خبریں

اترپردیش: یواے پی اے کے تحت 200مسلم نوجوانوں پر مقدمہ کے بعد گاؤں میں سناٹا

پولیس نے اس معاملے میں دعویٰ کیا ہے کہ ویڈیو میں نظر آرہا ہے کہ جلوس میں شامل لوگ صرف جئے شری رام کے نعرے لگا رہے تھے وہ تشدد میں شامل نہیں تھے ۔

علامتی تصویر، فوٹو: رائٹرس

علامتی تصویر، فوٹو: رائٹرس

نئی دہلی : اترپردیش کے بہرائچ ضلع میں مسلم اکثریت والے گاؤں خیراکے نوجوان گرفتاری کے ڈر سے بھاگ گئے ہیں ۔ انڈین ایکسپریس کی ایک خبر کے مطابق ؛ پولیس نے کمیونٹی کے تقریباً 200لوگوں پر 20 اکتوبر کو ہوئے ایک تشدد کے معاملے میں یو اے پی اے (Unlawful Activities Prevention Act) کے تحت معاملہ درج کیا ہے۔رپورٹ کے مطابق یہ تشدد اس وقت ہوا تھا جب درگا کی مورتی کا جلوس گاؤں سے گزر رہا تھا۔ اس جلوس میں شامل آشیش کمار شکلا نامی شخص نے بوندی پولیس اسٹیشن میں 80لوگوں کے خلاف نامز د مقدمہ درج کروایا تھا۔ جن لوگوں پر مقدمہ درج کرایا گیا ہے وہ مسلم کمیونٹی سے تعلق رکھتے ہیں ۔ 100سے 200نامعلوم لوگوں کے خلاف بھی ایف آئی آر درج کرائی گئی ہے۔

الزام لگایا گیا ہے کہ پستول ، بم اور تلوار سے لیس ہوکر ملزموں نے جلوس کو نشانہ بنایا تھا۔اس حملے میں مبینہ طور پر 50سے 60لوگ زخمی ہوئے۔ پولیس نے اس معاملے میں خیرا گاؤں سے 19لوگوں کو گرفتار کیا ہے۔ حالاں کہ افسروں کااب  کہنا ہے کہ  یواے پی اے کے تحت مقدمہ درج کرنا ایک غلطی ہے اور اس کو ایف آئی آر سے ہٹا دیاجائے گا۔

رپورٹ کے مطابق ؛ گاؤں میں کشیدگی ہے ۔ حالات کے مد نظر پی اے سی کو تعینات کیا گیا ہے۔دکانیں بند ہیں ۔ گھروں میں تالا لگا ہوا ہے ۔کچھ گھروں میں صرف بزرگ ، عورتیں اور بچے نظر آتے ہیں ۔ ان لوگوں کا الزام ہے کہ پولیس ان کو پریشان کر رہی ہے۔ 63 سالہ زیتونہ نے انڈین ایکسپریس کو بتایا کہ ہندو اور مسلمان کے بیچ جھگڑا ہوا ،لیکن پولیس نے صرف ہمار ےخلاف مقدمہ درج کیا ۔جلوس میں شامل لوگوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوئی ،جنہوں نے نہ صرف پتھر پھینکے بلکہ ہمارے گھروں اور دکانوں کو بھی نشانہ بنایا ۔

وہ آگے بتاتی ہیں ،پولیس کی چھاپے ماری کے بعد نوجوانوں نے گاؤں چھوڑ دیا ،جو نہیں گئے ان کو گرفتار کر لیا گیا ۔ وہ کہتی ہیں ان کے بیٹے رمضان علی اور ننکؤ اس وقت جیل میں ہیں ۔ گھر میں ان کی دو بہو اور پوتے پوتیاں ہیں ۔گاؤں سے فرار لوگوں میں سابق سرپنچ رشید اور خیرابازار کے امام حافظ عبدالباری بھی شامل ہیں ۔ ایک پڑوسی نے انڈین ایکسپریس کو بتایا کہ رشید کی فیملی بھی بھاگ گئی ہے۔ پولیس نےاس وقت  ان کے گھر کے دروازے اور کھڑکیا ں توڑ ڈالیں  جس وقت عورت اور بچے گھر میں تھے ۔

اس معاملے میں کرامت اللہ کا کہنا ہے کہ جلوس جب جامع مسجد کے پاس پہنچا تو اس میں شامل کچھ لوگوں نے سڑک پر کھڑے مسلمانوں پر گلال پھینکا ۔ مسلمانوں نے مخالفت کی تو جھگڑا شروع ہوگیا ۔ لوگوں نے مداخلت کی تو معاملہ سلجھ گیا ۔ حالاں کہ جلوس میں شامل کچھ لوگوں نے دوبارہ مسجد کے اندر گلال پھینکا جس کی وجہ سے تصادم ہوا۔دوسری طرف اسی گاؤں کے باشندہ جگدیش کمار جیسوال کا الزام ہے کہ دوسری کمیونٹی کے لوگوں نے بناکسی اکساوے کے جلوس پر حملہ کیا ۔

گاؤں کی مکھیا سریتا ورما کے شوہر ہری نارائن ورما نے کہا؛ گاؤں میں 65فیصد آبادی مسلمانوں کی ہے ۔ میں کہہ نہیں سکتاکہ یہ حملہ پہلے سے پلان تھا ۔ بہرائچ کے اڈیشنل سپریٹنڈنٹ آف پولیس رویندر کمار سنگھ نے انڈین ایکسپریس کو بتایا کہ اب تک اس جھگڑے میں شامل 71مسلم نوجوانوں کی پہچان ہوچکی ہے۔ مقامی لوگوں کے ذریعے بنائے 8ویڈیو کی بنیاد پر اس کی تصدیق کی گئی ہے۔ ابھی تک 19ملزموں کی گرفتاری ہوچکی ہے۔دوسری کمیونٹی کے لوگوں پر مقدمہ درج کیوں نہیں ہوا کے سوال پر انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس کوئی ثبوت نہیں ہے کہ دونوں کمیونٹی کے بیچ ٹکراؤ ہوا۔ویڈیو میں بس یہی نظر آرہا ہے کہ جلوس میں شامل لوگ جئے شری رام کے نعرے لگا رہے تھے وہ تشدد میں شامل نہیں تھے ۔انہوں نے مزید کہا کہ یواے پی اے کے تحت مقدمہ درج کرنا غلطی ہے اور ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ یہ کیسے ہوا۔

دریں اثنادیوی پاٹن حلقہ کے ڈی آئی جی انل کمار رائے کا کہنا ہے کہ اس دن دونوں کمیونٹی کے درمیان تصادم ہواتھا ۔اس میں کوئی بھی شدید طور پر زخمی نہیں ہواتھا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ایف آئی آر کوئی بھی درج کراسکتا ہے ۔ اس لیے اگر دوسری طرف سے بھی الف آئی آر کی جاتی ہے تو ہم اس کو درج کریں گے۔