خبریں

کیا نتیش کمار کو پرشانت کشور کی شکل میں ’من کا آدمی‘ مل گیا ہے؟

اسپیشل رپورٹ : 2015 کے بہار اسمبلی انتخاب میں جے ڈی یو کے لئے انتخابی حکمت عملی تیار کرنے والے پرشانت کشور نے حال ہی میں پارٹی کی رکنیت لی اور اب نتیش کمار نے ان کو پارٹی کا قومی نائب صدر بنا دیا ہے۔

جے ڈی یو کے قومی نائب صدر پرشانت کشور۔  (فوٹو : رائٹرس)

جے ڈی یو کے قومی نائب صدر پرشانت کشور۔  (فوٹو : رائٹرس)

واقعہ سال 2015 کا ہے۔  2014 کے لوک سبھا انتخاب میں بی جے پی کے لئے انتخابی تشہیر کی حکمت عملی تیار کرنے والے 40 سالہ پرشانت کشور (پی کے) نئے اسائن منٹ پر تھے۔  اس بار ان کو جے ڈ ی یوکو  جیت دلانے کی ذمہ ملا تھا۔پرشانت کشور پٹنہ میں ڈیرہ  ڈال چکے تھے۔  وہ بنیادی طور پر ٹی-شرٹ اور جنس پینٹ ہی پہنا کرتےہیں ۔  نتیش کمار کو ان کے کپڑوں سے دقت تھی، سو انہوں نے آدھا درجن سفید کرتا پاجامہ سلواکر پرشانت کشور کو دیا اور سرپرست  کی طرح  ایک ہدایت بھی دی کہ وہ یہ کپڑے ہی پہنا کریں۔

پرشانت کشور نے بہار اسمبلی انتخابات کی تیاریوں سے لےکر نتیجہ آنے اور حلفیہ تقریب تک نتیش کا دیا کرتا-پاجامہ ہی پہنا۔اس واقعہ کے تقریباً تین سال بعد 16 ستمبر کو پرشانت کشور دوبارہ کرتا-پاجامہ میں دکھے۔  لیکن، اس بار انتخابی حکمت عملی بنانے والے کے طور پر نہیں بلکہ جے ڈی یو رہنما کے طورپر۔

16 ستمبر کی صبح پٹنہ میں جے ڈی یو صدر دفتر میں نتیش کمار کے ہاتھوں انہوں نے پارٹی کی رکنیت لی۔ منچ پر وہ نتیش کمار کے دائیں طرف نظر آئے۔  نتیش کے  دائیں طرف نوکرشاہ سے رہنما بنے آر سی پی سنگھ بیٹھا کرتے تھے۔  اس دن یہ فرق ہوا اور آر سی پی سنگھ کو حاشیے کی کرسی ملی۔

اس پروگرام میں نتیش کمار نے میڈیا کے سامنے پرشانت کشور کابازو پکڑ‌کر کہا تھا، ‘وہ (پرشانت کشور) مستقبل ہیں۔  ‘ اسی وقت یہ لگنے لگا تھا کہ پارٹی میں ان کا قد دیگر رہنماؤں سے بڑا ہونے جا رہا ہے۔سیاست میں کسی کے کسی سیاسی پارٹی میں شامل ہونے کی خبروں کی زندگی ایک دن سے زیادہ نہیں ہوتی۔  لیکن  پرشانت کشور کے جے ڈی یومیں خیرمقدم کی خبر کئی طرح کے قیاس آرائیوں  کے ساتھ منسلک ہوکر کافی دنوں تک پٹنہ کی سیاسی فضا میں گھومتی رہی، تو اس کی مضبوط وجہیں بھی ہیں۔

بہار میں ایک برہمن فیملی میں پیدا ہوئے پرشانت کشور نے اپنا کیریئر بہار سے ہی شروع کیا تھا۔  وہ یہاں عوامی صحت کے کارکن تھے۔  بہار کے بعد انہوں نے آندھرا پردیش میں کام کیا۔صحت کے شعبے میں کام کرتے ہوئے عالمی صحت تنظیم کے کچھ اہلکاروں کی نظر ان پر پڑی۔  وہ پرشانت کشور کے مرید ہو گئے اور محض 23 سال کی عمر میں پرشانت کشور کو اقوام متحدہ میں ٹریننگ شپ مل گئی۔

بتایا جاتا ہے کہ 2010 میں اقوام متحدہ نے ان کو مغربی افریقہ میں ایک مشن کاچیف بناکر بھیجنے کا فیصلہ لیا۔  وہ مغربی افریقہ میں کام کرنے لگے اور اسی دوران ان کو پلاننگ کمیشن کی ایک رپورٹ مل گئی جس میں ہندوستان کی پسماندہ ریاستوں میں صحت کی خراب صورتحال کے بارے میں لکھا گیا تھا۔

پرشانت کشور نے پلاننگ کمیشن کے اعداد و شمار کو جمع کر کے نتیجہ نکالا کہ ہندوستان کے دولت مند صوبوں میں بھی صحت کو لے کر سسٹم کی  بدتر حالت ہے۔  ان صوبوں میں گجرات بھی شامل تھا۔انہوں نے اس کی ایک رپورٹ تیار کرکے اس وقت کے وزیر اعظم منموہن سنگھ کو بھیج دی۔ منموہن سنگھ نے یہ رپورٹ متعلقہ ریاستوں کے وزیراعلیٰ کو بھیج دی۔ ان میں گجرات کے اس وقت کے وزیراعلیٰ نریندر مودی بھی تھے۔

اس رپورٹ نے نریندر مودی کا دھیان کھینچا اور انہوں نے پرشانت کشور سے ملنے کی خواہش ظاہر کی۔  2011 میں گجرات میں دونوں کی ملاقات ہوئی۔نریندر مودی نے پرشانت کشور کو سماجی اور صحت کے شعبے میں کام کرنے کی ذمے داری سونپی۔  یہ سب کرتے ہوئے وہ گجرات اسمبلی انتخاب میں بی جے پی اور مودی کے انتخابی تشہیر کی حکمت عملی پر بھی کام کرنے لگے۔

2012 کے گجرات اسمبلی انتخاب میں پرشانت کشور نے نریندر مودی کے لئے چناوی  وار روم کی ذمے داری لی۔  اس انتخاب میں نریندر مودی کی جیت ہوئی اور وہ تیسری بار وزیراعلیٰ کی کرسی پر قابض ہوئے۔اس کے انعام کے طور پر ان کو 2014 کے لوک سبھا انتخابات میں نریندر مودی کے لئے کام کرنے کا بڑا موقع ملا۔  لوک سبھا انتخابات میں بی جے پی کی شاندار جیت ہوئی، لیکن اس جیت کے ساتھ ہی پرشانت کشور کی بی جے پی سے الگ ہونے کی اسکرپٹ بھی لکھنی شروع ہو گئی تھی۔

پچھلے مہینے ستمبر میں جے ڈی یوسپریمو نتیش کمار کی موجودگی میں پرشانت کشور پارٹی میں شامل ہوئے تھے۔  (فوٹو : پی ٹی آئی)

پچھلے مہینے ستمبر میں جے ڈی یوسپریمو نتیش کمار کی موجودگی میں پرشانت کشور پارٹی میں شامل ہوئے تھے۔  (فوٹو : پی ٹی آئی)

سینئر صحافی سنکرشن ٹھاکر اپنے مضمون میں لکھتے ہیں،’پرشانت کشور مودی کے 2014 کے انتخابی تشہیر سے یہ سوچ‌کر جڑے تھے کہ انتخابی جیت‌کے بعد ان کو دہلی میں اہم عہدہ ملے‌گا۔  یہی سوچ‌کر انہوں نے انتخاب کے فوراً بعد اپنی تنظیم سٹیزن فار اکاؤنٹیبل گورننس (سی اے جی) کو تحلیل کر کےانڈین پیپلس ایکشن کمیٹی (آئی پیک) بنائی تھی۔  آئی پیک کے قیام کی پالیسی کی وکالت کے  پلیٹ فارم کے طور پر کی گئی تھی، جو وزیر اعظم کے ساتھ مل‌کر کام کرتا۔  لیکن، کشور نے جیسا تصور کیا تھا، ویسا کچھ بھی نہیں ہوا۔  ‘

لہذا، پرشانت کشور خود کو ٹھگا ہوا محسوس کرنے لگا۔  اسی وقت ان کے ذہن میں نتیش کمار کا خیال آیا۔یہ لوک سبھا انتخاب کے ختم ہونے کے چار-پانچ مہینے کے بعد کا وقت تھا، جب پرشانت کشور نے جے ڈی یو سے رابطہ کیا۔  پھر نتیش کمار سے ان کی ملاقات ہوئی۔  لوک سبھا انتخاب میں شرمناک ہار‌کی وجہ سے نتیش کمار بیک فٹ پر تھے۔  وہ ہار کی اخلاقی ذمہ داری لیتے ہوئے سی ایم کے عہدے سے استعفیٰ دے چکے تھے۔

ایسے نازک وقت پر پرشانت کشور ان کے رابطے میں آئے تھے۔  پرشانت کشور کے پاس لوک سبھا انتخاب میں مودی کی جیت کے طور پر سکسیس اسٹوری تھی۔نتیش کمار ان سے بہت متاثر ہوئے۔  ان کو لگا کہ 2015 کے بہار اسمبلی انتخاب میں وہ جے ڈی یو کی جیت کو یقینی بنا پائیں‌گے۔  لہذا دونوں کے درمیان انتخابی حکمت عملی پر کام کرنے پر اتفاق ہوگیا۔2015 کی شروعات سے پرشانت کشور نے نتیش کمار کے پٹنہ کے 7 سرکلر روڈ واقع بنگلہ سے کام کرنا شروع کر دیا۔

دراصل، پرشانت کشور ہمیشہ ہی مرکزی طاقت کے ارد-گرد کام کرنے کے شوقین رہے ہیں۔  نریندر مودی کے ساتھ کام کرتے ہوئے وہ سیدھے مودی کو رپورٹ کرتے تھے۔  نتیش کمار کے ساتھ جب کام شروع کیا، تو یہاں بھی کسی کام کے لئے وہ سیدھے نتیش کمار کے پاس پہنچتے تھے۔اسمبلی انتخاب کے لئے حکمت عملی تیار کرتے ہوئے نتیش کمار اور پرشانت کشور کے درمیان دوستانہ رشتے کی شروعات ہوئی۔نتیش کمار اور پرشانت کشور کی ایک فریم میں قید تصویروں میں نتیش کمار اور پرشانت کشور کے درمیان دوستانہ رشتے اور جذباتی جڑاؤ کو دیکھا جا سکتا ہے۔

جے ڈی یو سے جڑے ایک رہنما نے نتیش اور کشور کے درمیان کی کیمسٹری کو نشان زد کرنے کے لئے ایک مثال دیتے ہوئے کہا، ‘پرشانت کشور کی عمر نتیش کمار سے 20 سال کم ہے۔  اس کے باوجود کبھی بھی نتیش کمار نے ان کو تم یا سیدھے پرشانت یا پھر پرشانت کشور نہیں کہا۔  ان کو جب بھی خطاب کیا، تو ‘جی’کے ساتھ۔  ‘کہا تو یہ بھی جاتا ہے کہ پرشانت کشور سے نتیش کمار اتنے متاثر تھے کہ ان کے کہنے پر ہی جیتن رام مانجھی کو سی ایم کی کرسی سے ہٹاکر نتیش نے دوبارہ سی ایم کے طور پر اپنی تاج پوشی کر لی تھی۔

بہر حال، 2015 کے اسمبلی انتخابات میں جے ڈی یو-آر جےڈی  مہاگٹھ بندھن کی غیر متوقع جیت‌کے محض دو مہینے بعد ہی نتیش کمار نے پرشانت کشور کو پلاننگ اور پروگرام کا صلاح کار مقررکر دیا۔  یہ عہدہ کابینہ  وزیر کے عہدے کا تھا۔  بطور صلاح کار پرشانت کشور کا اہم کام سی ایم نتیش کمار کی سات نشچیہ یوجناکو عملی جامہ پہنانا تھا۔حالانکہ، جولائی 2017 میں مہاگٹھ بندھن سے الگ ہوکر نتیش کمار نے بی جے پی کے ساتھ حکومت بنائی، تو پرشانت کشور نے بھی صلاح کار کا عہدہ چھوڑ دیا۔

اس درمیان نتیش کمار اور پرشانت کشور کے درمیان گاہےبہ گاہے بات-ملاقات ہوتی رہی اور اس سال ستمبر میں آخرکار پرشانت کشور جے ڈی یو میں شامل ہو گئے۔اصل میں سال 2015 کے بہار اسمبلی انتخابات میں مہاگٹھ بندھن (جے ڈی یو جس کا حصہ تھا) کی شاندار جیت میں کردار کے ساتھ ہی پرشانت کشور کی ایک اور چیز نے نتیش کمار کو بہت متاثر کیا تھا۔  وہ تھی حکمت عملی۔نتیش خود بھی اخلاقیات اور غیراخلاقیات سے پرے ہوکر کسی بھی طرح کی حکمت عملی کو سیاست کے لئے اہم مانتے ہیں اور اس لحاظ سے پرشانت کشور ان کے ‘من کا آدمی’نکلے۔

سیاسی تجزیہ کار مہیندر سمن کہتے ہیں،’نتیش کمار حکمت عملی بنانے میں ماہر ہیں۔ وہ ہمیشہ سے مانتے آئے ہیں کہ سیاست میں حکمت عملی بہت ضروری ہے۔  وہ حکمت عملی بناکر کام کرتے ہیں۔  ہاں، یہ بات اور ہے کہ کبھی ان کی حکمت عملی کام کر جاتی ہے، کبھی وہ فیل بھی ہو جاتے ہیں۔  2015 کے بہار اسمبلی انتخابات میں وہ پرشانت کشور کو بھی حکمت عملی بناکر کام کرتے دیکھ چکے ہیں۔  یہ ایک اہم وجہ ہے ان کو جے ڈی یو میں لانے کی۔ ‘وہ آگے کہتے ہیں،’دوسری بات یہ ہے کہ نتیش کمار کو ذہنی طور سے متاثر کن لوگ پسند ہیں۔  پرشانت کشور میں یہ خوبی ہے۔  اس لئے بھی دونوں ایک ساتھ آئے ہیں۔  ‘

پرشانت کشور۔  (فوٹو : پی ٹی آئی)

پرشانت کشور۔  (فوٹو : پی ٹی آئی)

بی جے پی، کانگریس،آر جے ڈی  اہم پارٹیوں کے باس کے ساتھ اچھے تعلقات کے باوجود پرشانت کشور ایک ایسی پارٹی میں شامل ہوئے ہیں جس کا ووٹ بینک محض 16سے17 فیصدی ہے۔2015 کے بہار اسمبلی انتخابات میں جب پرشانت کشور جے ڈی یو کا وار روم سنبھال رہے تھے، تب بھی جے ڈی یو کا ووٹ بینک نہیں بڑھ سکا تھا۔  اس انتخاب میں جے ڈی یو کو کل جمع 16.83 فیصد ووٹ ملے تھے، جو 2014 کے لوک سبھا انتخابات کے بہ نسبت محض 0.79 فیصد (16.04 فیصد ووٹ) زیادہ تھے۔

ایسے میں سوال یہ بھی اٹھ رہا ہے کہ پرشانت کشور آخر جے ڈی یو میں ہی کیوں شامل ہوئے؟اس سوال کے جواب میں جے ڈی یو کے ایک رہنما نے نام ظاہرنہیں کرنے کی شرط پر کہا، ‘پرشانت کشور کسی پارٹی کا ادنیٰ-سا رہنما نہیں بننا چاہتے ہیں۔  اگر وہ بی جے پی، کانگریس یاآر جے ڈی  میں شامل ہوتے تو ان کی حیثیت دوسری یا تیسری قطار کے کسی رہنما سے زیادہ نہیں ہوتی۔  جے ڈی یو میں انہیں دوسری کسی بھی پارٹی سے زیادہ ملے‌گا۔  جس دن وہ جے ڈی یو میں شامل ہوئے تھے، اسی دن یہ دکھ گیا تھا کہ پرشانت کشور پارٹی کے سیکنڈ ان کمانڈ ہو سکتے ہیں۔  ‘

منگل کو جے ڈی یو کے قومی نائب صدر کے طور پرپرشانت کشور کی تاج پوشی ہوئی، جو بتاتی ہے کہ وہ بہت ساری امیدیں لےکر جے ڈی یو میں آئے ہیں۔حالانکہ، جے ڈی یو میں پرشانت کشور کا کیا کردار ہوگا، اس کو لےکر پارٹی کی اعلیٰ سطح پر اب تک کسی طرح کا صلاح مشورہ نہیں ہوا ہے۔جے ڈی یو میں پرشانت کشور کے شامل ہوئے تقریباً ایک مہینہ ہونے جا رہا ہے، لیکن پارٹی میں ان کی سرگرمی صفر ہے۔  سیاستداں کے لئے ٹوئٹر اور فیس بک اپنی بات کرنے کا مضبوط ذریعہ ہے، لیکن پرشانت کشور ٹوئٹر پر بھی فعال نہیں ہیں۔  پچھلے 8 مہینے میں ان کے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر محض 11 ٹوئٹ ہیں۔  ان میں سیاسی ٹوئٹ 2سے3 ہی ہیں۔

جے ڈی یو کے ایک دیگر رہنما نے رازداری کی شرط پر بتایا،’اب تک پارٹی کی اعلیٰ قیادت نے پرشانت کشور کے کردار پر کوئی بات نہیں کی ہے۔  ‘اس سےمتعلق جے ڈی یو ترجمان اروند نشاد نے کہا، ‘پارٹی کے قومی صدر نتیش جی‌کی سطح پر اس طرح کے فیصلہ لئے جاتے ہیں۔  ‘پارٹی ذرائع سے پتا چلا ہے کہ جے ڈی یو میں ان کا کردار پردے کے آگے نہیں بلکہ پردے کے پیچھے ہوگا۔  یعنی کہ جس طرح پہلے وہ سیاسی پارٹیوں کے وار م میں انتخابی تشہیر اور ووٹروں کو لبھانے کی حکمت عملی بنایا کرتے تھے، اب وہی کام وہ جے ڈی یو کے لئے کریں‌گے۔

سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پرشانت کشور کا جے ڈی یو میں شامل ہونا نہ تو پرشانت کشور کے لئے بہت فائدےمند معاہدہ ہے اور نہ ہی جے ڈی یو کے لئے۔  کیونکہ نہ تو پرشانت کشور عوامی لیڈر ہیں اور نہ ہی جے ڈی یو ایسی سیاسی پارٹی کہ اپنے دم پر بڑی جیت حاصل کر لے۔ہاں، جے ڈی یو کو اس لحاظ سے تھوڑا فائدہ ضرور ہوگا کہ بیک روم مینجمنٹ میں پرشانت کشور کی پوری مدد مل جائے‌گی۔  دوسری بات یہ کہ بی جے پی سمیت تمام پارٹیوں سے پرشانت کشور کے اچھے تعلقات ہیں اور اس کا فائدہ بھی جے ڈی یو کو ملے‌گا۔

کہا یہ بھی جا رہا ہے کہ نتیش کمار کی سیاسی وراثت سنبھالنے کے لئے پرشانت کشور جے ڈی یو میں شامل ہوئے ہیں۔  لیکن، سیاسی تجزیہ کار ایسے خیال کو مضحکہ خیز مانتے ہیں۔سینئر صحافی اور سیاسی تجزیہ کار سرور احمد کہتے ہیں،’سیاسی وراثت کوئی کسی کو سونپ نہیں سکتا ہے۔  یہ کمائی جاتی ہے۔  پرشانت کشور کے لئے عوامی لیڈر بننا بہت مشکل ہے کیونکہ اب تک عوام نے پرشانت کشور کا چہرہ نہیں دیکھا ہے اور نہ ہی ان کی تقریر سنی ہے۔  ‘

وہ تیجسوی یادو کی مثال دیتے ہوئے کہتے ہیں،’لالو پرساد یادو کا بیٹا ہونے کے ناطے تیجسوی یادو کو فائدہ ملا، لیکن یہ بھی سچ ہے کہ تیجسوی یادو کے چہرے اور ان کی تقریروں سے عوام آگاہ ہے۔  تیجسوی عوامی لیڈر کے طور پر اپنی پہچان قائم کر چکے ہیں۔  ایسی پہچان قائم کرنا پرشانت کشور کے لئے بہت-بہت مشکل ہے۔  ‘پٹنہ کے سیاسی گلیاروں میں یہ بھی بحث ہے کہ برہمن کارڈ کھیلنے کے لئے برہمن خاندان کے پرشانت کشور کو جے ڈی یو میں لایا گیا ہے۔  لیکن، ایسا خیال عملی طور سے پرے ہی ہے۔

بہار میں اعلیٰ ذاتوں کا ووٹ بینک 14سے15 فیصد ہے۔اس میں برہمن ووٹر تقریباً5 فیصد ہی ہوں‌گے۔  اس کے برعکس او بی سی ووٹ بینک تقریباً 60 فیصد ہے۔نتیش کمار اتنے بھی ناعاقبت اندیش نہیں ہوں‌گے کہ 60 فیصد ووٹ بینک کو نظرانداز کرکے پانچ فیصد ووٹ پر محنت کریں‌گے۔  وہ بھی تب جب ان کو اچھی طرح سے پتا ہے کہ اعلیٰ ذاتوں کا ووٹ روایتی طور پر بی جے پی کو ملتا رہا ہے۔

(مضمون نگار آزاد صحافی ہیں اور پٹنہ میں رہتے ہیں۔  )