فکر و نظر

آچاریہ کر پلانی کو ہمیں کیوں یاد کرنا چاہیے؟

1977 میں اندرا کی مخالفت میں کرپلانی نے یہ صاف کردیا تھا کہ اظہار رائےکی آزادی صرف دانشوروں کی ضرورت نہیں بلکہ غربا اور مظلوموں کی بھی اہم ضرورت ہے۔  وہ  آمرانہ حکومت کے خلاف عوام کو سڑکوں پر احتجاج کے لیے آمادہ کرنےمیں بھی یقین رکھتےتھے۔

فوٹو : سوشل میڈیا

فوٹو : سوشل میڈیا

مولانا آزاد(1958-1888)اورآچاریہ جیونت رام بھگوان داس کر پلانی (1982-1888) کی تاریخ پیدائش ایک ہی ہے، 11 نومبر 1888، اور کانگریس کے اندر اور گاندھیائی ہونے کے باوجود دونوں کے نظریاتی اختلافات  نمایاں تھے۔پچھلے دنوں ، مختلف نیوز پورٹل پر، کر پلانی کے سلسلے میں جو تحریریں آئی ہیں، مجموعی طور پر ان میں بعض اہم باتوں کو حذف کر لیا گیا ہے۔اس لیے یہاں  ان کی پبلک لائف اور سیاسی موقف کا مختصر جائزہ لیا جا رہا ہے۔

ہندوستان میں آج کی نوجوان نسل اور طلبا و طالبات کی برادری اتنی خوش بخت نہیں ہے، جتنی ماضی قریب میں ہوا کرتی تھی۔ 1920 کی دہائی میں ان کے پاس، رول ماڈل کے طور پر،بھگت سنگھ جیسے جاں باز، دانشور انقلابی نوجوان تھے، 40-1930 کی دہائیوں میں جواہر لعل نہرو اور سبھاش چندربوس جیسے رہنما تھے، آزادی کے بعد 1960 اور 1970 کی دہائیوں میں انہیں رام منوہر لوہیا (1967-1910)اور جے پرکاش نارائن (1979-1902)جیسے رہنما تھے جو حکومت کی کار کردگیوں پر نہ صرف گہری نظر رکھتے تھے بلکہ عوام کو سڑکوں پر احتجاج کے لیےتیار بھی کرتے تھے۔

جے پی اور کر پلانی نے اندرا گاندھی (1984-1917) کی ایمر جنسی کے خلاف بھی پر زور احتجاج کیا۔ 26 جون 1975 کو نافذ ایمرجنسی کے بعد پریس کی آزادی سلب کر دی گئی تھی۔ جبکہ مو جو دہ حکومت کے بارے میں یہ رائےاب عام ہوتی جارہی ہےکہ اس عہد میں میڈیا کا بڑا حصہ نہ صرف خود کو حکو مت سے ساز باز رکھنے والے چند سرمایہ داروں کے ہاتھوں بک چکی ہے، بلکہ اقلیتوں کے خلاف بے بنیاد افواہیں ، تعصب اور نفرت بھی پھیلا رہی ہیں۔ بعض مقبول ٹی وی چینلوں نے تو مانو نفرت پھیلانا ہی اپنا مرکزی کردار بنا لیا ہے۔ نتیجتاًبے روزگار نوجوان گمراہ ہو کر ماب لنچ کا حصہ اور نفرت آمیز نیشنلزم کے حامی بنتے جا رہے ہیں۔ اقتصادی محاذ پر حکومت کی ناکا میوں کو بے نقاب کرنا اب میڈیا کے اس حصے کا فرض نہیں رہا۔ بلکہ ان فرائض کو گناہ اور دیش دروہ سمجھا جا رہا ہے۔

لنچنگ کا تازہ ترین ہیبت ناک واقعہ ابھی حال ہی میں سیتا مڑھی میں انجام دیا گیا۔20 اکتوبر کو 80 برس کے ایک ضعیف کا بہیمانہ قتل کر کے آگ کے حوالے کر دیا گیا۔ یہ پولیس کی موجودگی میں ہوا۔ ور کئی ہفتے تک نیشنل میڈیا اس بر بریت سے بے خبر رہی۔المیہ یہ ہے کہ جے بی کر پلانی 1957 میں سیتا مڑھی  لوک سبھا حلقہ سے منتخب ہوئےتھےاورنہرونےان کی جیت پکی کرنےکی غرض سے،پرجاسوشلسٹ پارٹی کےاس امیدوارکےخلاف کانگریس کاکوئی مضبوط امیدوارنہیں دیاتھا۔واضح رہےکہ سیتامڑھی اورشیوہرکایہ علاقہ تاریخی اعتبار سے فسادات زدہ علاقہ رہا ہے۔ اس نوع سے شمالی بہار کا شاید سب سے زیادہ sensitive علاقہ یہی ہوگا۔

کر پلانی کے لوک سبھا ممبر رہتے ہوئے سیتامڑھی شہراورپھراس ضلع کےایک گاؤں آختہ میں اپریل 1959 میں ایک بڑافسادہواتھا۔لیکن دستیاب جانکاریوں کےمطابق کر پلانی نے خاموشی برقرار رکھی تھی۔ کر پلانی کی وفات کے 22 برسوں بعد 2004 میں شائع، ایک ہزار صفحات پر مشتمل ضخیم آپ بیتی بھی نہ صرف یہ کہ سیتا مڑھی کے فسادات پر خاموش ہے، بلکہ آر ایس ایس کا سرے سے کوئی ذکر نہیں ہے۔ صفحہ 154 پر ہندو مہا سبھا کا نہایت مختصر ذکر کچھ اس انداز میں ہے کہ کر پلانی کا، اس تنظیم کے تئیں، کچھ نرم گوشہ کا احساس ہوتا ہے۔ (گاندھی جی کے قتل کے بعد پٹیل بھی ان تنظیموں کے خلاف ہو گئے لیکن کرپلانی کی تحریروں میں ان تنظیموں کےتعلق سےیاتوخاموشی ہےیانرم گوشہ ہے۔ )

اس سے قبل، 1895، جنوری 1941 (میں رکسیہ، بلسنڈ)ا کتوبر 1947( میں سنگھہ چوری، پو پری، میں اقبال حسین نام کے ایک 70 سالہ بزرگ کی لنچنگ کر دی گئی تھی) اور پھر یہ فساد باج پٹی، حسینہ، اور میہسول گاؤں تک پھیل گیا تھا) ، 1948، میں بھی بلسنڈ تھانہ کی بستی میں فسادات ہو چکے تھے۔اپریل 1959 کے فساد میں 11 لوگ جاں بحق ہوئےتھےاور 200 سےزائدمکانات نذرآتش کردیے گئے تھے۔وزیراعظم نہرونےبہاردورےسےواپس ہوکرحیرانی کااظہار،یوں کیاتھاکہ،اس وقت ضلع کلکٹر،صوبہ گورنر(ذاکرحسین)،پردیش کانگریس کمیٹی کاصدر(عبدالقیوم انصاری)سبھی مسلمان تھے۔ وہ فساد بھی ایک بے بنیاد افواہ کی بناپر ہوا تھا جس میں یہ کہا گیا تھا کہ شہر کے سالانہ مویشی میلے میں گائےذبح کی گئی تھی۔اکتوبر 1967 میں سورسنڈمیں بھی ایک بڑافسادہواتھا۔وہاں 1959 اور 1965 میں تناؤبن گیاتھا۔

کر پلانی کی اس موقف پر خاموشی ایک وضاحت طلب اور تحقیق طلب بات تو ہے۔لیکن ان کی دیگر نما یاں کار کردگیوں کو یاد کرنا وقت کی ضرورت ہے۔ کر پلانی کی آپ بیتی سے مولانا آزاد، پٹیل، اور سید محمود سے متعلق کئی متنازعہ باتوں کی بے باک وضاحت اور انکشافات بھی ملتے ہیں۔1950 میں کانگریس سے نکل کر انہوں نے کسان مزدور پرجا پارٹی کے قیام میں حصہ لیا جو جلد ہی پرجا سو شلسٹ پارٹی بن گئی۔ نہرو سے ان کا اصولی اختلاف یوں ہو تھا کہ کانگریس کے صدر کی حیثیت سے کر پلانی حکو مت کے روز مرہ کے معا ملا ت و معمو لات میں دخل چاہتے تھے، جو نہرو کے لیےقابل قبول نہیں تھا۔(حالاں کہ ان کی بیگم،سوچیتاکرپلانی (1974-1908) کانگریس میں ہی بنی رہیں اور 1963 سے 1967 تک اترپردیش کی پہلی خاتون وزیراعلیٰ بھی رہیں۔)

1950 سے 1960 تک انہوں نے ایک انگریزی ہفتہ وار، وجل، (Vigil) ، بھی نکالا جس کا اہم موقف تھا عوام کو ان امور سے واقف کرانا جس میں حکومت گاندھیائی اصولوں سے منحرف ہو رہی تھی۔ بد عنوانی اور کالا بازاری کو بے نقاب کرنا اس اخبار کا مہم تھا۔ ان خبروں اور کالموں کو جب دوسرے اخبارات بھی شائع کرنے لگے تو وزیر داخلہ سردار پٹیل نے ان اخبارات پر کچھ پابندی لگانا چاہی لیکن ناکام رہے (صفحات 737-735)۔ 1962 میں انہوں نے، سیتا مڑھی چھوڑ کر، شمالی بمبئی  سے اس وقت کے وزیر دفاع کرشنا مینن کے خلاف الیکشن لڑا تھا۔ مینن پر بد عنوانی کے الزامات تھے۔

 1963 میں کر پلانی نے لوک سبھا کا پہلا تاریخی عدم اعتماد بل تجویز کیا۔ تب وہ سنبھل حلقہ سے ایک ضمنی انتخاب جیت کر لوک سبھا پہنچے تھے۔ یہ سیٹ مولانا حفظ الرحمان (1962-1901)کی وفات سے خالی ہو ئی تھی۔ مولانا حفظ الرحمان سنہ 1946-1945  میں مسلم لیگ کے خلاف مہم چھیڑ کے ہوئےتھے،ان کےمضامین کامجموعہ” تحریک پاکستان پرایک نظر”کےعنوان سےشائع ہوا۔

سندھ کے شہر حیدرآباد میں پیدا اور پونا سے تعلیم یافتہ، کر پلانی نے1917-1912 کے دوران مظفر پور کے کالج میں تاریخ اور انگریزی ادب کے استاد کی حیثیت سے خدمات انجام دی تھیں ۔ تبھی گاندھی جی، چمپارن ستیاگرہ کے لیے موتیہاری جانےکےدوران،کرپلانی کےیہاں مظفرپور میں مہمان ہوئےتھےاورمحض اس تعلق کی وجہ کرانگریزی حکومت نےکرپلانی کوجیل میں ڈال دیاتھا۔تب سےوہ اہم گاندھیائی کےطورپر جانے جاتے رہے۔ حالاں کہ گاندھی جی سے بھی ان کا رشتہ تنقید آمیز ہی تھا۔

 1967 سے 1977 کے دوران کر پلانی کانگریس حکومت کے خلاف متحدہ محاذ بنانے میں مصروف رہے۔ 1977 میں اندرا کی مخالفت میں انہوں نے یہ واضح کیا تھا کہ اظہار رائےکی آزادی صرف دانشوروں کی ضرورت نہیں ہے بلکہ یہ توغربا اور مظلوموں کی بھی اہم ضرورت ہے۔ اور وہ  آمرانہ حکومت کے خلاف عوام کو سڑکوں پر احتجاج کے لیے آمادہ کرنےمیں یقین رکھتےتھے۔

آج جب بہت سے سماج وادی اور سماج واد سے وابستگی کا دکھا وا کرنے والے لوگ کھلے طور پرنفرت اور شدید تنگ نظری والے تعصب سے بھری نظریوں والی جماعتوں کا حصہ بنتے جا رہے ہیں، اور آمرانہ حکومت کے خلاف احتجاج کو دیش دروہ گردانتے ہیں،تو ایسے وقت میں کر پلانی کی آپ بیتی اور دیگر تصانیف کا مطالعہ ضروری ہے۔ آج کے گمراہ نو جوان سہل پسندی میں ایسی نفرت اور تعصب والی جماعتوں سے منسلک ہو کر ملک کو تباہ کر رہے ہیں۔ انہیں اپنے راہنماؤں کی تحریروں اور عمل پر بھی ایک ناقدانہ غور و فکر کے لیے تیارکرنےکی مہم کی ضرورت ہےاورکرپلانی اورمختلف مکاتب فکرکےانکےمعاصرین اور ہم نواؤں کی خو بیوں اور خامیوں پر اکادمک تحقیق اور پا پولر تحریروں کے معرفت نوجوانوں کو آگاہ اور با خبر رکھنے کی ضرورت ہے۔