فکر و نظر

چھتیس گڑھ میں ہنگ اسمبلی اجیت جوگی کے لیے امید کی کرن ہوگی  

اگر چھتیس گڑھ میں کسی بھی پارٹی کو اکثریت نہ ملی تو جوگی کے پاس کئی راستے ہیں۔ اگر انہیں اور بی ایس پی کے گٹھ بندھن کو کل 10 سیٹیں بھی مل جاتی ہیں تو وہ کانگریس کے سامنے مکھیہ منتری بننے تک کا دعویٰ پیش کر سکتے ہیں۔

AjitJogiPTI

فوٹو: پی ٹی آئی

انسانی خواہشات اگر گھوڑے کی شکل میں نمودار ہوتیں تو اجیت پرمود کمار جوگی ضرور ایسا گُھڑسوار ہونا چاہتے، جو ان خواہشات کی من مانے ڈھنگ سے سواری کرتے پھریں۔ ایسے وقت جبکہ چھتیس گڑھ اسمبلی انتخابات کے لیے پہلے مرحلے کی ووٹنگ میں محض چند دن بچے ہیں، صوبے کے سابق وزیر اعلیٰ  اجیت جوگی رائے پور میں وی کمارسوامی کا رول ادا کرنے کی جُگت میں ہیں۔اس کے لیے انہوں نے  بی جےپی یا کانگریس کسی کے بھی ساتھ جانے کا متبادل کھلا رکھا ہے۔

کچھ سال پہلے ہی وجود میں آئے قبائلی صوبے چھتیس گڑھ میں اس بار کسی بھی سیاسی پارٹی کو اکثریت ملنے کا امکان کم ہے اور جوگی کی ساری امیدیں اسی امکان پر ٹکی ہیں۔ 90 سیٹوں کی قدرے چھوٹی ودھان سبھا میں تیسرا مورچہ قسم کی سیٹوں کی اہمیت بڑھ جاتی ہے۔ اسے ہی جوگی اپنے لیے موقعہ مان رہے ہیں۔ ان کا ایسا سوچنا جائز بھی ہے، کیونکہ انہوں نے بہت چھوٹے پائیدان سے سفر کر کے ایک مقام پایا ہے۔ 1986 میں وہ مدھیہ پردیش کے 45 ضلع کلکٹروں میں سے ایک تھے۔ اندور میں بطور کلکٹر اپنے فرائض سرانجام دیتے ہوئے وہ وزیر اعظم راجیو گاندھی کی نظروں میں آ گئے۔ پھر جوگی استعفیٰ دے کر راجیہ سبھا پہنچا دئے گئے۔ اس وقت اکثریت ہونے کے باوجود کانگریس سرکار پارلیامنٹ میں حزب مخالف کے آگے خود کو لاچار پاتی تھی۔ جوگی نے سریندر سنگھ اہلووالیہ، سریش پچوری، رتناکر پانڈے، بابا مشرا وغیرہ کا ساتھ پکڑا، اور اس بدنامِ زمانہ ‘شاؤٹنگ بریگیڈ’ کا حصہ بن گئے جس نے وی پی سنگھ اینڈ کمپنی کے ناک میں دم کر رکھا تھا۔

راجیہ سبھا میں اس طرح اچانک داخلے سے پہلے ستنامی نوجوان جوگی نے آئی پی ایس و آئی اے ایس دونوں کے امتحانات میں کامیابی حاصل کی تھی، وہ بھی اپنے مخصوص انداز میں۔ یعنی یہ امتحانات انہوں نے بجائے ایس سی ایس ٹی کے ریزرویشن کا فائدہ اٹھانے کے، جنرل زمرے میں پاس کیے تھے۔ نومبر 2000 میں ان کی قسمت کا تالا کھل گیا، جب این ڈی اے کے وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی نے تین نئے صوبے جھارکھنڈ، اتراکھنڈ اور چھتیس گڑھ بنانے کا فیصلہ کیا۔

جوگی کا کرشمہ دیکھیے کہ انہیں آدھا درجن سے بھی کم ایم ایل اے کی حمایت حاصل تھی، مگر وہ صوبے کے قبائلی وزیر اعلیٰ بننے میں کامیاب رہے۔ مزید یہ کہ ان کے خلاف اس وقت ذات کی غلط جانکاری دینے کا مقدمہ بھی چل رہا تھا۔ سونیا بھی پوری طرح ان کے حق میں نہیں تھیں۔ ان کے سامنے چھتیس گڑھ کے ہی با اثر نیتا ودیا چرن شکلا کی مثال تھی، جنہوں نے 1977 کی ہار کے بعد اندرا گاندھی کو دھوکہ دیا تھا۔ نیز بعد میں جب نرسمہاراو وزیر اعظم تھے اور شکلا پارلیامانی معاملات کے وزیر، تب انہوں نے بوفورس معاملے کو ہوا دے دی تھی، جو خاصی بدنامی کا سبب بنا۔ سونیا کو خدشہ تھا کہ کبھی نہ کبھی جوگی بھی ان کے لیے ویسا ہی رول ادا کر سکتے ہیں۔ بہرحال ایم ایل اے کی معقول تعداد جوگی کے حق میں نہ ہونے کے باوجود وہ چھتیس گڑھ کا وزیر اعلیٰ بننے میں کامیاب رہے۔بعد میں الزامات لگتے رہے کہ ان کے حق میں عیسائی عالموں نے مہم چلائی تھی۔ جس کی سونیا اور کانگریس نے سختی سے تردید کی۔

یکم نومبر 2000 کا دن چھتیس گڑھ میں ہنگامہ خیز رہا۔ جوگی مکھیہ منتری بننے والے تھے۔ کانگریس کے دو جنرل سیکریٹریز پربھاراو اور غلام نبی آزاد مرکز سے آبزرور بنا کر بھیجے گئے۔ صوبے کی راجدھانی رائےپور میں وقت ملنے پر وہ فلم ‘مشن کشمیر’دیکھنا چاہتے تھے، لیکن یہاں انہیں دِگوجے سنگھ اور شکلا حامیوں کی لائیو فائٹ دیکھنا پڑی۔ غیر منقسم مدھیہ پردیش کے مکھیہ منتری سنگھ، ناراض پارٹی ورکرس کی لاتوں و گھونسوں کی زد پر تھے کہ انہوں نے صوبے کے زرخیز و قدرتی وسائل سے مالامال حصے کو الگ کر دیا تھا۔ جوگی کی حلف برداری کے وقت راجدھانی رائےپور میں ہڑتال کر دی گئی۔ وہاں سناٹا پڑا تھا، مانو مقامی لیڈر شکلا کو وزیرِ اعلیٰ نہ بنانے کا سوگ منایا جا رہا ہو۔

ویڈیو:چھتیس گڑھ کانگریس کمیٹی کے صدر بھوپیش بگھیل سے دیپک گوسوامی کی بات چیت

 جوگی کی وزارت اعلیٰ کے تین سال میں کئی واقعات رونما ہوئے، لیکن سونیا نے انہیں کھلی چھوٹ دے رکھی تھی۔ نومبر 2003 میں جب ودھان سبھا الیکشن کا وقت آیا، حد سے زیادہ خود اعتماد جوگی، پارٹی کے نامزد امیدواروں کو ہرانے کی جُگت میں لگے تھے تاکہ انہیں کام چلاؤ اکثریت ملے اور ‘ہائی کمانڈ’ سونیا کے سامنے کسی اور نیتا کو مکھیہ منتری بنانے کا متبادل موجود نہ ہو۔ لیکن پارٹی ہار گئی۔ کہا جاتا ہے کہ اس کے باوجود جوگی نے گورنر کو مطلع کیا کہ دوسری پارٹی کے جیتے ہوئے ایم ایل کا ایک حصہ ان کے ساتھ آنے کو تیار ہے۔ گورنر فوج کے سابق لیفٹیننٹ جنرل تھے، جنہوں نے ایمانداری و اخلاقیات کا سبق بھی پڑھا تھا، سو انہوں نے یہ خبر 10 جن پتھ یعنی سونیا تک پہنچا دی۔ تب جوگی کی سرزنش کی گئی کہ وہ عوام الناس کے فیصلے کو خاموشی سے قبول کر لیں۔

یکم نومبر 2000 کی مانند ہی 11 دسمبر 2018 کو بھی ممکن ہے جوگی کو زیادہ ایم ایل ایز کی حمایت حاصل نہ ہو، لیکن ایک معلق ایوان کی صورت میں وہ قسمت آزما سکتے ہیں۔ ان کی سیاستداں شریک حیات رینو جوگی کانگریس میں ہونے کا دعویٰ کرتی ہیں۔ جوگی نے بھی حال ہی تشہیری مہم  کے دوران کہا کہ وہ سونیا و راہل گاندھی کے خلاف نہیں بولیں گے۔ لیکن دسمبر 2019 یعنی لوک سبھا کی تشکیل کے وقت ان کے لیے زیادہ موقعہ نہیں ہے۔ کانگریس کے زیادہ تر اہم نیتا انہیں پسند نہیں کرتے ہیں۔ ان کے مطابق جوگی کو کئی با اثر اور جغادری لوگوں کا ساتھ ملا، مگر انہوں نے کسی سے کچھ نہیں سیکھا۔ وہ خود کی برتری ثابت کرنے کے لیے اکثر اپنے ساتھیوں کو زک پہنچا جاتے ہیں۔

اپنی زندگی و سیاست میں کئی اتار چڑھاو دیکھنے والے جوگی اپریل 2004 میں ایک  زبردست حادثے کا شکار ہو گئے۔ ان کی تیز رفتار کار ایک پیڑ سے ٹکرا گئی اور جوگی شدید زخمی ہو گئے۔ نتیجتاً ایک لمبا وقت انہیں اسپتالوں میں گزارنا پڑا، اس کے باوجود وہ سیاسی منظرنامے میں بنے رہے۔ کچھ حساس معاملوں میں سونیا کا ان سے موہ بھنگ ہونے اور راہل سے اختلافات نے ان کے چہرے سے وفاداری کا مکھوٹا اتار دیا۔ تب کانگریس کو سبق سکھانے کی دھمکی دیتے ہوئے جوگی رائےپور آ گئے۔ بتانا ضروری ہے کہ ان کے اہل خانہ نے کانگریس و بی ایس پی سے رشتے بنائے رکھے ہیں۔ ساتھ ہی صوبے کے بی جےپی  مکھیہ منتری رمن سنگھ سے بھی ان کی پٹ جاتی ہے۔

ایک حالیہ واقعے سے اجیت جوگی کی فکر و عمل کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ چند ماہ پہلے جوگی نے اعلان کیا کہ وہ راجناندگاؤں سے مکھیہ منتری رمن سنگھ کے خلاف چناؤ لڑیں گے۔ پرچہ نامزدگی داخل کرنے کا وقت قریب آیا تو جوگی نے سُر بدلا اور کہنے لگے وہ چناؤ نہیں لڑیں گے۔اسی درمیان ‘مرواہی’ علاقے سے بس بھر کر ان کے کچھ حمایتی آئے اور ٹی وی نیوز کیمروں کے سائے میں ان سے گزارش کی کہ وہ مرواہی سے فارم بھریں، نیز انہیں وہاں سے تشہیری مہم چلانے کی اجازت دیں۔ مرتا کیا نہ کرتا، ‘بیچارے’ جوگی کو ان کے اس اصرار کے سامنے سرِ تسلیم خم کرنا پڑا۔ مکھیہ منتری رمن سنگھ کو چناوی میدان میں ٹکر دینے کا ان کا دعویٰ یوں ہوا میں اڑ گیا۔

AjitJogi_Mayawati_PTI

فوٹو: پی ٹی آئی

اگر چھتیس گڑھ میں کسی بھی پارٹی کو اکثریت نہ ملی تو جوگی کے پاس کئی راستے ہیں۔ اگر انہیں و بی ایس پی کے گٹھ بندھن کو کل 10 سیٹیں بھی مل جاتی ہیں تو وہ کانگریس کے سامنے مکھیہ منتری بننے تک کا دعویٰ پیش کر سکتے ہیں۔ بی جےپی کو سرکار بنانے کے لیے کچھ نشستوں کی ضرورت پڑی تو وہ ان سے بھی سودےبازی کر سکتے ہیں۔ لیکن ان دونوں میں سے کسی بھی پارٹی کو واضح اکثریت مل گئی تو صوبے کی سیاست میں جوگی کا کھیل ختم جانیے۔ صوبے میں بی ایس پی کے ساتھ ان کا حالیہ اشتراک کا مقصد ‘کنگ میکر’ کی حیثیت پانا اور کانگریس کی راہ میں گڑھے کھودنا ہے۔ 2019 میں ہونے والے لوک سبھا چناؤ کے لیے مایاوتی خود ایک کمزور کانگریس چاہتی ہیں۔ ایسی صورتِحال میں مہا گٹھ بندھن ایک سُراب ہی ہے کہ بی ایس پی و ترنمول کانگریس جیسی پارٹیاں نہیں چاہتیں کہ راہل کی قیادت والی کانگریس چھتیس گڑھ، مدھیہ پردیش و راجستھان میں چناؤ جیت جائے۔

ستنامی ہریجن طبقے پر جوگی کا اثر ہے، جو چھتیس گڑھ کی 4-5 ودھان سبھا سیٹوں کو متاثر کرتے ہیں۔ بی ایس پی و سی پی آئی کے ساتھ جوگی 10 سیٹ جیت جانے کی آس لگائے بیٹھے ہیں۔ چھتیس گڑھ یا مدھیہ پردیش میں ساجھا یا مشترکہ سیاست کی کوئی روایت نہیں رہی ہے۔ مشترکہ محاذ کی لڑکھڑاتی منموہن سنگھ سرکار اور ملک کی قومی سیاست میں نریندر مودی کی آمد کے دوران سن 2013 میں کانگریس کا ووٹ فیصد بی جےپی سے 7 فیصد کم رہا تھا۔ جوگی کے لیے وہی امید کی کرن ہے۔

( رشید قدوائی اوآرایف کے وزیٹنگ فیلو ہیں)