خبریں

اتر پردیش میں بی جے پی100’تین طلاق پرمکھ‘کی تقرری کرے گی

بی جے پی کے اقلیتی سیل کے مطابق دو’تین طلاق پرمکھ‘کی تقرری ہو چکی ہے۔  جو خواتین شریعت اور قانون کی پختہ جانکاری رکھتی ہیں اور تین طلاق سے متاثر عورتوں کی زندگی میں سماجی تبدیلی لا سکتی ہیں، ان کو اس کام کے لئے منتخب کیا جائے‌گا۔

علامتی تصویر، فوٹو: پی ٹی آئی

علامتی تصویر، فوٹو: پی ٹی آئی

دہلی: اتر پردیش بی جے پی کے اقلیتی سیل نے طلاق بدعت کی شکار خواتین کی زندگی میں تبدیلی لانے کے لئے دو ‘تین طلاق پرمکھ’ کی تقرری کی ہے اور ریاست میں پارٹی کی تمام 6 علاقائی اکائیوں میں ایسے چیف کو تعینات کرنے کی اسکیم ہے۔اتر پردیش بی جے پی اقلیتی سیل کی سکریٹری نازیہ عالم نے بتایا کہ ایسی تعلیم یافتہ خواتین، جو شریعت اور قانون کی پختہ جانکاری رکھتی ہیں، اور جو تین طلاق سے متاثر عورتوں کی زندگی میں سماجی تبدیلی لا سکتی ہیں، ان کی طلاق پرمکھ کے طور پر ضلع وار تعیناتی کی جائے‌گی۔

تین طلاق  کی شکار کچھ خواتین اس سماجی برائی کو ختم کرنے کے لئے پہلے سے ہی اقلیتی سیل کے ساتھ کام کر رہی ہیں۔انہوں نے کہا کہ سیل ہر ضلع میں تین طلاق کی شکار ہوئی خواتین کی اصل تعداد جاننے کے لئے ایک سروے کرائے‌گا۔  اس سے پتہ چلے‌گا کہ یہ برائی کس حد تک پھیلی ہے۔پارٹی کے تمام 93  تنظیمی اضلاع اور 6 علاقائی اکائیوں میں طلاق پرمکھ کی تقرری کی جائے‌گی۔یہ کام دیوالی کے بعد شروع ہونے کا امکان ہے۔دسمبر کے آخر تک اس سروے کاکام شروع ہوگا۔  نازیہ نے یہ بھی کہا کہ بی جے پی اقلیتی سیل قرآن اور شریعت کو لےکر لوگوں کے دلوں میں بن رہی منفی تصویر کو ختم کرنے کے لئے بیداری پروگرام بھی چلائے‌گا۔

انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق بی جے پی نے دو تین طلاق پرمکھ کی تقرری کر دی ہے اور اس طرح کے کل 100 پرمکھ کی تقرری کا پلان ہے۔فی الحال بی جے پی اقلیتی سیل کی سکریٹری نازیہ عالم اور شہناز خان کی تین طلاق پرمکھ کے طورپر تقرری کی گئی ہے۔تین طلاق پرمکھ قرآن کا ہندی ترجمہ بھی مسلم گھروں میں تقسیم کریں گے۔اس پر نازیہ نے انڈین ایکسپریس سے کہا، ‘اگر لوگ اس زبان میں قرآن کو پڑھتے ہیں جس میں ان کوآسانی ہے تو تین طلاق کی روایت کو آسانی سے پکڑسکتےہیں کیونکہ قرآن میں اس روایت پر پوری طرح سے پابندی ہے۔  ‘

انہوں نے آگے کہا، ‘اس مہم سے ہمیں  شدت پسند مذہبی رہنماؤں کی اس روایت کو توڑنا پڑے‌گا جس سے وہ غلط پیغام ابھی تک پھیلاتے آ رہے ہیں۔  ہمارے پاس ابھی کوئی واضح تعداد نہیں ہے کہ تین طلاق کے کتنے متاثرین ہیں۔  ہمارا پہلا کام ہوگا کہ ہم ان کی شناخت کریں۔  ‘نازیہ عالم نے کہا کہ ایسا کام کرنے کا مقصد سماجی ہے، سیاسی نہیں۔  پہلے مرحلے میں مسلم اکثریتی علاقوں پر دھیان دیا جائے‌گا جس میں رام پور، بریلی، سہارن پور، علی گڑھ اور مظفرنگر شامل ہیں۔وہیں اتر پردیش بی جے پی کے اقلیتی سیل کے صدر حیدر عباس چاند نے کہا کہ جن تین طلاق متاثر خواتین نے بہادری کے ساتھ اس کے خلاف لڑائی لڑی ہے ان کو پارٹی کے ذریعے سرفراز کیا جائے‌گا۔

واضح ہو کہ سال 2017 میں ریاستی اسمبلی انتخابات کے دوران بی جے پی نے اپنے منشور میں تین طلاق کا مدعا شامل کیا تھا۔  انتخابات میں جیت حاصل کرنے کے بعد بی جے پی رہنماؤں نے کہا کہ مسلم خواتین نے ان کی حمایت کی ہے اور وہ اس روایت کے خلاف ہیں۔  بی جے پی کے ذریعے اس مدعے کو بار بار انتخابات کی ہر سطح پر اٹھایا جاتا رہا ہے۔مرکز کی مودی حکومت تین طلاق کو قابل سزا جرم بنانے کے لئے ایک آرڈیننس کو منظوری دے چکی ہے۔ آنے والے قانون سازمجلس کے سرمائی اجلاس میں اس بل کو ایوان میں پیش کیا جائے‌گا۔

(خبر رساں ایجنسی بھاشاکے ان پٹ کے ساتھ)