خبریں

نوٹ بندی معاملے میں انکشاف: آر بی آئی نے بلیک منی اور نقلی نوٹ ختم کرنے کی دلیل پر نہیں کیا تھا اتفاق

مرکز کی نریندر مودی حکومت نے نوٹ بندی نافذ کرتے وقت بتا یا تھا کہ اس سے بلیک منی اور نقلی نوٹ ختم ہو جائیں گے ۔ حالاں کہ آر بی آئی کے ڈائریکٹر نے اس دلیل کو خارج کر دیا تھا۔

علامتی تصویر، رائٹرس

علامتی تصویر، رائٹرس

نئی دہلی : گزشتہ 8 نومبر کو نوٹ بندی کے دو سال پورے ہوگئے ۔ لیکن ابھی تک اس سوال کا کوئی جواب نہیں مل پایا ہے کہ آخر نوٹ بندی سے ملک کو کیا حاصل ہوا۔ اس بیچ نوٹ بندی کے معاملے میں ایک انکشاف سامنے آیا ہے۔انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق ،8نومبر 2016کو وزیر اعظم نریندر مودی کے نوٹ بندی کے اعلان کرنے سے تقریباً 4 گھنٹے پہلے ریزرو بینک آف انڈیا کے سینٹرل بورڈ نے اس منصوبے سے اتفاق کیا تھا،لیکن اس کو نافذ کرنے کے لیے حکومت کے دو اہم دلائل کو خارج کر دیا تھا ۔ بورڈ نے اس بات سے بھی اتفاق نہیں کیا تھا کہ نوٹ بندی کے ذریعے بلیک منی اور نقلی نوٹ ختم ہوجائیں گے۔

آر بی آئی کے سینٹرل بورڈ کی 561ویں میٹنگ کے منٹس سے یہ بات صاف ہوتی ہے کہ بینک کے ڈائریکٹرز نے اس قدم کو قابل تحسین قرار دیا تھا،لیکن یہ  وارننگ بھی دی کہ نوٹ بندی رواں مالی سال کے لیے جی ڈی پی پر تھوڑے وقت کے لیے منفی اثر پڑے گا ۔یہ میٹنگ 8 نومبر 2016کو آناً فاناً میں دہلی میں ساڑھے 5 بجے شام میں کی گئی تھی ۔سینٹرل بورڈ کی میٹنگ ہونے کے 5 ہفتے بعد اس منٹس پر آربی آئی گورنر ارجت پٹیل نے  15 دسمبر 2016 کو دستخط کیا تھا ۔ آر بی آئی بورڈ کی منٹس میں کل 6 اعتراضات درج کیے گئے تھے۔

غور طلب ہے کہ آر بی آئی کو 7 نومبر کو وزارت خزانہ کے ذریعے نوٹ بندی کی تجویز کا مسودہ ملا تھا ۔ اس میں حکومت نے یہ دلیل دی تھی کہ 1000اور 500کے نوٹوں کوچلن سے باہر کرنے پر بلیک منی اور نقلی نوٹوںکا معاملہ حل ہوجائے گا ، جبکہ آر بی آئی نے حکومت کی اس دلیل کو خارج کر دیا تھا۔آر بی آئی نے کہاتھا، زیادہ تر بلیک منی کیش میں نہیں بلکہ ریئل سیکٹر کی جائیداد جیسے کہ فوج اورریئل اسٹیٹ میں ہے اور نوٹ بندی سے ان پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ وہیں نقلی نوٹ کے معاملے میں وزارت نے بورڈ کو بتایا تھا کہ زیادہ تر نقلی نوٹ 1000اور 500کے نوٹ میں ہیں اور ان کی کل تعداد تقریباً 400کروڑ ہے۔

اس پر بورڈ نے کہا کہ اگر نقلی نوٹوں کی ہی  فکر ہے تو 400 کروڑ نقلی نوٹوں کو کل نوٹوں کے مقابلے میں دیکھا جائے تو یہ کوئی بہت بڑی تعداد نہیں ہے۔ وہیں دوسرے دلائل کا جواب دیتے ہوئے بورڈ نے درج کیا کہ انڈین اکانومی کی ترقی اور بڑی کرنسی کے چلن سے اس کا تعلق بکواس ہے کیوں کہ افراط زر کی شرح پر غور نہیں کیا گیا ہے۔ حکومت نے نوٹ بندی کی تجویز میں بتایا تھا کہ بڑی کرنسی اور ہندوستانی معیشت کی ترقی سے متعلق ہے۔

آر بی آئی نے کہا ،’ بتائی گئی معیشت کی گروتھ ریٹ اصل شرح ہے جبکہ کرنسی کے چلن میں اضافہ برائے نام ہے۔ افراط زر کے لیے مناسب فرق اتنا مشکل نہیں ہو سکتا ہے۔ اس لیے یہ دلیل مناسب طور پر سفارش کی حمایت نہیں کرتی ہے۔ ‘ آر بی آئی نے تحریری طور پر کہا تھا کہ بڑی قیمت کے نوٹوں کو چلن سے باہر کرنے پر میڈیکل اور سیاحت کے شعبے میں منفی اثر پڑے گا۔

آنے والے ٹورسٹ کے مسائل کی طرف متوجہ کرتے ہوئے آر بی آئی ڈائریکٹر نے کہا،’ گھریلو اور لمبی دوری کے مسافروں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا کیوں کہ ہو سکتا ہے کہ وہ صرف اونچی قیمت کے نوٹ لا رہے ہوں اور انھیں ریلوے اسٹیشنوں / ہوائی اڈوں پر ٹیکسی ڈرائیوروں کو پیسہ دینے کے لیے مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔اس سے سیاحت پر بھی منفی اثرات پڑیں گے۔

آر بی آئی کے منٹس آف میٹنگ میں لکھا ہے کہ نوٹ بندی کے مدعے پر مرکزی حکومت اور آر بی آئی کے بیچ 6 مہینے سے بات ہو رہی تھی، جس کے دوران ‘ان میں سے زیادہ تر مدعوں پر بات  کی گئی تھی۔’ ریزرو بینک آف انڈیا کے گورنر نے یہ بھی کہا کہ مجوزہ مقا صد کے علاوہ ،’ تجویز کیے گئے قدم سے Financial inclusionاور الیکٹرانک ادائیگی  کی حوصلہ افزائی کرنے کا ایک موقع پیش کرتا ہے کیونکہ لوگ بینک اکاؤنٹس اور الیکٹرانک ذرائع کے استعمال سے نقدی ادائیگی کے فائدے دیکھ سکتے ہیں۔’