیا اور مجھے اپنے جسم اور دروازے کے درمیان جکڑ لیا۔میں نے خود کو چھڑانے کی کوشش کی، لیکن انہوں نے مجھے پکڑے رکھا اور مجھے چومنے کے لئے جھکے۔ میں نے پوری طاقت سے اپنا منھ بند کئے ہوئے، اپنے چہرے کو ایک طرف گھمانے کے لئے جوجھ رہی تھی۔ یہ کھینچا تانی چلتی رہی، مجھے کامیابی نہیں ملی۔

میرے پاس بچ نکلنے کے لئے کوئی جگہ نہیں تھی۔ ڈر نے میری آواز چھین لی تھی۔ چونکہ میرا جسم دروازے کو دھکیل رہا تھا، اس لئے تھوڑی دیر بعد انہوں نے مجھے جانے دیا۔ آنکھوں میں آنسو لئے میں وہاں سے بھاگی۔ بھاگتے ہوئے میں دفتر سے باہر نکلی اور سوریہ کرن بلڈنگ سے باہر آکر پارکنگ لاٹ میں پہنچی۔آخرکار مجھے ایک جگہ ملی، میں وہاں بیٹھی اور روتی رہی۔

میری  پوری زندگی میرے سامنے تیر رہی تھی۔ میں اپنے شہر آگرہ سے دہلی آکر پڑھنے والی اور اس کے بعد نوکری کرنے والی اپنی فیملی کی پہلی  فرد تھی۔ پچھلے تین سالوں میں میں نے دہلی میں رہنے اور کام کرنے میں اہل ہونے کے لئے اپنے گھر میں کئی لڑائیاں لڑی تھیں۔میری فیملی کی عورتیں پڑھا کرتی تھیں،لیکن انہوں نے کبھی کام نہیں کیا تھا۔ چھوٹے شہروں کی کاروباری فیملی میں لڑکیاں ہمیشہ ارینج  میریج کرکے اپنے گھر بسا لیا کرتی تھیں۔ میں نے اس پدری سماج  کے خلاف جدو جہد کی تھی۔

میں نے اپنے والد سے پیسے لینے سے انکار کر دیا تھا، کیونکہ میں اپنے دم پر کمانا چاہتی تھی۔ میں ایک کامیاب اور عزت دار صحافی بننا چاہتی تھی۔ میں ایسے سب چھوڑ‌کر ہارے ہوئے کھلاڑی کی طرح گھر واپس نہیں جا سکتی تھی۔میری ایک شریک کار سنجری چٹرجی، میرے پیچھے پیچھے پارکنگ تک آئی۔ اس نے مجھے روتے ہوئے ان کے کیبن سے باہر نکلتے ہوئے دیکھ لیا تھا۔ وہ کچھ دیر تک میرے ساتھ بیٹھی۔ اس نے مجھے مشورہ دیا کہ اس کے بارے میں سیما مصطفیٰ کو بتاؤں۔ شاید وہ اکبر سے بات کر سکتی تھیں اور اگر ایک بار اکبر کو یہ پتا چل جائے کہ سیما کو اس کے بارے میں پتہ ہے تو شاید وہ اپنی حرکتوں سے باز آ جائیں۔

سیما اس وقت بیورو چیف تھیں۔ ہم دونوں آفس واپس آئے۔ میں ان کے کیوبکل میں گئی اور ان کو آپ بیتی سنائی۔ وہ حیران نہیں تھی۔انہوں نے مجھ سے کہا کہ فیصلہ پوری طرح سے میرے ہاتھ میں ہے ؛ مجھے کیا کرنا ہے، اس کا فیصلہ مجھے ہی کرنا چاہیے۔ یہ1997 کی بات ہے۔ میں اکیلی تھی، کشمکش میں، بےبس اور بری طرح سے ڈری ہوئی تھی۔آخر میں اپنے ڈیسک پر لوٹ آئی۔ میں نے ایشین ایج کے نیٹویئر میسیجنگ سسٹم پر ان کو ایک پیغام بھیجا۔ میں نے ان کو بتایا کہ ایک مصنف کے طور پر میں ان کی کتنی عزت کرتی ہوں ؛ کہ کیسے ان کے برتاؤ سے ان کی وہ امیج خراب ہو رہی ہے اور میں چاہتی ہوں کہ وہ میرے ساتھ پھر سے ایسا نہ کریں۔

انہوں نے مجھے فوراً اپنے کیبن میں بلایا۔ میں نے سوچا تھا کہ وہ معافی مانگیں‌گے، لیکن میں غلط تھی۔ انہوں نے ایسا دکھایا کہ میری مخالفت سے ان کو تکلیف پہنچی ہے۔ انہوں نے مجھے اس بارے میں نصیحت دی کہ اپنے تئیں ان کے جذبات کو غلط سمجھ‌کر میں ان کی بےعزت‌کر رہی ہوں…اس رات گھر واپس لوٹتے ہوئے میں نے آخرکار یہ سمجھ لیا کہ دفتر میں حالات میں میرے قابو سے باہر ہیں۔ مجھے نوکری بدلنی ہوگی اور اس لئے میں نے نوکری کی تلاش شروع کر دی۔ اس کے بعد ایشین ایج میں گزارا ہوا ہر لمحہ خوف سے بھرا ہوا تھا۔

ہر بار جب وہ مجھے اپنے کیبن میں بلاتے تھے، میں ہزار دفعہ مرجاتی تھی۔ میں دروازے کو تھوڑا کھلا رکھ‌کر ان کے کمرے میں داخل ہوتی تھی اور میرا ایک ہاتھ دروازے کی ناب پر ہوتا تھا۔ اس سے ان کو حیرانی ہوتی تھی۔کبھی کبھی وہ چل‌کر دروازے تک چلے آتے اور اپنا ہاتھ میرے ہاتھ پر رکھ دیتے ؛ کبھی کبھی وہ اپنے جسم کو میرے جسم پر رگڑتے ؛ کبھی کبھی وہ میرے سکڑے ہوئے ہونٹوں پر اپنی زبان پھراتے۔ ہر بار میں ان کو دھکیل‌کر ان کے کمرے سے باہر نکل جاتی۔

اس کے بعد میری ایک شریک کار، جو میرے لئے کسی فرشتے کی طرح تھی، نے ایک راستہ نکالا۔ مجھے جب بھی ان کے کیبن میں بلایا جاتا، وہ ایک پل کے لئے انتظار کرتی اور کسی نہ کسی بہانے میرے پیچھے پیچھے کیبن میں چلی آتی۔ وہ میرے لئے حفاظتی دستہ  بن گئی۔لیکن یہ حکمت عملی کچھ حد تک ہی اثردار ثابت ہوئی۔ یہ محسوس کرکے کہ وہ جسمانی طور پر آگے نہیں بڑھ پا رہے ہیں، انہوں نے جذباتی چالیں چلنی شروع کر دیں۔ایک شام انہوں نے مجھے اپنے دفتر میں بلایا اور مجھ سے اجمیر درگاہ جاکر وہاں ان کے لئے دھاگہ باندھنے کی گزارش کی۔ انہوں نے ایسا دکھایا کہ اس کام کے لئے وہ کسی اور پر یقین نہیں کر سکتے۔

میں نے یہ دکھایا کہ میں اجمیر گئی ہوں، لیکن میں گھر پر ہی رہ گئی۔ لیکن کسی طرح سے ان کو میرے جھوٹ کا پتہ چل گیا اور انہوں نے مجھ پر مذہبی احساس جرم لادنے کی کوشش کی۔ اس وقت تک میں متضاد جذبات کا گڑبڑجھالا بن‌کر رہ گئی تھی۔ میں مجرم تھی۔ میں غیر محفوظ تھی۔ اور سب سے زیادہ میں سوچ سمجھ سے خالی  ہو گئی تھی۔آفس کا مطلب اب میرے لئے کسی بھی طرح سے آزادی نہیں رہ گئی تھی۔ یہ ایک اذیت خانہ تھا، میں اس سے باہر نکلنے کے لئے چھٹپٹا رہی تھی، لیکن مجھے کوئی دروازہ نہیں مل رہا تھا۔ میں بیوقوف کی طرح یہ یقین کر رہی تھی کہ ایک بار مجھے دوسری نوکری مل جائے، تو میں وقار کے ساتھ یہ نوکری چھوڑ پاؤں‌گی۔

چونکہ میں نے جسمانی تجاویز کی مخالفت کرنا (اپنے محدود طریقے سے) ہی جاری رکھا، اس لئے انہوں نے میری حفاظتی دستے  کو توڑنے کے لئے ایک اور حملہ کیا-وینو صندل، جو کہ ایشین ایج کی ٹیرو کارڈ ریڈر تھیں، جو ہفتہ وار کالم لکھتی تھیں۔وقت کے ساتھ-ساتھ وہ اکبر کی پرائیویٹ ایسٹرولاجر ہو گئی تھیں۔ ایک پریشان دوپہر کو جب انہوں نے میری حفاظت میں کھڑی رہنے والی میرے شریک کار کو دفتر سے بھیج دیا تھا تاکہ وہ مجھ پر پنجہ مار سکیں، وینو میرے ڈیسک پر آئیں اور مجھ سے کہا کہ اکبر اصل میں تم سے پیار کرتے ہیں اور مجھے ان کو کچھ وقت دینا چاہیے تاکہ وہ یہ دکھا سکے کہ وہ میرا کتنا خیال رکھتے ہیں۔

میں اس گھٹیا جانور کے تئیں نفرت سے بھر گئی۔ کیا وہ اصلی ہو سکتا تھا؟ کیا اس کے اندر کا مالکانہ تاثر اتنا بڑا ہو سکتا ہے کہ وہ ایک ایسٹرولاجر کا استعمال اپنے لئے ایک دلال کے طور پر کرے۔اس وقت تک میں کسی بات کو لےکے پر یقین نہیں تھی۔  کیا ہوگا اگر میں اس کی مزاحمت کرتی رہوں‌گی؟ کیا وہ ریپ کرے‌گا؟ کیا وہ مجھے نقصان پہنچائے‌گا۔ میں نے پولیس میں جانے کے بارے میں سوچا، لیکن میں ڈر گئی۔کیا ہوگا اگر وہ بدلہ لینے پر اتارو ہو گئے؟ میں نے سب کچھ اپنے ماں باپ کو بتانے کے بارے میں سوچا، لیکن مجھے معلوم تھا کہ یہ میرے ابھی ہی شروع ہوئے کیریئر کا خاتمہ ہوگا۔

بنا نیند کی کئی راتوں کے بعد میں اس نتیجہ پر پہنچی کہ کہ دوسری نوکری کی تلاش کرتے ہوئے ایشین ایج میں رہنا اب کوئی راستہ  نہیں رہ گیا تھا اور یہ کہ مجھے فوراً وہاں سے نکلنا ہوگا۔ میں نےہمت  جٹاکر ان سے کہا کہ میں یہ نوکری چھوڑ رہی ہوں۔وہ اپنا آپا کھو بیٹھے۔ وہ زور سے چیخے اور میں اپنی کرسی میں دبک گئی۔ تب انہوں نے جذباتیت سے مملو مجھے پکڑ‌کے ان کو چھوڑ‌کرنہیں جانے کے لئے کہا۔ میں جب ان کے کمرے سے نکلی، تو میری ہڈیاں تک کپکپا رہی تھیں۔

یہ ایک کبھی نہ ختم ہونے والے برے خواب کی طرح ہو گیا تھا، جس نے میری زندگی کے ہر پہلو کو متاثر کیا تھا۔ میری بھوک ختم ہو گئی تھی۔ میں اپنی نیند کھو چکی تھی۔ دوستوں کے ساتھ باہر جانے کی میری خواہش ختم ہو چکی تھی۔اس کے بعد یہ سب بدتر ہو گیا۔ اکبر نے مجھ سے کہا کہ وہ احمد آباد سے ایک ایڈیشن لانچ کر رہے ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ میں وہاں چلی جاؤں۔ میری  ساری مخالفت، میری دلیلوں کہ میرے ماں باپ مجھے وہاں جانے کی اجازت نہیں دے رہے ہیں، کو ان سنا کرتے ہوئے وہ اسکیمیں بنانے لگے۔

مجھے احمد آباد میں ایک گھر دے دیا جائے‌گا اور کمپنی ساری چیزوں کا خیال رکھے‌گی اور جب بھی وہ وہاں آئیں‌گے، میرے ساتھ رکیں‌گے۔ میرے ڈر کی کوئی حد نہیں تھی۔ خطرناک خوف کے اس وقت میں میں نے اپنے اندر سکون کے ایک سمندر کی کھوج کی۔میں نے مخالفت کرنا بند کر دیا۔ آہستہ آہستہ اگلے کچھ ہفتوں میں، میں نے اپنا ڈیسک صاف کرنا شروع کر دیا۔ میں اپنی کتابیں وغیرہ آہستہ آہستہ گھر لے جانے لگی۔ اس طرح سے احمد آباد جانے سے ایک دن پہلے کی  شام تک میرا ڈیسک صاف ہو چکا تھا۔

ایک بند لفافہ، جس میں میرا استعفیٰ  تھا، اکبر کے سکریٹری کو دیتے ہوئے میں اپنے عام وقت پر دفتر سے نکل گئی۔ میں نے ان کے سکریٹری سے وہ لفافہ اگلی شام کو دینے کی گزارش کی۔ یعنی میں نے احمد آباد کی فلائٹ نہیں لی ہے، یہ جان لینے کے کافی وقت بعد۔اگلے دن میں گھر پر ہی رہی۔ شام کو اکبر نے میرے گھر کے فون نمبر پر فون کیا۔ انہوں نے میرا فون نمبر آفس سے لیا تھا۔ دوسری طرف سے وہ بڑبڑا رہے تھے۔ وہ باری باری سے کبھی غصہ ہوتے، کبھی جذباتی ہوتے۔ میں ڈر گئی تھی۔ کیا ہوگا اگر وہ گھر تک چلے آئے۔

میں پوری رات جگی رہی اور اگلی ہی صبح اپنے ماں باپ کے پاس جانے کے لئے پہلی ٹرین میں بیٹھ گئی۔ گھر میں کسی نے بھی کچھ نہیں پوچھا۔ میرے ماں باپ کو یہ اندیشہ ہو گیا تھا کہ سب کچھ ٹھیک نہیں ہے۔ ہمارے درمیان کی لڑائی ختم ہو گئی تھی۔میں کچھ ہفتوں تک گھر پر رہی۔ اس کے بعد جب میں نے اپنے والد سے کہا کہ میں واپس اپنے کام پر دہلی جانا چاہتی ہوں، تب انہوں نے اس کی مخالفت نہیں کی۔ انہوں نے بس اتناہی کہا کہ کوئی اور نوکری دیکھو۔ اور یہ سننا تھا کہ میں زور زور سے رونے لگی۔

پچھلے 21 سالوں میں میں نے اس واقعہ کو پیچھے چھوڑ دیا تھا۔ میں نے طے کر لیا تھا کہ میں مظلوم   نہیں بنوں‌گی اور یہ ٹھان لیا تھا کہ ایک حیوان کی عیاشی کو اپنا کیریئر خراب نہیں کرنے دوں‌گی۔ حالانکہ، مجھے بیچ-بیچ میں برے خواب آتے رہتے ہیں، ہو سکتا ہے کہ اب وہ بند ہو جائیں۔نوٹ: مختلف خواتین کے ذریعے جنسی استحصال کے الزام لگائے جانے کے بعد ایم جے اکبر کو دی وائر کی طرف سے9 اکتوبر، 2018 کو سوال بھیجے گئے ہیں، لیکن اب تک ان کا جواب نہیں ملا ہے۔

(غزالہ  وہاب فورس نیوز میگزین کی ایگزیکٹیو ایڈیٹر اور ڈریگن آن یور ڈوراسٹیپ:منیجنگ چائنا تھرو ملیٹری پاور کی معاون مصنفہ ہیں۔)