فکر و نظر

مدھیہ پردیش: مسلم امیدواروں سے پارٹیوں کو پرہیزکیوں ہے؟

ماضی میں مدھیہ پردیش کے مختلف حلقوں سے مسلم امیدوار جیتا کرتے تھے، ان علاقوں سے بھی جہاں مسلم آبادی پانچ یا دو فیصد سے کم ہے ۔ مگر 1990 کے بعد حالات بالکل بدل گئے۔

MP_MLAs

مدھیہ پردیش ہندوستان کی بڑی ریاستوں میں سے ایک ہے- تقریباً آٹھ کروڑ آبادی والے اس صوبے میں 29 لوک سبھا نشستیں ہیں جس کی وجہ سے اس کی قومی سیاست میں ایک اہمیت ہے۔مگر اتنی بڑی ریاست میں مسلمانوں کی  تعدادقابل لحاظ  ہونے کے باوجودان کی نمائندگی  بےحدکم ہے۔حالات کتنے خراب ہیں  اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ  پچھلی صوبائی اسمبلی میں 230 نشستوں  میں صرف ایک مسلم ایم ایل اے منتخب ہوا تھا۔جس ریاست میں 50 لاکھ مسلمان ہوں وہاں ایوان میں ان کی  موجودگی آدھے فیصد  سے بھی کم ہو، یہ کس قدر تشویشناک ہے۔

بی جے پی نے گزشتہ اسمبلی الیکشن میں صرف ایک مسلم کینڈیڈیٹ، عارف بیگ ، کو بھوپال سے ٹکٹ دیا تھا۔ اس بار بھی تک پارٹی نے صرف ایک مسلمان –فاطمہ رسول صدیقی کو بھوپال کی شمالی سیٹ سے ٹکٹ دیا ہے-مگر کانگریس کا رویہ اور بھی حیرت انگیز ہے۔دارالحکومت کی دو سیٹوں یعنی بھوپال نارتھ اور وسطی بھوپال سے مسلم امیدواروں کو ٹکٹ دیا گیا ہے مگراسکے علاوہ پورے صوبے میں صرف ایک اورمسلم امیدوار کو کانگریس نے ٹکٹ دیا ہے۔اب اسمبلی الیکشن کے لئے ووٹنگ مہینے کے آخر میں ہونا ہےمگر دونوں اہم پارٹیوں نے مسلم امیدواروں کو ٹکٹ دینے میں کوئی خاص دلچسپی نہیں دکھائی ہے۔

سرونج سیٹ سے مسرت شاہد قسمت آزامائیں گی۔ پہلے برہان پور سے حمید قاضی کو ٹکٹ دیا گیا تھا مگر ان پر ایک پرانے معاملے میں کیس ہونے کی وجہ سے انہوں نے خود ٹکٹ واپس کر دیا۔ کل ملا کر کانگریس نے تین مسلم امیدواروں کو ٹکٹ دیا ہے۔اور دونوں پارٹیوں نے 400 کے آس پاس امیدواروں کے نام اناؤنس کر دیے ہیں مگر ان میں مسلم امیدوار چار بھی نہیں۔ اب الیکشن میں ان میں سے کتنے فتحیا ب ہو کر اسمبلی پہنچیں گے، اس کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔پچھلی بار کانگریس نے  5 مسلم امیدواروں کو ٹکٹ دیا تھا-اس بار حالات اور خراب نظر آ رہے ہیں۔

یہ تلخ حقیقت ہے کہ  نہ صرف مدھیہ پردیش میں مسلم نمائندگی کا قحط ہے بلکہ پارٹیاں  الیکشن میں مسلمان امیدوار کھڑا کرنے تک سے احتراز کر رہی ہیں۔ان کو یہ خدشہ ہے کہ مسلم امیدوار کو ٹکٹ دینے پر الیکشن  مذہبی رنگ اختیار کرلے گا اور ‘پولارائزیشن’ کی وجہ سے مسلم امیدوار ہار جائےگا۔یہ بےحد خطرناک صورتحال ہے۔ چوں کہ مدھیہ پردیش میں دو پارٹیوں میں مقابلہ ہے اور کوئی بڑی تیسری طاقت نہیں ہے، مسلم ووٹر  کے پاس کوئی چارہ نہیں ہے۔سماجوادی پارٹی کا کچھ اثر ماضی میں وندھیہ علاقہ میں رہا ہے، مگر پارٹی ریاست میں لگاتار کمزور ہوتی گئی۔

 بہوجن سماج پارٹی کا ووٹ بھی گزشتہ انتخابات میں کم ہوا ہے -چوں کہ کوئی صوبائی پارٹی نہیں ہے، مسلمانوں کے پاس قاعدے کا متبادل نظر نہیں آتا۔گو کہ یہ سمجھا جاتا ہے کہ مسلم ووٹر زیادہ تر کانگریس کو ووٹ دیتے ہیں، پارٹی ان کو امیدوار  تک بنانے سے گریز کرتی ہے۔ اس کی وجہ سے مسلمانوں میں ناراضگی ہے مگر ان کے پاس کوئی چارہ نہیں ہے۔ گونڈوانا گنتنتر پارٹی جو ٹرائبل یعنی قبائلی اکثریتی علاقوں میں اثر رکھتی ہے، وہ بھی کئی بار ٹوٹ چکی ہے اور کمزور ہو گئی ہے۔ نیز، ان علاقوں میں مسلم ووٹر کی تعداد اتنی نہیں ہے کہ کسی الحاق کی گنجائش ہو اور کوئی مسلم امیدوار چنا جا سکے۔

مدھیہ پردیش میں مسلم آبادی سب سے زیاوہ، بھوپال،  مالوہ اور مغربی مدھیہ پردیش کے اضلاع میں ہے۔ ویسے شہروں میں مسلمانوں کا فیصد اچھا خاصہ ہے۔ مگر کانگریس لیڈران کا یہ ماننا ہے کہ اگر پارٹی کسی مسلمان کو ٹکٹ دیتی ہے توغیر مسلم ووٹ، کانگریس کے مسلم امیدوار کو نہیں جاتا۔اس لیے بھوپال اور برہان پور جیسی سیٹیں جہاں مسلم آبادی فیصلہ کن حالت میں ہے، وہاں ٹکٹ دیا جا سکتا ہے، باقی جگہ نہیں۔بھوپال نارتھ یعنی شمالی بھوپال واحد سیٹ ہے جو کانگریس مستقل جیت رہی ہے۔ عارف عقیل جو 1990 میں آزاد امیدوار کی حیثیت سے پہلی بار فتحیاب ہوئے تھے، تب سے لگاتار وہاں جیت رہے ہیں، صرف ایک مرتبہ انہیں شکست ہوئی تھی۔

بھوپال کی دوسری سیٹ سے عارف مسعود کو ٹکٹ دیا گیا ہے۔ وہ پچھلی مرتبہ تقریباً 6 ہزار  ووٹوں سے ہار گئے تھے۔ اس بار پھر ان کو موقع دیا گیا ہے۔ماضی میں مدھیہ پردیش کے مختلف حلقوں  سے مسلم امیدوار جیتا کرتے تھے- ان علاقوں سے بھی جہاں مسلم آبادی پانچ یا دو فیصد سے کم ہے ۔ مگر 1992 کے بعد حالات بالکل بدل گئے۔

اب 20،30 اور 40 فیصد آبادی والے حلقوں سے بھی مسلمان امیدوار کو ٹکٹ نہیں دیا جا رہا کیوں کہ ‘پولرائزیشن’ کی وجہ سے پارٹیوں  کو یہ لگتا ہے کہ مسلم امیدوار کھڑا کرنا  ان کے لیے سودمند نہیں ہے۔کوئی تیسری پارٹی نہ ہونے کی وجہ سے انہیں سیٹوں پر مسلمان جیت پاتے ہیں جہاں وہ50 فیصد یا اس سے زائد ہوں۔ مگر ایسے حالات کیسے ہو گئے کہ مسلمان امیدوار کو کانگریسی اپنا ووٹ تک ٹرانسفر نہیں کر پاتے یا کہ بی جے پی کا مسلم نیتا بی جے پی کا کور  ووٹ بھی حاصل نہیں کر پاتا۔بیشک اس کے لئے پارٹیاں  بھی ذمہ دار ہیں۔سماجی حالات تو خیر ہیں ہی۔ فی الحال تو لاکھوں کی تعداد میں ہو کر بھی  مسلم ووٹر اپنے کو بالکل بے قیمت محسوس کر رہا ہے اور یہ جمہوریت کے لئے ایک ٹریجڈی ہے۔