فکر و نظر

ہاشم پورہ: انصاف تو ملا مگر اذیت باقی ہے…

اس پورے کیس کا سیریس پہلو یہ ہے کہ ان تمام سالوں میں صوبہ میں سیکولر پارٹیوں کی حکومت رہی، ان حکومتوں کے زمانے میں عدالتوں میں پیروی اتنی کمزور رہی کہ نچلی عدالت نے تمام قصورواروں کو 2015میں بری کردیا۔

فوٹو: پروین جین

فوٹو: پروین جین

31سا ل تک دربد ر کی ٹھوکریں کھانے کے بعد اتر پردیش کے شہر میرٹھ کے ہاشم پورہ محلہ کے مسلم متاثرین کو بالآخر انصا ف مل گیا۔ دہلی ہائی کورٹ نے حال ہی میں ذیلی عدالت کے فیصلے کو پلٹتے ہوئے پولیس کے 16اہلکارو ں کو عمر قید کی سزا سنائی،جنہوں نے 1987میں عین جمعتہ الوداع کے موقعہ پر اس علاقے میں خون کی ہولی کھیلی تھی۔

کانگریس حکومت کی طرف سے بابری مسجد کا تالہ کھولنے اور وہاں پوجاپاٹ کی اجازت دینے سے پورے ملک میں کشیدگی کا ماحول تھا اور میرٹھ میں فسادات پھوٹ پڑے تھے۔ بہار میں بھاگلپور ضلع اور ہاشم پورہ کے واقعات ہندوستانی سیاست میں ایک سنگ میل کی حثیت رکھتے ہیں۔ ان واقعات نے سیاسی صورت حال کو اس قدر بدل کر رکھ دیا کہ تین دہائیو ں سے سیاسی لحاظ سے اہم ان دونوں صوبوں میں کانگریس پارٹی اقتدار سے محرومی کا زخم چاٹ رہی ہے اور ابھی تک انتہائی کوششوں کے باوجود پیر نہیں جما پا رہی ہے۔

 الیکشن کا زمانہ ہم جیسے صحافیوں کو ملک کے مختلف حصوں کا دورہ کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے ورنہ عام حالات میں تو ہماری دوڑ دھوپ اقتدار کے گلیاروں سے خبریں لانے تک ہی محدود ہوکر رہ جاتی ہیں۔ جب اترپردیش اسمبلی کے لیے انتخابات ہورہے تھے، مجھے دیوبند اور مغربی اترپردیش کے دیگر حصوں کا دورہ کرنے کا موقعہ ملا۔ واپسی پر میرٹھ میں قیام کرکے میں نے چند گھنٹے ہاشم پورہ میں گزارے۔ ایک تنگ گلی میں داخل ہوئے ہی تھے کہ ایک کونے سے آہ و بکا کی صدائیں سنائی دیں۔

 معلوم ہوا کہ 95سالہ بوڑھی پیرو ابھی تک اپنے 16سالہ لخت جگر نظام الدین کو ڈھونڈ رہی ہے۔ اور جب دورے پڑتے ہیں ، تو آوازیں دے دے کر اپنا برا حال کردیتی ہے۔1987 کے جمعتہ الوداع کی نماز سے فراغت کے بعد جب اس گلی کے مسلمان افطار کی تیاریوں میں مصروف تھے، کہ آرمی کی ایک یونٹ نے علاقہ کا گھیراؤکرکے تلاشی شروع کی۔ مکینوں کو ہاتھ سر پر رکھ کر سٹرک پر آنے کو کہا گیا۔ چونکہ شہر میں فسادات پھوٹ پڑے تھے، سویلین انتظامیہ کی مدد کیلئے فوج طلب کی گئی تھی۔

 تقریباً600افراد کو سڑک پر قطاروں میں کھڑا کرکے اتر پردیش کی آرمڈ پولیس یعنی پراونشل آرمڈ کانسٹبلری (پی اے سی) کے پلاٹون کمانڈر سریندر پال سنگھ کے حوالے کیا گیا۔ اس پورے واقعے کی ریکارڈنگ انڈین ایکسپریس سے وابستہ کیمرہ مین پروین جین نے کی تھی، جو عدالت میں اس واقعہ کے گواہ بھی تھے۔ بتایا جاتا ہے کہ ہاشم پورہ کے پاس ہی آرمی کے میجر ستیش کوشک کے بھائی پربھات کوشک جو آر ایس ایس کا رکن تھا ، کا قتل ہوا تھا، جس کے وجہ سے فوج نے اس علاقے میں تلاشی کی کارروائی کی۔

 پی اے سی نے 600افراد میں 45نوجوانوں کو الگ کرکے ایک ٹرک میں سوارکرکے پاس کے ضلع غازی آباد میں مراد نگر کے گنگ نہر کے کنارے رات کے اندھیرے میں قتل کرکے لاشیں ندی میں پھینک دی۔ اگلے دن اس علاقے کے ایس ایس پی وبھوتی نارائن رائے جب معمول کی گشت پر تھے، تو انہوں نے ایک شخص بابو دین کو ندی کے کنارے خون میں لت پت دیکھا۔ پولیس کی گاڑی دیکھ کر وہ چھپنے کی کوشش کرنے لگا۔ قریب جاکر معلوم ہوا کہ اس کو گولی لگی تھی۔

 اس قتل عام کا اس افسر پر اتنا اثر ہوا کہ اس نے اس کے پس منظر میں بعد میں ایک ناول ’شہر میں کرفیو‘ تحریر کی اور ڈاکٹریٹ میں فرقہ وارنہ فسادات کو موضوع بنا کر مقالہ لکھا۔89 سالہ جمال الدین انصاری مجھے بتارہے تھے کہ جب بی جے پی کے چوٹی کے رہنما لال کرشن اڈوانی یہاں آئے تھے اورحقیقی صورت حال سے واقف ہوئے تو انہوں نے بھی ہمدردی کا اظہار کیا تھا۔

1987 تک جمال الدین قینچی کے بڑے تاجر وں میں سے تھے لیکن آج دو وقت کی روٹی کے لئے ایک تنگ گلی میں ایک چھوٹی سی دکان کی آمدنی ہی ان کا سہارا ہے۔ان کے 22سالہ کڑیل جوان بیٹے قمرالدین کو قتل کردیا تھا۔ انہوں نے اس کے کپڑوں سے اس کی شناخت کی تھی۔جمال الدین کہہ رہے تھے کہ؛

اس کے بعد سے تو میری زندگی ہی تباہ ہوکر رہ گئی۔ میرے بیشتر خریدار ہندو تھے ‘جنہوں نے فسادات کے بعد خوف اور نفرت کے سبب ہم سے مال خریدنا بند کردیا۔

اس قتل عام میں زندہ بچ جانے والے پانچ لوگوں میں سے بابو دین نے اپنے جسم پر لگے تین گولیوں کے نشانات دکھائے۔بابو دین کی عمر اب 49 برس ہوگئی ہے۔ وہ اب بھی اس بھیانک گھڑی کو یاد کرکے کانپ جاتے ہیں؛

ٹرک نہر کے کنارے رکا ۔ کچھ جوان ٹرک سے کود کر نیچے آئے انہوں نے ٹرک کا پچھلا حصہ کھولا اور ہم لوگوں کو اترنے کا حکم دیا۔اس کے بعد اچانک بندوقیں آگ اگلنے لگی اور لوگ خون میں لت پت نہر میں گرنے لگے۔جب میری باری آئی تو ایسا لگا کہ شاید وہ گولیاں چلاتے چلاتے تھک گئے تھے۔ مجھے تین گولیاں لگیں۔ ایک پیچھے سے چھو کر گذر گئی‘ ایک کندھے کی طرف لگی اور ایک گولی سینے کے داہنے کنارے پر ۔ میں گر پڑا ۔ میرا آدھا جسم جھاڑیوں میں تھا اور آدھا نہر میں۔ میں بے ہوش تھا۔ اگلے دن مراد نگر کی پولیس گشتی پارٹی نے مجھے اور سراج الدین نامی ایک اور زخمی کو وہاں سے اٹھا کر ایک اسپتال میں پہنچا دیا۔

ہاشم پورہ کے دورہ کے دوران ایک اور اہم ایشو کی طرف توجہ مبذول ہوئی۔ گلی میں ایک پرنٹنگ پریس سے ایک شخص برآمد ہوا۔ وہ کوئی مزدور معلوم ہوتا تھاکیوں کہ اس کے ہاتھوں میں روشنائی کے داغ او رکپڑوں پرہر طرف دھبے لگے ہوئے تھے ۔ معلوم ہوا کہ یہ اقبال احمدہیں جو درحقیقت ایک یونانی میڈیکل گریجویٹ ہیں اور ایک نرسنگ ہوم میں ڈاکٹر تھے۔

 لیکن 31 برس قبل ان کی زندگی اس وقت پوری طرح بدل گئی جب آرمی ان کو بھی اٹھا کر لے گئی تھی۔ وہ بہر حال خوش قسمت تھے کہ پولیس کے حوالے کرنے کے بعد ان کو اذیتوں سے گذار کر جیل میں ڈال دیا گیا۔اقبال کی زندگی تباہ ہوگئی اور اسی کے ساتھ وہ ذہنی مریض بن گئے۔ ان کا میڈیکل لائسنس منسوخ کیا گیا۔ جب وہ صحت یاب ہوئے تو روزی روٹی کیلئے کبھی سبزی کے ٹھیلے لگائے تو کبھی کباڑی کا کام کیا۔

 2006کے بعد سچر کمیٹی کی رپورٹ کے بعد منموہن سنگھ حکومت نے جب اقلیتوں کی فلاح و بہبود کی اسکیموں کا اعلان کیا، تو اقبال نے بھی پرنٹنگ پریس کا یونٹ کھولنے کیلئے لون کیلئے درخواست دی، جو اقلیتی وزارت سے منظور تو ہوئی، مگر مقامی بینکوں نے معذرت کی۔ بینک منیجر وں کا کہنا تھا کہ یونٹ لگانے کیلئے جگہ اور بلڈنگ اپنی ملکیت ہونی چاہئے؛

 اگر اتنی استعداد ہوتی تو قرضہ مانگنے ہی کون جاتا۔

خیر اقبال کا کہنا تھا کہ چند سال تگ و دو کے بعد اس نے یونٹ لگانے کا خیال چھوڑ دیا۔جب میں نے پوچھا کہ یہ پریس پھر آخر کس طرح قائم ہوا، تو وہ گویا ہوا کہ چند برس قبل پاس چوراہے پرجموں و کشمیر بینک کی شاخ کھل گئی۔ وہاں منیجر نے کاغذ ات دیکھنے کے بعد خود ہی ساتھ آکر جگہ کا معائنہ کرکے اگلے دن ہی لون کو منظوری دی۔ اس نے کئی دیگر افراد کے بارے میں بھی بتایا کہ وہ اسی بینک کی وجہ سے کارخانے لگانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔

بس اگلے دن میں بینک کے دفتر پہنچا، منیجر نیا آیا تھا، جو سرینگر سے تعلق رکھتا تھا۔ مسکراتے ہوئے اس نے کہا ، کہ ہاں پچھلے منیجر نے قرضے دیکر ان کی مدد کی ہے؛

 اگر ہم ان کی مدد نہیں کریں گے، تو کون کرےگا۔

یہ بھی بتایاکہ  ایسے جن افراد کو انہوں نے قرضے دئے ہیں ، تقریباً90فیصد سے زائد رقوم انہوں نے واپس کی ہیں۔ ہندوستانی مسلم اکابرین اگر متوجہ ہوں، تو یہ ان کے لیے ایک اکسیر ہے کہ جموں و کشمیر بینک، جو اس وقت ہندوستان کا چوتھا بڑا پبلک سیکٹر بینک ہے کی حوصلہ افزائی کرکے اس کو مسلم اکثریتی علاقوں میں شاخیں کھولنے کی ترغیب دیں، تو شاید ان کیلئے اقتصادی خوشحالی کی ایک نئی داستان رقم ہوسکتی ہے۔

ویڈیو : ہاشم پورہ قتل عام کی کہانی، پولیس آفیسر وی این رائے کی زبانی

 ہاشم پورہ کے متاثرین شاید گجرات کے فسادزدگان کی طرح اتنے خوش قسمت نہیں تھے،جہاں 2002 کے فسادات کے بعدغیرسرکاری تنظیموں کے جھنڈ کے جھنڈ متاثرین کو انصاف دلانے کے لئے میدان میں اتر آئے تھے۔اس معاملہ کو کس حد تک دبانے کی کوشش کی گئی ، کہ وبھوتی نارائن رائے نے جب اس کی تفتیش شروع کی تو 48گھنٹوں کے اندر ہی ان سے کیس چھین کر کرائم برانچ کی سی آئی ڈی سیل کے سپرد کی گئی۔

 جس نے 6سال تک معاملے کو لٹکائے رکھا۔ جب 1994میں اس نے رپورٹ دی تو اگلے کئی سال اس کو عدالت پہنچے میں لگے۔ جب معاملہ 2001میں دہلی کی عدالت میں منتقل ہوا تو اترپردیش کی حکومت نے دو سال تک سرکاری وکیل ہی مقرر نہیں کیا۔اس پورے کیس کا سیریس پہلو یہ ہے کہ ان تمام سالوں میں صوبہ میں سیکولر پارٹیوں یعنی سماج وادی پارٹی یا بہوجن سماج پارٹی کی حکومت رہی، جو مسلمانوں کے ووٹوں کے بل پر ہی اقتدار میں آئی تھیں۔

 ان حکومتوں کے زمانے میں عدالتوں میں پیروی اتنی کمزور رہی کہ نچلی عدالت نے تمام قصورواروں کو 2015میں بری کردیا۔ کانگریس پارٹی کا تو ذکر ہی کیا خود کو مسلمانوں کے کاز کا سب سے بڑا چمپئن قرار دینے والے ملائم سنگھ یادو نے بھی اپنی حکومت کے دور میں ہاشم پورہ کے متاثرین کو انصاف دلانے کے لئے کچھ نہیں کیا۔ ایک کارنامہ اگر مودی حکومت کے کھاتے میں جاتا ہے تو یہ کہ پچھلے دو سالوں سے ہائی کورٹ میں کارروائی کے دوران اس نے خاطیوں کو بچانے کی کوشش نہیں کی، بلکہ سرکاری وکیلوں نے جم کر اس کیس کی پیروی کرکے ملزمین کو کیفر کردار تک پہنچانے میں مدد کی۔