خبریں

این آر سی معاملے میں سپریم کورٹ کا نیا فیصلہ ؛ اب 15دسمبر تک داخل کر سکتے ہیں اپنے اعتراض اور دعوے

چیف جسٹس رنجن گگوئی کی صدارت والی بنچ  نے پہلے سے قابل قبول 10دستاویزوں کے علاوہ 5 اور ایسے دستاویزوں کو قبول کرنے کے اجازت دی  ہے جن کو این آر سی کوآرڈینٹر نےشہریت کی تصدیق میں سختی کے مد نظر قبول کرنے سے منع کر دیا تھا۔

فوٹو: پی ٹی آئی/nrcassam.nic.in

فوٹو: پی ٹی آئی/nrcassam.nic.in

نئی دہلی : سپریم کورٹ نے جمعرات کو این آر سی معاملے میں ان لوگوں کو راحت دے دی ہے جن کا نام این آرسی کے فائنل ڈرافٹ میں شامل نہیں ہے۔سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں راحت دیتے ہوئے اپنے دعوے اور اعتراض کو داخل کرنے کی تاریخ میں 15دسمبر تک کی توسیع کر دی ہے۔اس کے ساتھ ہی چیف جسٹس رنجن گگوئی کی صدارت والی بنچ  نے پہلے سے قابل قبول 10دستاویزوں کے علاوہ 5 اور ایسے دستاویزوں کو قبول کرنے کے اجازت دی  ہے جن کو این آر سی کوآرڈینٹر نےشہریت کی تصدیق میں سختی کے مد نظر قبول کرنے سے منع کر دیا تھااور ا س پر اعتراض کیا تھا۔

سپریم کورٹ نے جعلی اور فوٹوشاپ دستاویزوں کے معاملے میں اپنی کوئی دلچسپی نہیں دکھائی  ۔غور طلب ہے کہ اس معاملے کی طرف ریاستی کوآرڈینٹر پرتیک ہجیلا نے اپنی ایک رپورٹ میں کورٹ کی توجہ مبذول کرائی تھی۔اس معاملے کے کئی اسٹیک ہولڈر ز جن میں آسام حکومت بھی ایک اسٹیک ہولڈر ہے ،اس نے مطالبہ کیا تھا کہ تمام 15دستاویزوں کو حلف نامے میں شامل کیا جائے۔

قابل ذکر ہے کہ اس سے پہلے عدالت نے اس معاملے میں شہریت کو لے کر اپنے اعتراض کو درج کرنے کے لیے 25ستمبر تک 60دنوں کا وقت طےکیا تھا۔اس معاملے میں پرتیک ہجیلا (این آر سی کوآرڈینٹر )نے اپنی رپورٹ میں جن 5 دستاویزوں کو این آر سی سے الگ رکھنے کی درخواست کی تھی وہ 1951کی این آرسی ، 1966کا ووٹر لسٹ ،1971کا ووٹرلسٹ ، شہریت کے دستاویز ،1971تک کے مہاجروں کا رجسٹریشن سرٹیفیکٹ اور1971کا راشن جو 24مارچ 1971تک جاری کیے گئے ہیں ۔

واضح ہو کہ این آر سی کا فائنل ڈرافٹ 30 جولائی کو شائع کیا گیا تھا جس میں29.3 کڑور لوگوں میں سے2.89 کروڑ لوگوں کا نام شامل کیا گیا تھا۔ اس ڈرافٹ میں 40 لاکھ سے زیادہ لوگوں کے نام شامل نہیں تھے۔ اس میں اس 37,59,630 لوگوں کے نام مسترد کر دئے گئے تھے، جبکہ 2,48,077 لوگوں کے نام ہولڈ پر رکھ دیے گئے تھے۔

عدالت نے 31 جولائی کو واضح کیا تھا کہ جن لوگوں کا نام ڈرافٹ لسٹ میں شامل نہیں ان کے خلاف کسی بھی قسم کی کوئی کارروائی نہیں کی جا سکتی کیونکہ یہ صرف ڈرافٹ لسٹ ہے۔کورٹ نے لسٹ شائع ہونے کے بعد حالات سے نپٹنے کے لئے اور دعوے اور اعتراض کے سلسلہ میں فیصلہ کرنے کے لئے مرکزی حکومت سے ایک فارمولا اور ایس او پی بنانے کو کہا تھا۔

(خبررساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)