خبریں

امت شاہ کا سرنیم فارسی الاصل ہے، بی جے پی کو سب سے پہلے اس کو بدلنا چاہیے: عرفان حبیب

معروف مؤرخ پروفیسر عرفان حبیب نے کہا کہ ’ گجرات ‘ لفظ بھی فارسی الاصل ہے۔  پہلے اس کو ’ گجراتر ‘کے نام سے جانا جاتا تھا۔  اس کا بھی نام بدلا جانا چاہیے۔

بی جے پی صدر امت شاہ۔  (فوٹو : پی ٹی آئی)

بی جے پی صدر امت شاہ۔  (فوٹو : پی ٹی آئی)

نئی دہلی: کئی ریاستوں میں بی جے پی حکومتوں کے ذریعے شہروں کے نام بدلنے کے فیصلوں کے درمیان معروف مؤرخ عرفان حبیب نے کہا ہے کہ پارٹی کو سب سے پہلے اپنے قومی صدر امت شاہ کا سرنیم بدلنے کے بارے میں سوچنا چاہیے۔پروفیسر عرفان حبیب نے کہا، ‘بی جے پی کے قومی صدر کا سرنیم شاہ دراصل گجراتی نہیں بلکہ فارسی الاصل لفظ ہے، اس لئے پارٹی کو سب سے پہلے ان کا نام بدلنا چاہیے۔ ‘ٹائمس آف انڈیا کی رپورٹ کے مطابق، پروفیسر عرفان حبیب نے کہا، ‘ گجرات لفظ بھی فارسی کا ہے۔  پہلے اس کو گجراتر نام سے جانا جاتا تھا۔  اس کا بھی نام بدلا جانا چاہیے۔  ‘

پروفیسر عرفان نے کہا، ‘بی جے پی حکومتوں کی طرف سے نام بدلے جانے کی یہ حکمت عملی آر ایس ایس کی  پالیسیوں کے ہی برابر ہے۔  جیسا کہ پڑوسی ملک پاکستان میں جو کچھ بھی غیر اسلامک تھا، اس کے نام بدل دئے گئے۔  اسی طرح بی جے پی اور دائیں بازو کے ہم خیال لوگ ان چیزوں کو بدلنا چاہتے ہیں، جو غیر ہندو ہیں اور خاص طور پر اسلامی الاصل کے ہوں۔  ‘

رپورٹ کے مطابق، پروفیسر حبیب نے یہ رد عمل اتر پردیش میں5 بار کے ایم ایل اے جگن پرساد گرگ کے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کو دیے ایک خط کو لےکر دیا۔ اس خط میں گرگ نے تاج نگری آگرہ کا نام بدل‌کر ‘اگرون ‘ کرنے کی التجا کی ہے۔  انہوں نے بتایا ہے کہ آگرہ اگروال کمیونٹی کا گھر ہے، جو مہاراج اگرسین کے پیروکار ہیں۔

ٹائمس آف انڈیا سے بات کرتے ہوئے گرگ نے کہا، ‘یہ آگرہ نام کا کوئی مطلب نہیں ہے۔  پانچ ہزار سال پہلے یہاں یمنا کے کناروں پر گھنا جنگل تھا، جس کو لوگ اگرون کہتے تھے۔  جس کا ذکر مہابھارت میں بھی ہے، لیکن مغل راج میں اس کا نام بدل‌کر اکبرآباد کر دیا گیا۔  ‘گرگ نے بتایا کہ اگرون اگروال کمیونٹی کے لوگوں کا علاقہ ہے اور آگرہ میں تقریباً چار لاکھ اگروال رہتے ہیں۔  اس وقت مہاراج اگرسین نے اگرون پر حکومت کی تھی اور اگروال کمیونٹی انہی کے  پیروکار ہیں۔

پروفیسر عرفان نے گرگ کے دعووں کو لےکر کہا، ‘مہاراج اگرسین کی تاریخ پوری طرح سے قدیم کہانیوں پر مبنی ہے۔  دوسری بات یہ کہ اگروال کمیونٹی دعویٰ کرتی ہے کہ ان کا اصل مقام ہریانہ کے اگروہا میں ہے، اس لئے ایم ایل اے کے ذریعے آگرہ کا نام بدلنے کے لئے دی گئی دونوں دلیل غلط ہے۔  ‘پروفیسر نے آگے بتایا،’پہلی بار آگرہ نام 15ویں صدی کی لودھی سلطنت کے وقت سنا گیا تھا۔  اس پورے علاقے کو گنگا اور یمنا کے درمیان کا دوآب کہا جاتا تھا۔  ‘