خبریں

دہلی اقلیتی کمیشن کی رپورٹ؛ پلول میں زیر تعمیر مسجد کا دہشت گردوں سے کوئی تعلق نہیں ہے

کمیشن کی طرف سے تشکیل کی گئی فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کواپنی جانچ میں اس بات کا کوئی اشارہ نہیں  ملا کہ مسجد کی تعمیر میں کسی طرح سے دہشت گردوں کا یا باہر کا پیسہ لگا ہے۔

فوٹو: دہلی اقلیتی کمیشن

فوٹو: دہلی اقلیتی کمیشن

نئی دہلی:دہلی اقلیتی کمیشن کی فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں ہریانہ کے پلول میں ایک  مسجد کی تعمیرمیں  مبینہ طور پر دہشت گرد تنظیم لشکر طیبہ سے فنڈنگ  والی رپورٹ کو بے بنیادقرار دیا ہے۔واضح ہو کہ گزشتہ دنوں  دی انڈین ایکسپریس نے اپنی ایک  رپورٹ میں مسجد کی تعمیر کی فنڈنگ کو لے کر این آئی اے کے حوالے سے دعویٰ کیا تھا کہ زیر تعمیر مسجد کے لیے حافظ سعید پیسے دے رہا ہے۔

کمیشن کی جانب سے جاری ایک پریس ریلیز کے مطابق فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کے سربراہ اور اقلیتی کمیشن کی مشاورتی کمیٹی کے رکن اویس سلطان خاں نے میڈیا کے سامنے رپورٹ کوپیش  کرتے ہوئے بتایا کہ یہ پہلا معاملہ ہے جس میں کسی مسجد کے بارے میں ایسی خبریں  آئیں۔ انہوں  نے کہا  کہ 84 گاؤں کے لوگوں  نے اس مسجد کی تعمیر میں حصہ لیا ہے ۔انہوں نے مزید کہا کہ کل زمین دس ایکڑ تھی جس میں سے گاؤں کے ہندو ؤں اورمسلمانوں نے خوشی خوشی8 ایکٹر زمین مسجد کے لئے دی اور دو ایکٹر زمین کو ایک سرکاری اسپتال اور اولڈ ایج ہوم کے لئے ۔

اویس سلطاں خاں کے مطابق  ؛زمین کے کچھ حصے پرلوگوں نے قبضہ کر رکھا ہے۔انہوں نے وضاحت کی کہ گاؤں والوں اور این آئی اے  کا کہنا ہے کہ کسی نے منسٹری کو شکایت بھیجی اور منسٹری نے این آئی اے کو اس کی جانکاری دی ۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ این آئی اے نے اب تک اپنے کسی سرکاری بیان یا اپنی ویب سائٹ پریہ الزام نہیں لگایا کہ مذکورہ مسجد میں دہشت گردوں کا پیسہ لگا ہے جبکہ میڈیا نے این آئی اے  کوحوالہ بناکر یہ خبر شائع کی۔ رپورٹ   کی تردیدکرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کمیٹی کواپنی جانچ میں اس بات کا کوئی اشارہ نہیں  ملا کہ مسجد کی تعمیر میں کسی طرح سے دہشت گردوں کا یا باہر کا پیسہ لگا ہے۔

کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق ؛گاؤں کے موجودہ سرپنچ اور سابق سرپنچ نے کہا کہ یہ پراپرٹی کی لڑائی ہے اور کسی نے شکایت کی ہوگی ، اسی لئے بات یہاں تک پہنچی ہے۔رپورٹ میں گاؤ ں والوں کے حوالے سے یہ بھی دعویٰ کیا گیا ہے کہ محمد سلمان نے اپنی گاؤں والی  زمین بیچ کر مسجد کو پیسے دئے تھے ۔ گاؤں والوں کا الزام ہے کہ جو ریکارڈ اس وقت این آئی اے کے پاس ہے وہ پروسیجر کی خلاف ورزی کی وجہ سے مشکوک ہے۔ محمد سلمان کا بھائی ان پڑھ ہے پھر بھی اس سے درخواست کیوں لکھوائی گئی ہے۔

ٹیم  کے دوسرے رکن اے سی مائکل نے کہا کہ این آئی اے کی ویب سائٹ پر اس کیس کی تفصیلات موجود نہیں ہیں۔ ان کے پاس اپنے دعوے کے لئے کوئی ثبوت  نہیں ہے۔انہوں نے دعویٰ کیا کہ  محمد سلمان کو جھوٹ بول کر  بینک بلایا گیا اور وہاں اس کو گرفتار کیا گیا۔ محمد سلمان پر الزام ہے کہ وہ70 لاکھ روپے پاکستان سے لایا ہے، جس کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔ موجودہ سرپنچ اور سابق سر پنچ نے کمیٹی کو بتایا  کہ علاقے کے سارے سرپنچوں نے مل کر یہ زمین  مسجد کے لیےدی ہے۔خود محمد سلمان نے اپنی زمین بیچ کر22سے24 لاکھ روپے اس کام کے لئے دئے ہیں۔

انہوں میڈیا پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ این آئی اے کی دونوں پریس ریلیزمیں مسجد کے لئے باہر سے پیسہ آنے کا ذکر نہیں ہے ، پھر میڈیا کو کیسےخبر مل گئی؟ کیا ان کا ڈائرکٹ لنک حافظ سعید سے ہے؟ انہوں نے یہ صاف کیا کہ باہر سے پیسہ آنا جرم نہیں ہے۔

غور طلب ہے کہ مسجد کی فنڈنگ کے معاملے کی جانچ کے لیے  دہلی اقلیتی کمیشن نےاویس سلطان خاں کی صدارت میں  چاررکنی کمیٹی بنائی تھی۔کمیٹی میں اے سی مائکل ، شرومنی گردوارہ پربندھک کمیٹی کے ممبر سردار گور مندر سنگھ متھارو اورایڈووکیٹ ابوبکر سباق تھے۔کمیٹی نے اپنی رپورٹ بدھ کو کمیشن کے صدر دفتر میں جاری کی۔اس موقع پر دہلی اقلیتی کمیشن کے چیئرمین ڈاکٹر ظفرالاسلام خان اور ممبر سردار کرتار سنگھ کوچر کے ساتھ فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کے تمام ممبران موجود تھے۔