گراؤنڈ رپورٹ

چھتیس گڑھ: پہلے مرحلے کے انتخابات میں کس کا پلڑابھاری ہے؟

اسپیشل رپورٹ : چھتیس گڑھ کی 18 اسمبلی سیٹوں پر پہلے مرحلے میں  آج (12 نومبر) کو ووٹنگ ہو رہا ہے۔

چھتیس گڑھ ریاستی کانگریس صدر بھوپیش بگھیل، وزیراعلیٰ رمن سنگھ اور اجیت جوگی۔  (فوٹو بشکریہ: فیس بک)

چھتیس گڑھ ریاستی کانگریس صدر بھوپیش بگھیل، وزیراعلیٰ رمن سنگھ اور اجیت جوگی۔  (فوٹو بشکریہ: فیس بک)

چھتیس گڑھ اسمبلی انتخابات کے لئے 12 نومبر کو پہلے مرحلے کی ووٹنگ ہونی ہے۔  پہلے مرحلے میں ان 18 اسمبلی سیٹوں پر مجوزہ ووٹنگ ہونی ہے جو کہ سیکورٹی کی نظر سے حساس مانی جاتی ہیں۔  ان میں بستر ڈویژن کی 12 سیٹیں اور راجن اندگاؤ ں ضلع‎ کی 6 سیٹیں شامل ہیں۔کونٹا، بیجاپور، دنتےواڑا، چترکوٹ، بستر، جگدل پور، نارائن پور، کیش کال، کونڈاگاؤں ، انتاگڑھ، بھانوپرتاپ پور، کانکیر، خیراگڑھ، ڈونگرگڑھ، راج ناندگاوں، ڈوگرگاوں، کھجی اور محلّہ مانپور سیٹوں پر ہونے والے ووٹنگ کے لئے دونوں اہم پارٹی بی جے پی اور کانگریس نے اپنے اپنے امیدوار میدان میں اتار دئے ہیں۔

موجودہ اسمبلی میں ان 18 سیٹوں میں سے 12 پر کانگریس کا قبضہ ہے جبکہ حکمراں بی جے پی کے پاس صرف 6 سیٹیں ہیں۔  کونٹا، دنتےواڑا، چترکوٹ، بستر، کیش کال، کونڈاگاوں، بھانوپرتاپ پور، کانکیر،  خیراگڑھ، ڈونگرگاؤں، کھجی، محلّہ مانپور سیٹیں کانگریس کے قبضے میں ہیں جبکہ بیجاپور، جگدل پور، نارائن پور،  انتاگڑھ، ڈونگرگڑھ، راج ناندگاؤں پر بی جے پی کا قبضہ ہے۔لیکن،2013 کے پچھلے اسمبلی انتخابات کے پہلے تک ان 18 سیٹوں پر بی جے پی مضبوط ہوا کرتی تھی۔  2008 میں اس نے ان 18 میں سے 15 سیٹیں جیتی تھیں، تو وہیں 2003 میں بستر،  انتاگڑھ اور محلّہ- مانپور سیٹیں وجود میں نہیں آئی تھیں، تب باقی بچی 15 سیٹوں میں سے بی جے پی کو 10 پر کامیابی ملی تھی، جبکہ کانگریس کو 5 سیٹوں سے اطمینان کرنا پڑا تھا۔

2003 میں ان سیٹوں پر 65.68 فیصد ووٹنگ ہوئی تھی، 2008 میں 67.14 فیصد۔  لیکن،2013 میں ووٹنگ کا فیصد تقریباً 9 فیصد بڑھا اور 75.93 فیصد ہو گیا۔اس بڑھے ہوئے ووٹ فیصد کی وجہ بی جے پی حکومت سے مقامی لو گوں کی ناراضگی تھی جس کی وجہ سے عوام نے بی جے پی کے ایم ایل اے کو ہٹانے کے لئے کھل کر ووٹنگ کی جس سے کانگریس کو کامیابی ملی۔وہیں، کانگریس کی بڑھت کو سکما ضلع کی جھیرم گھاٹی میں کانگریسی رہنماؤں پر ہوئے نکسلی حملے کی وجہ سے ملی ہمدردی سے جوڑ‌کر دیکھا گیا۔

بہر حال، 18 سیٹوں میں 11 سیٹیں ایس ٹی اور ایک سیٹ ایس سی کے لئے ریزرو ہے۔  کانگریس نے ان سیٹوں پر اپنے 12 ایم ایل اے میں سے تین کا ٹکٹ کاٹ دیا ہے جبکہ بی جے پی نے پچھلے انتخاب میں جیتے اپنے تمام 6 ایم ایل اے پر پھر سے بھروسہ کیا ہے۔غور طلب ہے کہ  انتاگڑھ سے 2013 اسمبلی انتخابات میں وکرم اسینڈی نے جیت درج کی تھی۔  لیکن 2014 میں وہ لوک سبھا رکن پارلیامان چن لئے گئے تھے جس کی وجہ سے اس سیٹ پر ضمنی انتخاب ہوئے جس میں بھوج راج ناگ نے جیت درج کی۔

بھوج راج کو اس بار ٹکٹ نہ دےکر واپس وکرم اسینڈی کو ہی پارٹی نے آزمایا ہے جو دکھاتا ہے کہ کہیں نہ کہیں اپنا گڑھ کھونے کا ڈر بی جے پی کے اندر ہے۔کانگریس کی طرح ہی پچھلے انتخابات میں بی جے پی نے بھی اپنے 4 ایم ایل اے کا ٹکٹ کاٹا تھا لیکن بی جے پی کو اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوا تھا۔  جن 4 نئے چہروں پر اس نے داؤ کھیلا تھا، ان میں سے 3کی ہار ہوئی تھی۔

اس لئے بی جے پی نے اس بار ایساخطرہ نہیں اٹھایا اور گزشتہ انتخابات کے فاتح سبھی ایم ایل اے کو پھر سے میدان میں اتار دیا جس کے تحت رکن پارلیامان وکرم اسینڈی کو بھی پھر سے ایم ایل اے کا الیکشن  لڑانے واپس بلایا گیا۔ بیجاپور سے  وزیر جنگلات مہیش گاگڑا، جگدل پور سے سنتوش بافنا، نارائن پور سے وزیر تعلیم کیدار کشیپ،  انتاگڑھ سے سابق وزیر اور رکن پارلیامان وکرم اسینڈی، راج ناندگاؤں سے وزیراعلیٰ رمن سنگھ 2008 کے انتخابات سے ہی اپنی اپنی سیٹیں بی جے پی کو جتا رہے ہیں۔

ان میں وکرم اسینڈی تو 2003 میں بھی نارائن پور سے جیتے تھے۔  ڈوگرگڑھ سے ایم ایل اے سروجنی  بنجارے پر بھی بی جے پی نے  بھروسہ دکھایا ہے۔  پہلے مرحلے کے انتخابات میں ڈونگرگڑھ واحد ایس سی کے لئے ریزرو سیٹ ہے۔وہیں، بی جے پی کا امیدوار نہ بدلنے کی وجہ یہ بھی ہے کہ راج ناندگاؤں اور بیجاپور کو چھوڑ دیا جائے تو باقی 4سیٹیں بی جے پی کی روایتی سیٹ ہیں جن پر وہ اب تک نہیں ہاری ہے۔  وہیں، راج ناندگاؤں سے رمن سنگھ کا انتخاب لڑنا جیت کی گارنٹی ہے۔

کانگریس کے لئے ان سیٹوں کو بی جے پی سے چھیننا چیلنج ہے۔اس لئے پچھلی بار کے 4 چہروں کو اس بار دوبارہ نہیں آزمایا گیا ہے۔  ان میں ایک نام منتورام پوار کا بھی ہے جو  انتاگڑھ اسمبلی ضمنی انتخاب کے دوران ہوئی خرید-فروخت میں شامل رہے تھے اور بعد میں بی جے پی میں شامل ہو گئے تھے۔بیجاپور اور نارائن پور میں کانگریس کے پچھلے ہی امیدوار میدان میں ہیں جبکہ جگدل پور میں 2003 میں ہارے ریکھ چند جین کو پھر سے موقع دیا گیا ہے۔   انتاگڑھ میں سابق پولیس افسر انوپ ناگ کو آزمایا ہے۔

راج ناندگاؤں بھی وزیراعلیٰ رمن سنگھ کی وجہ سے بی جے پی کا مضبوط گڑھ بن گیا ہے اور اس بار کانگریس ان کے سامنے بی جے پی سے کانگریس میں شامل ہوئیں سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپئی کی بھتیجی رکن پارلیامان کرونا شکلا کو میدان میں لےکر آئی ہے۔کانگریس نے جن 3 سیٹوں پر اپنے ایم ایل اے کا ٹکٹ کاٹے ہیں وہ کانکیر، کھجّی اور محلّہ  مانپور ہیں۔  کھجّی میں کانگریس کے لئے دو بار سے جیت دلا رہے بھولارام ساہو کا بھی ٹکٹ کاٹا گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں : چھتیس گڑھ میں ہنگ اسمبلی اجیت جوگی کے لیے امید کی کرن ہوگی

حکمراں بی جے پی کے لئے ان 18 سیٹوں میں سے کونٹا اور محلّہ  مانپور کی سیٹیں چیلنج کی طرح ہیں۔  کونٹا میں کواسی لکھما نام کے چیلنج سے بی جے پی کبھی پار نہیں پا سکی ہے۔2003 سے 2013 کے درمیان تین-تین الگ الگ امیدوار اتار‌کر بھی اس کو جیت نہیں ملی ہے۔  اس لئے اس بار 2013 میں صرف 6000 ووٹ سے ہارے دھنی رام برسے کو پارٹی نے پھر سے موقع دیا ہے۔جبکہ محلّہ  مانپور کی سیٹ 2008 میں وجود میں آنے کے بعد سے ہی کانگریس کے پاس ہے۔  دلچسپ یہ ہے کہ اس سیٹ پر کانگریس اور بی جے پی دونوں ہی ہر بار اپنے امیدوار بدل دیتی ہے۔

2008 میں کانگریس کے لئے شیوراج ہٹائے جیتے تو 2013 میں ان کی ٹکٹ کاٹ‌کر تیج کنور نیتام کو ملا۔  اب تیج کنور کا بھی ٹکٹ کٹ گیا ہے اور اس بار اندر شاہ منڈاوی میدان میں ہیں۔  بی جے پی نے بھی روایت کو نبھاتے ہوئے اپنا امیدوار بدلا ہے۔ویسے تو کھجّی سیٹ کی ریاضی بھی بی جے پی کے لئے فکر کا سبب ہو سکتا ہے۔ 2003 میں جیتی یہ سیٹ بی جے پی 2008 اور 2013 میں ہار گئی۔  2013 میں تو وہ تیسرے مقام پر رہی۔  وجہ تھی، سابق ایم ایل اے راجندر پال سنگھ بھاٹیا کی بغاوت۔  وہ آزاد میدان میں اترے اور 42000 سے زیادہ ووٹ لےکر دوسرے مقام پر رہے۔

اس بار بھی ذاتی فارمولے کو قابو میں کرنے کے لئے بی جے پی نے ان کا ٹکٹ کاٹ‌کر ہریندر ساہو کو دیا ہے تو وہیں کانگریس نے بھی اپنے دو بار کے ایم ایل اے بھولارام کا ٹکٹ کاٹ‌کر خاتون امیدوار چھننی ساہو کو میدان میں بھیجا ہے۔اگر بات کریں ان سیٹوں کی تو لگاتار کانگریس 2013 کے جھیرم گھاٹی حادثہ کو رائےدہندگان کو یاد دلا رہی ہے تاکہ پچھلی بار کی طرح اس بار بھی وہ ہمدردی کے سہارے اس کا فائدہ اٹھا سکے۔

وہیں، ان سیٹوں پر تیسری طاقت کی بات ہو تو اب تک کوئی بھی پارٹی یہاں سے ٹھیک ٹھاک  ووٹ نہیں بٹور پائی ہے۔صرف کونٹا سیٹ سے ہی سی پی آئی مقابلے میں نظر آئی ہے۔باقی جگہ کانگریس اور بی جے پی کے علاوہ دیگر تمام جماعتوں  کے امیدوار اپنی ضمانت تک نہیں بچا پاتے ہیں اور قومی ہو یا علاقائی جماعت ان کی جھولی میں ایک-دو فیصد ووٹ ہی جا پاتے ہیں۔

قومی جماعتوں میں یہاں بہوجن سماج پارٹی اور کمیونسٹ پارٹی آف انڈیااور علاقائی جماعتوں میں سماجوادی پارٹی جیسے بڑے نام انتخاب لڑتے ہیں لیکن حالت یہ ہے کہ پچھلے انتخابات میں 8 سیٹوں پر نوٹا تیسرے پائیدان پر رہا۔کانگریس اور بی جے پی کو چھوڑ‌کر کوئی بھی جماعت دوسرے نمبر پر نہیں پہنچی۔  جبکہ ایک آزاد امیدوار تک نے دوسرے نمبر پر حاضری درج کرائی۔

حالانکہ اس بار کانگریس سے الگ ہوکر چھتیس گڑھ کی عوام کانگریس(چھج کاں)بنانے والے سابق وزیراعلیٰ اجیت جوگی کو  بھروسہ ہے کہ ان کا قبائلی ہونا ان سیٹوں پر ان کی پارٹی کو فائدہ پہنچائے‌گا کیونکہ یہ سیٹیں قبائلی اکثریتی مانی جاتی ہیں۔لیکن پہلے مرحلے کی 18 سیٹوں میں سے 8 سیٹیں ڈونگرگڑھ، ڈوگرگاؤں،  انتاگڑھ، کانکیر، کیش کال، کونڈاگاؤں، دنتےواڑا، اور کونٹا اجیت جوگی نے بہوجن سماج پارٹی سے اتحاد کرکے اس کو دے دی ہیں۔  چھج کاں صرف 10 سیٹوں پر انتخاب لڑ رہی ہے۔

2013 کی اسمبلی انتخابات میں بی ایس پی  کو ڈونگرگڑھ سے 2753، ڈونگرگاؤں سے 1713،  انتاگڑھ سے 2009، کانکیر سے 4197، کیش کال سے 4378، کونڈاگاؤں سے 3347 اور کونٹا سے 2579 ووٹ ملے تھے جبکہ  انتاگڑھ میں اس نے اپنا امیدوار نہیں اتارا تھا۔  پارٹی کا کل ووٹ فیصد تقریبا 2رہا تھا۔

اس لحاظ سے دیکھیں تو تیسرے متبادل  کے طور پر بی ایس پی ہی نہیں اجیت جوگی کی چھج کاں بھی مقابلے میں کہیں دکھتی، یہ چھج کاں کی پالیسی سے پتا چلتا ہے کہ جو پارٹی جن سیٹوں پر کبھی 2 فیصد ووٹ نہیں پا سکی، اتحاد کی حالت میں وہ سیٹیں اس کو سونپ دی گئیں جو کہ سیدھے طور پر اپنے ہار کو قبول کرنے کے برابر ہے۔

بہتر ہوتا کہ اپنے قبائلی چہرے کے بل اجیت جوگی اپنی ہی پارٹی کے امیدوار میدان میں اتارتے۔  وہیں، اجیت جوگی جو کہ اپنی پارٹی کی تشکیل کے وقت سے ہی راج ناندگاؤں سے وزیراعلیٰ رمن سنگھ کے سامنے انتخاب لڑنے کی بات کہہ رہے تھے، عین موقع پر ڈرامائی طریقے سے مکر گئے۔ان مثالوں سے واضح ہے کہ تیسری طاقت کے طور پر جوگی کی پارٹی کانگریس اور بی جے پی کو ٹکّر دیتی نظر نہیں آتی ہے اور اس کے پاس کوئی مضبوط پالیسی نہیں ہے۔

اس بار ایک دیگر اختیار کے طور پر عام آدمی پارٹی (عآپ) نے بھی تال ٹھوکی ہے اور سونسوری جیسے ناموں کو ساتھ لےکر وہ ان نکسل متاثر ہ علاقوں میں اپنی پہچان بنانے کے لئے کوشاں رہی ہے۔گزشتہ دنوں کونٹا کے نلکاتونگ گاؤں میں ہوئے نکسلی تصادم میں دیہی بچّوں کے مارے جانے کا مدعا عآپ کی طرف سے اٹھایا گیا تھا۔بہر حال، کانگریس-بی جے پی کے مقابلے میں دیگر قومی، علاقائی اور رجسٹرڈ جماعتوں کا اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے، یہ تو 11 دسمبر کو ہی واضح ہوگا جب انتخابی نتیجے اعلان کئے جائیں‌گے۔