فکر و نظر

راجستھان میں تیسرا مورچہ اس بار بھی سرخیوں سے آگے بڑھتا ہوا دکھائی کیوں نہیں دے رہا

گراؤنڈ رپورٹ : صوبے میں کانگریس اور بی جے پی کو ٹکر دینے کے لئے ہنومان بینی وال کی  راشٹریہ لوک تانترک پارٹی نے گھنشیام  تیواری،ایس پی اور آر ایل ڈی کے ساتھ انتخابی میدان میں اترنے کا اعلان کیا ہے۔یہ  اتحاد سرخیاں تو خوب بٹور رہا ہے، لیکن اس کی کامیابی پر  شک برقرار ہے۔

جئے پور میں تیسرے مورچے کا اعلان کرتے ہوئے  ہنومان بینی وال، گھنشیام  تیواری، جینت چودھری اور دیگر رہنما۔  (فوٹو : اودھیش  آکودیا/دی وائر)

جئے پور میں تیسرے مورچے کا اعلان کرتے ہوئے  ہنومان بینی وال، گھنشیام  تیواری، جینت چودھری اور دیگر رہنما۔  (فوٹو : اودھیش  آکودیا/دی وائر)

راجستھان میں 1998 کے اسمبلی انتخاب سے ایک بار کانگریس اور ایک بار بی جے پی کے درمیان اقتدار کی ادلا-بدلی کی سیاسی روایت کو توڑنے کے لئے تیسرے مورچے کا شگوفہ ایک بار پھر انتخابی میدان میں ہے۔  اس بار آزاد ایم ایل اے  ہنومان بینی وال نے گزشتہ 29 اکتوبر کو جئے پور میں اس کا بگل بجایا۔بینی وال نے اس موقع پر   راشٹریہ لوک تانترک پارٹی  کو کانگریس اور بی جے پی کے متبادل کے طور پر پیش کیا۔  اس دوران بی جے پی سے بغاوت کر کے بھارت واہنی پارٹی  کو اپنا ٹھکانہ بنانے والے گھنشیام  تیواری، راشٹریہ لوک دل کے جینت چودھری اور معراج الدین اور سماجوادی پارٹی کے سنجے لاٹھر نے بینی وال کے ساتھ منچ شیئر کیا۔

اجلاس  کے تمام رہنماؤں نے ساتھ لڑنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ راجستھان میں گزشتہ چار انتخابات سے کانگریس اور بی جے پی کے درمیان جھول رہا اقتدار اس بار ان کے سرہانے پرآکر بیٹھے گا۔ ان کے اس دعویٰ میں کتنا دم ہے یہ تو 11 دسمبر کو نتیجہ آنے کے بعد سامنے آ جائے‌گا، لیکن  ہنومان بینی وال کے جلسہ میں امڑی بھیڑ خوب سرخیاں بٹور رہی ہے۔یہ پہلا موقع نہیں ہے جب نیا متبادل دینے کے لئے کسی نے تال ٹھوکی ہے۔  ریاست کی سیاست میں 1967 کے اسمبلی انتخابات میں پہلی بار اس کی کوشش کنبھارام آریہ، دولت رام سارن اور ناتھو رام مردھا نے کی۔ یہ تینوں عظیم جاٹ رہنما کسان وزیراعلیٰ کے مدعے پر کانگریس کو چیلنج دینے کے لئے انتخابی میدان میں اترے، لیکن ان کی دال نہیں گلی۔

ایمرجنسی کے بعد 1977 میں ہوئے اسمبلی انتخابات میں کانگریس کو پہلا چیلنج جنتاپارٹی  نے دیا۔ اس انتخاب میں کانگریس کو 200 میں سے محض 41 سیٹوں پر صبر کرنا پڑا اور جنتاپارٹی151 سیٹوں کے ساتھ اقتدار میں آئی۔ حالانکہ تین سال کے اندر جنتاپارٹی  اور کانگریس کی تقسیم کے بعد کانگریس (آئی) نے 1980 میں ہوئے انتخابات میں واپسی کر لی۔1985 کے اسمبلی انتخابات میں کانگریس اور بی جے پی کی سیدھی لڑائی کے درمیان لوک دل نے تال ٹھوکی، لیکن اس کو 27 سیٹوں سے ہی اطمینان کرنا پڑا۔  1990 کے انتخابات میں جنتا دل نے ضرور متاثر کن موجودگی درج کرائی۔  اس انتخابات میں کانگریس کو محض 50 سیٹیں ملیں، وہیں بی جے پی نے 85 اور جنتا دل نے 55 سیٹوں پر جیت درج کی۔

1993 اور 1998 کے اسمبلی انتخابات میں نہ تو کسی نے کانگریس اور بی جے پی کا متبادل بننے کا دعویٰ کیا اور نہ ہی کوئی جماعت اپنی موجودگی درج کروا پائی۔  2003 کے انتخابات میں قد آور راجپوت رہنما دیوی سنگھ بھاٹی نے ساماجک نیائے منچ  کو کانگریس اور بی جے پی کے متبادل کے طور پر  پیش کیا۔بھاٹی نے پوری ریاست میں امیدوار کھڑے کئے، لیکن سوائے ان کے کسی کو بھی جیت حاصل نہیں ہوئی۔  اس شرمناک ہار‌کے بعد ساماجک نیائے منچ  کے ساتھ ساتھ ریاست میں تیسری طاقت کی امید بھی تہس نہس ہو گئی۔  2008 کے انتخاب میں کسی نے کانگریس اور بی جے پی کے تسلط کو توڑنے کی جرأت نہیں دکھائی۔

2013 کے اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کے باغی ڈاکٹر کروڑی لال مینا نے کانگریس اور بی جے پی کے مقابلے کھڑے ہونے کا داؤ کھیلا۔  انہوں نے سابق لوک سبھا صدر پی اے سنگما کی  راشٹریہ جنتانترک پارٹی کے بینر پر پورے راجستھان میں امیدوار اتارے۔  ڈاکٹر مینا نے پوری ریاست میں دھواں دھار تشہیر کی۔کروڑی نے دعویٰ کیا کہ وہ ‘ کنگ میکر’ثابت ہوں‌گے، لیکن نتیجہ اس کے برعکس آئے۔  آر جے پی کے ٹکٹ پر کروڑی اور ان کی بیوی گولما دیوی کے علاوہ محض دو ایم ایل اے جیت درج کرنے میں کامیاب رہے۔  خود کروڑی اور گولما ایک ایک سیٹ سے انتخاب ہار گئے۔

ڈاکٹر مینا اس ہار‌کے بعد بھی 2018 کے انتخابات میں ریاست میں تیسرا مورچہ کھڑا کرنے کا دعویٰ کرتے رہے۔  دوسری طرف سے  ہنومان بینی وال بھی اسی راہ پر چل رہے تھے۔  جلدہی دونوں کی جگل بندی ہو گئی، کیونکہ کروڑی 1998 کے انتخابات میں راجپا پر میناؤں کی پارٹی ہونے کا ٹھپہ ہٹانا چاہتے تھے اور بینی وال مشرقی راجستھان میں اپنی پیٹھ جمانا چاہتے تھے۔

 ہنومان بینی وال نے اس دوران ریاست میں کئی بڑے جلسے کئے۔  کروڑی ان سبھی میں نہ صرف شریک ہوئے، بلکہ انہوں نے کانگریس کو ‘ناگناتھ اور بی جے پی کو ‘سانپ ناتھ ‘بتاتے ہوئے 2018 کے انتخابات میں تیسرے مورچے کے ہاتھ میں اقتدار کی چابی آنے کی بات کہی۔  لیکن اپنی-اپنی کمیونٹی میں اچھا دخل رکھنے والے ان رہنماؤں کی دوستی انتخابات آنے سے پہلے ہی ٹوٹ گئی۔

ڈاکٹر کروڑی لال مینا اپنا ایم ایل اے بیوی گولما دیوی اور آر جے پی کے ایم ایل اے گیتا ورما کے ساتھ اسی سال مارچ میں بی جے پی کے ہو گئے۔  10 سال بعد ہوئی کروڑی کی گھر واپسی نے  ہنومان بینی وال کا تیسرا مورچہ بنانے کے ارمانوں پر پانی پھیر دیا۔  حالانکہ وہ اس کے باوجود بھی کانگریس اور بی جے پی کا متبادل کھڑا کرنے کا دعویٰ کرتے رہے۔بینی وال نے آخر کار 29اکتوبر کو جئے پور میں کسان ہنکار ریلی میں تیسرے مورچے کا اعلان کیا۔اس دوران بی جے پی سے الگ ہوکر بھارت واہنی پارٹی  کا پرچم اٹھانے والے گھنشیام  تیواری، راشٹریہ لوک دل کے جینت چودھری اور معراج الدین اور سماجوادی پارٹی کے سنجے لاٹھر موجود رہے۔

بقول  ہنومان بینی وال ان کی دوسری کئی پارٹیوں سے بات چیت چل رہی ہے۔  وہ کہتے ہیں،’یکساں نظریہ والی سیاسی جماعتوں سے اتحاد کو لےکر ہماری بات چیت آخری مرحلے میں ہے۔  بی جے پی اور کانگریس دونوں کے خلاف آئندہ انتخابا ت میں لڑنے والے ان تمام جماعتوں کے ساتھ اتحاد کی شکل کی توسیع ہوگی۔  ‘

آزاد ایم ایل اے  ہنومان بینی وال کے جئے پور میں ہوئی کسان ہنکار ریلی میں کا نظارہ ۔  (فوٹو : اودھیش  آکودیا/دی وائر)

آزاد ایم ایل اے  ہنومان بینی وال کے جئے پور میں ہوئی کسان ہنکار ریلی میں کا نظارہ ۔  (فوٹو : اودھیش  آکودیا/دی وائر)

سیاست کے جانکاروں کے مطابق اگر  ہنومان بینی وال بی ایس پی ، سی پی ایم  اورزمیندارا پارٹی سے اتحاد کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو ریاست کی سیاست میں نئے فارمولے پیداہو سکتے ہیں۔  لیکن گھنشیام  تیواری کی بھارت واہنی پارٹی ، راشٹریہ لوک دل اور سماجوادی پارٹی کے  اتحاد سے کانگریس اور بی جے پی کو ٹکر دینا دن میں خواب دیکھنے جیسا ہے۔راجستھان میں راشٹریہ لوک دل اور سماجوادی پارٹی کی سیاسی حیثیت نہ کے برابر ہے اور  ہنومان بینی وال کی جاٹ برادری کے علاوہ کسی سماج میں پکڑ نہیں ہے۔  گھنشیام  تیواری بڑے قد کے رہنما ضرور ہیں، لیکن وہ نہ تو برہمن سماج کے معقول رہنما ہیں اور نہ ہی ان کے صوبے کے کسی علاقے میں پکڑ ہے۔

ایسے میں کیا  ہنومان بینی وال صرف جاٹ ووٹ کے دم پر کانگریس اور بی جے پی کے برابر کھڑے ہونے کا کرشمہ دکھا سکتے ہیں؟جاٹ سیاست پر نظر رکھنے والے گھاسی رام جاٹ کہتے ہیں،’اس میں کوئی دورائے نہیں ہے کہ بینی وال موجودہ جاٹ رہنماؤں میں سب سے زیادہ مقبول ہیں، لیکن ان کو کنبھارام آریہ، دولت رام سارن اور ناتھو رام مردھا کی قطار میں شامل نہیں کیا جا سکتا۔ ‘گھاسی رام آگے کہتے ہیں،ہنومان بینی وال کا اثر ناگور سمیت شیکھاوٹی اور میواڑ کے جاٹ اکثریتی علاقوں سے آگے نہیں ہے۔ یہاں بھی جاٹوں کے ان کے حق  میں صف بندی کی حالت میں اس کے خلاف کاؤنٹر پولرائزیشن یعنی جوابی پولرائزیشن یقینی طور پر ہوگا۔ صرف جاٹوں کے ووٹ سے کسی بھی سیٹ پر جیتنا ناممکن ہے۔  ‘

ممکنہ طور پر ہنومان بینی وال کو بھی اس کا احساس ہے۔  اسی وجہ سے انہوں نے جئے پور کے جلسہ میں کئی بار اس بات کو دوہرایا کہ ان کی پارٹی اور تیسرا مورچہ چھتیس قوم (تمام ذات) کی لڑائی لڑے‌گا۔  ویسے اسمبلی انتخابات میں ان کا یہ نیا اوتار کسوٹی پر نہیں ہوگا، بلکہ جاٹ رہنما کے طور پر ہی ان کی پرکھ ہوگی۔جاٹ سیاست کو سمجھنے والے مہیندر چودھری کے مطابق یہ برادری بہت ہوشیاری سے رائے دہندگی کرتی ہے۔  وہ کہتے ہیں، ‘  ہنومان بینی وال جن سیٹوں پر جاٹ امیدوار اتاریں‌گے وہاں کانگریس اور بی جے پی بھی اسی برادری کے رہنما کو ٹکٹ دے‌گی۔  اس حالت میں جاٹ اس کے حق میں ہی صف بند ہوں‌گے جو جیتنے کی حالت میں ہوگا۔  ‘

چودھری آگے کہتے ہیں،’یہ ضرور ہے کہ  ہنومان بینی وال ناگور، سیکر، جھنجھنوں، چوروں، بیکانیر، جیسلمیر، باڑمیر اور جودھ پور ضلعوں کی کئی سیٹوں پر مقابلے کو سہ رخی بنائیں‌گے۔  ہو سکتا ہے 2013 میں کروڑی لال مینا کی پارٹی کی طرح کچھ امیدوار جیتنے میں بھی کامیاب ہو جائیں، لیکن ان کے چھپے رستم بننے جیسے فارمولے فی الحال بنتے ہوئے دکھائی نہیں دے رہے ہیں۔  ‘تیسرے مورچے کے لئے سب سے بڑا چیلنج انتخابی فتح کی قوت رکھنے والے رہنماؤں کو ڈھونڈنا ہے۔  فی الحال اس کے پاس  ہنومان بینی وال اور گھنشیام  تیواری کے علاوہ کوئی بھی ایسا رہنما نہیں ہے، جس کی ریاستی سطح کی  پہچان ہو۔  مورچہ کانگریس اور بی جے پی کے ایسے رہنماؤں کے استقبال کے انتظار میں کھڑا ہے، جن کو ان کی پارٹی سے ٹکٹ نہیں ملے‌گا۔

یقینی طور پر ایسے رہنماؤں کی فہرست لمبی ہوگی، جن کو کانگریس اور بی جے پی کا ٹکٹ نہیں ملے‌گا۔  اس فہرست میں کئی متاثر کن امیدوار بھی ہوں‌گے، لیکن کیا ایسے رہنماؤں کی طاقت پر ہی اقتدار کی چابی حاصل کرنے کا خواب پورا ہو سکتا ہے؟سینئر صحافی اوم سینی کہتے ہیں،’ایک ذات اور ایک رہنما کی طاقت پر کبھی بھی کانگریس اور بی جے پی کا متبادل  نہیں بنا جا سکتا۔  جب تک تمام ذاتوں اور تمام علاقوں میں اثر رکھنے والے رہنما ایک منچ پر نہیں آئیں‌گے، راجستھان میں تیسرا مورچہ پیر نہیں جما سکتا۔  اس انتخابات میں ایسا  اتحاد بنتا ہوا دکھائی نہیں دے رہا۔  ‘

(مضمون نگار آزاد صحافی ہیں۔)