خبریں

بی جے پی رہنما نے کہا، اگر میں پارٹی کے خلاف بولوں تو مجھ پر سی بی آئی اور ای ڈی کی چھاپے ماری ہو سکتی ہے

گووا سے بی جے پی ایم ایل اے اور سابق نائب وزیر اعلیٰ فرانسس ڈیسوزا کو خراب صحت کا حوالہ دیتے ہوئے ان کو گووا کابینہ سے ہٹا دیا گیا تھا۔

فرانسس ڈیسوزا/ فوٹو: بہ شکریہ گووا اسمبلی ویب سائٹ

فرانسس ڈیسوزا/ فوٹو: بہ شکریہ گووا اسمبلی ویب سائٹ

نئی دہلی: تنازعہ میں گھری سی بی آئی اورای ڈی کی چھاپے ماری کو لے کر سوال اٹھتے رہتے ہیں کہ جو بھی حکومت کے خلاف بولتا ہے ، سرکاری ایجنسیاں ان کے پیچھے پڑ جاتی ہیں۔ اب بی جے پی کے سابق ایم ایل اے نے اسی طرح کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔ گووا میں بی جے پی کے ایم ایل اے اور سابق نائب وزیر اعلیٰ فرانسس ڈیسوزا نے گزشتہ بدھ کو کہا کہ اگر وہ اپنی ہی پارٹی کے خلاف بولتے ہیں تو ان کو مرکزی ایجنسیوں (سی بی آئی اور ای ڈی )کی چھاپے ماری کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ڈیسوزا امریکہ میں اپنا علاج کرانے کے بعد بدھ کو گووا لوٹے ہیں ۔

اس سے پہلے خراب صحت کا حوالہ دیتے ہوئے ان کو گووا کابینہ سے ہٹا دیا گیا تھا۔ اس فیصلے کو لے کر ڈیسوزا نے ناراضگی ظاہر کی تھی۔ امریکہ سے لوٹنے پر نامہ نگاروں سے انھوں نے کہا کہ ان کو اپنے مستقبل کو لے کر ڈر ہے۔ ڈیسوزا نے کہا،’ گزشتہ 20 سالوں سے میں کسی بھی غلط بات کو لے کر چرچہ میں نہیں رہا۔ مجھے نہیں پتا کہ کل سے کیا ہوگا۔ ‘انھوں نے کہا ،’ ہو سکتا ہے مجھے انکم ٹیکس ، سی بی آئی اور آئی ڈی کی چھاپے ماری کا سامنا کرنا پڑے یا پارٹی کے خلاف بولنے کے لیے مجھ پر نیشنل سکیورٹی ایکٹ کے تحت معاملہ درج کر دیا جائے۔ ‘

ٹائمس آف انڈیا کی خبر کے مطابق؛ 5 بار ایم ایل اے ڈیسوزا کا کہنا ہے،’ انکم ٹیکس ڈپارٹمنٹ کی ریڈ سابق کھیل وزیر رمیش تاوڑکر پر ہوئی ہے ، اس کے علاوہ سابق وزیر اعلیٰ لکشمی کانت پارسیکر کو بھی انکم ٹیکس ڈپارٹمنت سے نوٹس آیا ہے۔ یہ سب میرے ساتھ بھی ہو سکتا ہے اور میں تیار ہوں۔ ‘ڈیسوزا مزید بتاتے ہیں کہ اس طرح کی کارروائی پورے ملک میں ہو رہی ہے۔ انھوں نے بتایا کہ مخالفت کی آواز وں کو بند کرنے کے لیے یہ سب ہو رہا ہے۔ لیکن اس کے پیچھے کون ہے میں نہیں جانتا۔

انھوں نے بتایا کہ وزیر اعلیٰ منوہر پریکر نے ان کے علاج کے لیے امریکہ میں انتظام کروایا۔ انھوں نے ریاستی صدر ونئے تیندولکر پر الزام لگایا کہ ریاستی صدر ہونے کی ناطے انھوں نے میری صحت کی کبھی کوئی خبر نہیں لی۔ ایم ایل اے کے عہدے سے استعفیٰ پر ڈیسوزا کہتے ہیں،’ مجھے پتا ہے کہ میرے استعفیٰ دینے سے سرکار نہیں گرے گی اور میری ایسی کوئی خواہش بھی نہیں ہے۔ میں اپنے حمایتیوں سے مل کر فیصلہ لوں گا۔ مجھ سے کئی پارٹیاں رابطہ کر رہی ہیں، جس میں مہاراشٹر گومانتک پارٹی (ایم جی پی)اور کانگریس شامل ہیں۔

(خبر رساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)