فکر و نظر

رویش کا بلاگ: لوک پال سرچ کمیٹی کی ممبر ارندھتی بھٹاچاریہ کا ریلائنس گروپ سے جڑنا کتنا صحیح ہے؟

کیا لوک پال سرچ کمیٹی کی سربراہ جسٹس رنجنا پرکاش دیسائی کو ان کو کمیٹی سے ہٹا نہیں دینا چاہیے یا ارندھتی بھٹاچاریہ کو خود  استعفیٰ نہیں دینا چاہیے؟

اسٹیٹ بینک آف انڈیا کی سابق صدر ارندھتی بھٹاچاریہ (فوٹو : پی ٹی آئی)

اسٹیٹ بینک آف انڈیا کی سابق صدر ارندھتی بھٹاچاریہ (فوٹو : پی ٹی آئی)

جو لوک پال چنے‌گا وہی ریلائنس کی کمپنی میں ڈائریکٹر بھی ہوگا؟ اگر یہ صحیح ہے تو واقعی یہ کہنے کا وقت ہے، ہم کریں تو کیا کریں۔ واہ مودی جی واہ۔ ستمبرمہینے  میں لوک پال کے لئے آٹھ ممبروں کی سرچ کمیٹی تشکیل کی گئی۔ اس کمیٹی میں ارندھتی بھٹاچاریہ کو بھی ممبر بنایا گیا ہے۔ جمعرات کو بزنس اسٹینڈرڈ اور کئی اخباروں میں خبر چھپی ہے کہ ارندھتی بھٹاچاریہ مکیش امبانی کی کمپنی ریلائنس انڈیا لمیٹڈ کے بورڈ آف ڈائرکٹرس کا حصہ ہوں‌گی۔بزنس ٹوڈے نے بتایا ہے کہ ارندھتی ایڈیشنل ڈائریکٹر کے طور پر کمپنی کے بورڈ کا حصہ ہوں‌گی۔ وہ اسٹیٹ بینک آف انڈیا کے اہم عہدے سے ریٹائر ہوئی ہیں۔

کیا اسی طرح سے غیر جانبدارانہ طریقے سے لوک پال چنا جائے‌گا؟ کیا ارندھتی بھٹاچاریہ کو لوک پال کی سرچ کمیٹی سے استعفیٰ نہیں دینا چاہیے؟ ریلائنس کمپنی سے ڈائریکٹر کے طور پر پانچ سال تک جڑنے والی ارندھتی بھٹاچاریہ کیسے لوک پال سرچ کمیٹی کا حصہ ہو سکتی ہیں؟ کیا سرچ کمیٹی کی سربراہ جسٹس رنجنا پرکاش دیسائی کو ان کو کمیٹی سے ہٹا نہیں دینا چاہیے یا ارندھتی بھٹاچاریہ کو خود سے استعفیٰ نہیں دینا چاہیے؟

پانچ سال بیتنے جا رہے ہیں ابھی تک لوک پال کی تشکیل نہیں ہوئی ہے۔ اس کا سسٹم کیسے کام کرے‌گا، اس کے ملازم کیا ہوں‌گے، دفتر کہاں ہوگا، کچھ پتہ نہیں ہے مگر اب جاکر سرچ کمیٹی بنائی گئی ہے وہ بھی سپریم کورٹ کے بار بار پوچھنے پر۔ لوک پال بنے‌گا بھی تو انتخابات میں تشہیر کے لئے بنے‌گا کہ بڑا بھاری کام کر دیا ہے۔ ایئر انڈیا کو بچانے کے لئے National Small Savings Fundکے پیسے کو ڈالا گیا ہے۔ حکومت ہند نے اسمال سیونگس اسکیم  سے نکال‌کر 1000 کروڑ ایئر انڈیا کو دیا ہے۔

پبلک پروویڈنٹ فنڈ، سکنیا اسمردھی یوجنا اور کسان وکاس پتر میں جو آپ پیسہ لگاتے ہیں، اسی گروپ سے 1000 کروڑ نکال‌کر ایئر انڈیا کو دیا گیا ہے۔ اس پیسے کی سرمایہ کاری حکومت پبلک سیکٹر  کی کمپنیوں اور گورمنٹ سکیورٹی میں سرمایہ کاری کرتی ہی ہیں۔19-2018 میں نیشنل اسمال سیونگ  اسکیم میں ہندوستان کے عام   لوگوں نے 1 کھرب روپے جمع کئے ہیں۔ ایئر انڈیا نے حکومت سے 2121 کروڑ کی مدد مانگی تھی۔ اس پر تیل کمپنیوں کا ہی 4000 کروڑ سے زیادہ کا بقایا ہے۔ یہ رپورٹ ٹائمس آف انڈیا نے کی ہے۔

کیا نیشنل اسمال  سیونگ  اسکیم کا پیسہ ایک ڈوبتے جہاز میں لگانا مناسب ہوگا؟ صحافی شیکھر گپتا نے ٹوئٹ کیا ہے کہ یہ حکومت ہند کی طرف سے بھروسہ توڑنے جیسا ہے۔ لوورمڈل کلاس  کی محنت کی کمائی ڈوبتے جہاز میں لگائی جا رہی ہے۔ لٹے ملک کا عام شہری۔ اس پر فنانشیل ایکسپریس کے مدیر سنیل جین نے ٹوئٹ کیا ہے کہ حکومت ہند نے ایئر انڈیا کو بازار سے لون لینے کے لئے گارنٹی دی ہے۔ مانا جاتا ہے کہ ایسے میں نیشنل اسمال سیونگ اسکیم کے ڈوبنے کی بات نہیں ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ ایئر انڈیا کو بیچنے کی کوشش ہوئی مگر کوئی خریدار نہیں آیا۔

بزنس اسٹینڈرڈ کی رپورٹ ہے کہ سرکاری بینکوں نے این ٹی پی سی کے لئے فنڈ کاانتظام کیا ہے تاکہ وہ ان کوئلہ مبنی بجلی گھر وں کو خرید سکے جو نقصان میں چل رہے ہیں۔ ایسی بجلی پیداوار اکائی کی تعداد 32 بتائی جاتی ہے۔ ان میں سے این ٹی پی سی نے خریدنے کے لئے10-9 اکائیوں کا انتخاب کیا ہے، جن کی کل پیداوار صلاحیت 10 گیگاواٹس ہے۔ جب بجلی کی مانگ تیزی سے بڑھتی جا رہی ہو تب بجلی پیداوار اکائیوں کے نقصان میں جانے کی کیا وجہ ہے؟

ادھر کا نقصان، ادھر کا سودا۔ اس پالیسی کے تحت ایک جاتا ہے کہ ہم دیوالیہ ہو گئے ہیں۔ دوسرا جاتا ہے کہ ٹھیک ہے، ہم کم قیمت  میں آپ کو خرید لیتے ہیں۔ جو بینک دیوالیہ ہونے والی کمپنی کی وجہ سے نقصان میں ہیں، وہی بینک ان کمپنیوں کو کم قیمت  میں خریدنے کے لئے دوسری کمپنی کو لون دے دیتے ہیں۔ یہ کمال کا حساب-کتاب ہے جس کو سمجھنے کے لئے آپ کو اس طرح کے موضوعات میں ماہر ہونا پڑے‌گا۔ جاننا ہوگا کہ کیسے اس پروسیس  میں پرانا مالکانہ مضبوط ہو رہا ہے یا اس کی جگہ نیا مالکانہ جگہ لے رہا ہے۔ جاننے کی کوشش کیجئے۔

(بہ شکریہ رویش کمار فیس بک پیج)