فکر و نظر

رویش کا بلاگ : جب آئین کی دھجیاں اڑتی ہیں، تب رات کو جوتے کی  ٹاپ سنائی دیتی ہے

راکیش استھانا کے بارے میں آلوک ورما نے سپریم کورٹ سے اپنی فریاد میں کہا ہے کہ یہ آدمی اکثریت کے فیصلے کے خلاف کام کرتا ہے اور کیس کو کمزور کرتا ہے۔

CBI-Modi-Rakesh-Asthana-Alok-Verma

جب ہندوستان کی عوام گہری نیند  سو رہی تھی، تب دہلی پولیس کے جوان اپنے جوتے کی لیس باندھ رہے تھے۔ بےخبر عوام کو ہوش ہی نہیں رہا کہ پولیس کے جوانوں کے جوتے سی بی آئی ہیڈکوارٹر  کے باہر تعینات ہوتے ہوئے شور مچا رہے ہیں۔ جمہوریت کو کچلنے میں جوتوں کا بہت رول ہے۔ جب آئین کی دھجیاں اڑتی ہیں، تب رات کو جوتے باندھے جاتے ہیں۔ پولیس کے جوان سی بی آئی دفتر کو گھیر لیتے ہیں۔ رات کے پونے ایک بج رہے ہوتے ہیں۔ ویسے انگریزی میں وہ گڈمارننگ کہنے کا ہوتا ہے۔ ہم رات کو رات کہتے ہیں۔

 ملک پر کالی رات کا سایہ گہرا گیا ہے۔ تبھی ایک افسر جو شاید جاگا ہوا تھا، اس کرسی پر بیٹھنے کے لئے گھر سے نکلتا ہے جس کرسی پر بیٹھے آلوک ورما نے اس کے خلاف سی وی سی  سے سنگین الزامات میں جانچ کی عرضی دی ہے۔ سی وی سی کے وی چودھری ایم ناگیشور راؤ کو سی بی آئی کا نیا چیف بنانے کا راستہ صاف کر دیتے ہیں۔ ایم ناگیشور راؤ اپنے نمبر ون چیف آلوک ورما کو ہٹانے کا حکم دیتے ہیں جس کو چھٹی پر بھیجنا کہتے ہیں۔ آلوک استھانا جن کی گرفتاری کی اجازت مانگی گئی تھی ان کو بھی ہٹا دیا جاتا ہے۔ کالی رات کے بند کمرے میں بارہ افسروں کو ہیڈکوارٹر  سے باہر بھیجنے کے حکم پر دستخط ہوتے ہیں۔ نیند میں سوئی عوام کروٹ بدل لیتی ہے۔ تختہ پلٹ  ہو جاتا ہے۔

ہم جن آہٹوں کی بات کرتے رہے ہیں، وہ سنائی دیں، اس لئے جوتوں نے وفاداری نبھائی ہے۔ اب آپ پر ہے کہ آپ ان جوتوں کا اشارہ سمجھ پاتے ہیں یا نہیں۔ مدہوش عوام اور غلام میڈیا آنکھیں بند کر لیتی ہے۔ شہنشاہ کا انصاف شہنشاہ کے لئے ہوتا ہے۔ شہنشاہ نے اپنے لئے انصاف کر لیا۔ دی وائر میں سواتی چترویدی نے لکھا ہے کہ سی بی آئی کی تاریخ میں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ انسپکٹر جنرل (IG) کو چیف بنا دیا گیا۔ سواتی نے لکھا ہے کہ ورما نے وزیر اعظم دفتر کے قریبی یعنی جگری راکیش استھانا کی گرفتاری کی اجازت مانگی تھی اور وہ رافیل  ڈیل معاملے میں جانچ کی طرف بڑھنے لگے تھے۔

 پرشانت بھوشن، یشونت سنہا اور ارون شوری سے مل لینے کی خبر سے حکومت راتوں کو جاگنے لگی۔ دن میں وزیر اعظم کی تقریروں کا وقت ہوتا ہے اس لئے ‘ انصاف ‘ کا وقت رات کا چنا گیا۔ آدھی رات کے بعد جب جب حکومتیں جاگیں ہیں تب تب ایسا ہی ‘ انصاف ‘ ہوا ہے۔ جوتوں کی ٹاپ سنائی دیتی ہے۔ جنوری 2017 میں آلوک ورما کو ایک کالیجئم سے دو سال کے لئے سی بی آئی کا چیف بنایا گیا۔ آلوک ورما کی مدت  اگلےسال فروری تک تھی۔ اس کا لیجئم میں چیف جسٹس آف انڈیا بھی تھے۔

 جب آلوک ورما کو ہٹایا گیا تب کوئی کالیجئم  نہیں بنا۔ چیف جسٹس آف انڈیا تک کو نہیں بتایا گیا۔ جب آلوک ورما کو ہٹاکر ایم ناگیشور راؤ کو چیف بنایا گیا تب اس کے لئے کوئی کالیجئم  نہیں بنایا گیا۔ چیف جسٹس آف انڈیا کا کوئی رول  ہی نہیں رہا۔ آلوک ورما نے وزیر اعظم کے ‘ انصاف ‘ کے خلاف سپریم کورٹ سے انصاف کی اپیل کی ہے۔

آپ ہندی کے قارئین کا قتل اگر ہندی کے اخباروں اور چینلوں نے نہیں کیا ہوتا تو آپ کو پتا ہوتا کہ اگست کے مہینے میں جب سی بی آئی لندن کی عدالت میں اپنے دستاویز لےکر پہنچی کہ ان گواہوں کے بیانات کی بنیاد پر وجے مالیہ کو ہندوستان لے جانا ضروری ہے تب ان سات گواہوں کے بیانات پر دستخط ہی نہیں تھے۔ وجے مالیہ 36 سوٹ کیس لےکر بھاگا تھا۔ سواتی چترویدی نے دی وائر میں اس کو رپورٹ کیا تھا۔

وجے مالیہ نے تبھی تو کہا تھا کہ بھاگنے سے پہلے جیٹلی سے ملا تھا۔ جیٹلی نے تردید کی۔ راہل گاندھی نے دستاویزوں کے ساتھ الزام لگایا کہ جیٹلی کی بیٹی داماد کے لا ء فرم کو میہل چوکسی نے فیس دی تھی جو اس کے بھاگنے کے تنازعہ کے بعد لوٹا دی گئی۔ ایک اخلاقی سوال اٹھایا گیا تھا مگر تمام اخباروں نے اس کو عوام تک پہنچنے سے روک دیا۔ جب خبروں کے پر کترے جاتے ہیں تب عوام کے ہی پر کترے جاتے ہیں۔ پاؤں  پرند وں کے کٹتے ہیں اور خون عوام کا بہتا ہے۔

راکیش استھانا جو ایک ویڈیو میں خود کو سردار پٹیل کے جیسا بتا رہے ہیں، 2016 میں آر کے دتا کو ہٹاکر سی بی آئی میں لائے گئے تھے۔ ان کے بارے میں آلوک ورما نے سپریم کورٹ سے اپنی فریاد میں کہا ہے کہ یہ آدمی  افسروں کی اکثریت کے فیصلے کے خلاف جاکر کام کرتا ہے اور کیس کو کمزور کرتا ہے۔ آلوک ورما نے کہا ہے کہ وہ ایسے کیس کی ڈٹیل دے سکتے ہیں۔

سوال اس سی وی سی سے ہے، جس کے پاس استھانا اور راؤ کی شکا یتں تھیں۔ دھیمی رفتار کے اخبار کی طرح کام کرنے سے سوالوں سے بچنے کا موقع مل جاتا ہے۔ سی وی سی اپنے فرض کو نبھانے میں ناکام رہی، اس لئے سب سے پہلے کے وی چودھری کو برخاست کرنا چاہیے تھا مگر چودھری نے ‘ چودھری ‘ کی لاج رکھ لی! جب استھانا  معاملے کی شکایت پہنچی تب سی وی سی نے کیا کیا؟ جانچ شروع کی؟

انڈین ایکسپریس کے سشانت سنگھ کی خبر ہے۔ جب استھانا نے آلوک ورما کی شکایت کی تو سی بی آئی سے دستاویز مانگے گئے۔ سی بی آئی نے کہا کہ استھانا نے کیا شکایت کی، وہ تو بتائیے مگر سی وی سی نے نہیں بتایا۔ سی بی آئی کے جوائنٹ  ڈائریکٹر نے 9 اکتوبر کو سی وی سی کو خط لکھ‌کر پوچھا تھا۔ اس معاملے میں وزیر خزانہ جیٹلی بیان دے رہے ہیں۔ دو افسروں نے ایک دوسرے پر الزام لگائے ہیں۔ ادارے کا مذاق اڑنے نہیں دیا جا سکتا تھا۔ یہ ضروری تھا کہ دونوں کے الزامات کی جانچ کے لئے ایس آئی ٹی بنے اور ان کو اپنے اثرات سے دور رکھا جائے۔

ونیت نارائن بنام حکومت ہند کے معاملے میں سپریم کورٹ کا حکم ہے کہ سی بی آئی کے ڈائریکٹر کی مدت  طے وقت کے لئے مستقل ہوگی۔ اگر مخصوص حالات  میں تبادلہ کرنا بھی ہوگا تب سلیکشن کمیٹی سے اجازت لینی ہوگی۔ کیا اجازت لی گئی؟ استھانا کورٹ میں ہیں۔ آلوک ورما کورٹ میں ہیں۔ ایک ڈی ایس پی جیل میں ہے۔ اور حکومت کاآدمی سی بی آئی کے اندر ہے۔

اس معاملے میں انصاف ہو چکا ہے۔ اب اور انصاف کی امید نہ کریں۔ آئیے ہم سب نیوز چینل دیکھیں۔ وہاں سروے چل رہے ہیں۔ بی جے پی کی  سناتن جیت کا اعلان ہو رہا ہے۔ چینلوں پر آپ کی بے ہوشی کا انجکشن فری میں مل رہا ہے۔ آئیے ہم سب آئین کے بنائے مندروں کو گرتا  چھوڑ‌کر ایودھیا میں رام مندر بنانے پر بحث کریں۔ او میرے ہندوستان کی عظیم عوام ، جب آئین کے بنائے مندروں کو توڑنا ہی تھا تو آزادی کے لیے ڈیڑھ سو سال کی جدو جہد کیوں کی؟

(بہ شکریہ رویش کمار فیس بک پیج)