خبریں

رافیل تنازعے کی وجہ سے این سی پی چھوڑنے والے طارق انور کانگریس میں شامل ہوئے

بہار کے کٹیہار سے ایم پی اور سابق این سی پی جنرل سکریٹری طارق انور نے گزشتہ ستمبر میں رافیل سودے پر شرد پوار کے وزیر اعظم نریندر مودی کے دفاع میں اترنے کا الزام لگانے کے بعد اعلان کیا تھا کہ وہ پارٹی اور اپنی لوک سبھا رکنیت چھوڑ رہے ہیں ۔

فوٹوبہ شکریہ ٹوئٹر: @INCIndia

فوٹوبہ شکریہ ٹوئٹر: @INCIndia

نئی دہلی : آئندہ لوک سبھا انتخابات سے ٹھیک پہلے سابق نیشنلسٹ کانگریس پارٹی (این سی پی)لیڈر  طارق انور نے آج کانگریس صدر راہل گاندھی کی موجودگی میں کانگریس میں شمولیت اختیار کی ۔ اس پر اپنے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے این سی پی کے چیف ترجمان نواب ملک نےکہا کہ؛ کئی دنوں سے وہ کانگریس جوائن کرنا چاہتے تھے اور آج انہوں نے جوائن کرلیا۔لیکن ہمیں اس بات کا بےحد دکھ ہے کہ انہو ں نے پارٹی چھوڑنے کی وجہ صحیح نہیں بتائی ۔

واضح ہوکہ طارق انور این سی پی بانی ممبروں میں سے ایک ہیں ۔ انہوں نے 28ستمبر کو پارٹی کی رکنیت سے یہ کہہ کر استعفیٰ دیا تھا کہ پارٹی سپریمو شرد پوار نے وزیر اعظم نریندر مودی کا رافیل معاملے میں دفاع کیا ۔اسی وقت ان کے کانگریس جوائن کرنے کی قیاس آرائیاں تیز ہوگئی تھیں ۔غور طلب ہے کہ انہوں نے 1999میں شرد پوار کے ساتھ کانگریس سے نکالا گیا تھا۔اس وقت  سونیا گاندھی کے غیر ملکی ہونے کے مدعے کو اٹھانے پر پوار ، انور اور پی اے سنگما کو کانگریس سے نکال دیا گیا تھا ۔ اس کے بعد تینوں رہنماؤں نے 25مئی 1999کو این سی پی بنائی تھی۔

یہ بھی پڑھیں : کانگریس میں طارق انور کی واپسی کے کیا معنی ہیں ؟

انڈین ایکسپریس کی ایک خبر کے مطابق ؛طارق انور نے اپنے حمایتیوں کے ساتھ راہل گاندھی سے ان کی رہائش تغلق لین میں ملاقات کی جہاں ان کا خیر مقدم کیا گیا۔قابل ذکر ہے کہ 2014کے لوک سبھا انتخاب میں انہوں نے مودی لہر کے باوجود بی جے پی کو شکست دی تھی ۔طارق انور نے کہا کہ یہ افسوس ناک ہے کہ شردپوار نے ایک مراٹھی نیوز چینل پر رافیل ڈیل کے معاملے میں نریندر مودی کا دفاع کیا تھا۔انہوں نے مزید کہا کہ میں نے یہ محسوس کیا کہ میری پارٹی بی جے پی اور وزیر اعظم کے لیے نرم گوشہ رکھتی ہے۔

اس معاملے میں سیاسی مبصر رشید قدوائی نے گزشتہ دنوں دی وائر اردو میں لکھا تھا کہ؛ 2014 کے مقابلے اس بار کانگریس کی حالت اچھی دکھ رہی ہے۔ ایسے میں ان  کا کانگریس  سے جڑنا، نہ صرف ان کے اپنے صوبے بہار میں بلکہ ملک بھر میں خاص طور سے مسلمانوں کے درمیان ایک مثبت پیغام  ہے۔