خبریں

صرف چیئر پرسن کے سہارے چل رہا ہے نیشنل کمیشن فار وومین

نیشنل  کمیشن فار وومین  میں  چیئر پرسن کے عہدے کو چھوڑ‌کر تمام پانچ ممبروں کے عہدے خالی ہیں۔ کمیشن کو مضبوط کرنے کے لئے بنایا گیا بل بھی اپریل 2015 سے ہی وزیر اعظم دفتر میں زیر التوا ہے۔

(فوٹو بشکریہ : ٹوئٹر)

(فوٹو بشکریہ : ٹوئٹر)

نئی دہلی : ایک طرف  می ٹو تحریک زور شور سے چل رہی ہے اور جنسی استحصال کی شکار خواتین اپنی داستان بیان کر رہی ہیں۔ اس کی وجہ سے مودی حکومت میں مرکزی وزیرمملکت خارجہ رہے ایم جے اکبر کو اپنے عہدے سے استعفیٰ بھی دینا پڑا۔ لیکن خواتین کی حفاظت کے معاملوں کو دیکھنے والا ہندوستان کا سب سے بڑا ادارہ نیشنل  کمیشن فار وومین  (این سی ڈبلیو) میں ایک بھی ممبر نہیں ہے۔ این سی ڈبلیو میں پانچ ممبروں کے لئے عہدے ہیں اور اس وقت اس میں تمام عہدے خالی ہیں۔ کمیشن کے آخری ممبر آلوک راوت تھے جو گزشتہ  19 اکتوبر کو ریٹائر ہو گئے۔ اس وقت کمیشن میں صرف اس کی چیئرپرسن ریکھا شرما ہیں جو کہ سبھی کام کاج کی ذمہ داری سنبھال رہی ہیں۔

انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق پچھلے ممبروں کی تین سال کی مدت پورا کرنے کے بعد ایک بھی ممبر کی ابھی تک تقرری نہیں ہوئی ہے۔ بتا دیں کہ نیشنل  کمیشن فار وومین  کے پانچ عہدوں میں سے دو عہدے ایس سی اور ایس ٹی کی خاتون امیدوار کے لئے ریزرو ہوتے ہیں۔ ایسا اس لئے کیا گیا ہے تاکہ کمیشن میں پسماندہ  کمیونٹی کے لوگوں کے لئے مناسب نمائندگی ہو اور ان کی شکایتوں کو سنا جائے۔

حالانکہ پچھلے ایس سی اور ایس ٹی ممبر ثمینہ شفیق اور لال دنگلیانی سیلو کے ریٹائر ہونے کے بعد یہ عہدے اپریل 2015 اور ستمبر 2016 سے خالی ہیں۔ ایک دوسرے  ممبر سشما ساہو کی مدت  اگست میں ختم ہو گئی تھی۔ وہیں اسی مہینے میں ایک اور ممبر ریکھا شرما کی مدت ختم ہونے پر ان کو این سی ڈبلیو  کا چیئرپرسن بنا دیا گیا۔ وہیں حال ہی میں ریٹائر ہوئے آلوک ورما کی تقرری اسی حکومت کے وقت  میں ہوئی تھی۔ ورما واحد ایسے مرد ممبر ہیں جن کی تقرری وومین  کمیشن میں ہوئی تھی۔

گھریلو تشدد اور دوسری  شکایتوں کے باقاعدہ معاملوں کو سنبھالنے کے علاوہ،  می ٹو تحریک کے دوران پچھلے مہینے میں جنسی استحصال کی شکایتوں کے بڑھنے پر، این سی ڈبلیو نے حال ہی میں ایسے معاملوں کو سنبھالنے کے لئے الگ سے ایک ای میل آئی ڈی (ncw.metoo@gmail.com) کا اعلان کیا تھا۔ خواتین کے جنسی استحصال پر بنائے گئے قانون (کام کرنے کی جگہ) ، 2013 میں ممکنہ ترمیم پر قانونی ماہرین اور سول سوسائٹی کے شراکت داروں سے مشورہ کرنے کا بھی فیصلہ کیا گیا ہے۔

رابطہ کرنے پر، ڈبلیو سی ڈی کے ایک سینئر  افسر نے کہا، ‘ تجویز پروسیس میں ہے اور عہدے جلدہی بھرے جائیں‌گے۔ ‘خالی عہدوں کے بارے میں پوچھے جانے پر، این سی ڈبلیو کی صدر ریکھا شرما نے کہا، ‘ ہمارے اوپر کام کی ذمہ داری زیادہ بڑھ گئی ہے، خاص کر اس لئے کیونکہ سبھی پانچ عہدے خالی ہیں لیکن ہم کسی طرح اس کو سنبھال رہے ہیں۔ تقرری کا مدعا وزیر اعظم دفتر اورمنسٹری آف وومین اینڈ چائلڈ ڈیولپمنٹ کے ذریعے سنبھالا جاتا ہے۔ ہمیں حال ہی میں بتایا گیا تھا کہ تمام پانچ ممبروں کے لئے انتخابی عمل تقریباً پورا ہو چکا ہے۔ ‘

وزارت کے افسروں نے کہا کہ 2015 سے زیر التوا این سی ڈبلیو تقرری کے علاوہ، اپریل 2015 سے پی ایم او کے ساتھ اہم خاتون کے لئے نیشنل کمیشن بل کا مسودہ زیر التوا ہے جبکہ ارون جیٹلی کی قیادت والے وزراء نے کمیشن کو مضبوط کرنے کے لئے بل کے مسودہ کو منظوری دے دی تھی۔ اگر یہ بل منظور ہو جاتا ہے تو کمیشن کو سول کورٹ جتنی طاقتیں مل جائیں‌گی، جس سے مجرموں پر جرمانہ لگانا، دستاویزوں کی مانگ اور حکم کی خلاف ورزی کرنے پر کسی مجسٹریٹ سے گرفتاری کا وارنٹ جاری کرنے کے حکم کا حق مل جائے‌گا۔

وزراء کے گروپ نے این سی ڈبلیو کو سیاسی تقرریوں کے  موجودہ نظام  سے دور کرنے کی سفارش کی تھی۔ یہ بل ابھی تک پارلیامنٹ کے سامنے پیش کیا جا نا ہے۔